Surah

Information

Surah # 52 | Verses: 49 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 76 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الطُّوْر نام : پہلے ہی لفظ وَالطُّوْرِ سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : مضامین کی اندرونی شہادت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی مکہ معظمہ کے اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورہ ذاریات نازل ہوئی تھی ۔ اس کو پڑھتے ہوئے یہ تو ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی ، مگر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ظلم و ستم کی چکی زور شور سے چلنی شروع ہو گئی تھی ۔ موضوع اور مباحث : اس کے پہلے رکوع کا موضوع آخرت ہے ۔ سورہ ذاریات میں اس کے امکان اور وجوب اور وقوع کے دلائل دیے جا چکے تھے ، اس لیے یہاں ان کا اعادہ نہیں کیا گیا ہے ، البتہ آخرت کی شہادت دینے والے چند حقائق و آثار کی قسم کھا کر پورے زور کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ یقیناً واقع ہو کر رہے گی اور کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اسے برپا ہونے سے روک دے ۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آئے گی تو اس کے جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوگا ، اور اسے مان کر تقویٰ کی روش اختیار کر لینے والے کس طرح اللہ کے انعامات سے سرفراز ہوں گے ۔ اس کے بعد دوسرے رکوع میں سرداران قریش کے اس رویے پر تنقید کی گئی ہے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کیے ہوئے تھے ۔ وہ آپ کو کبھی کاہن ، کبھی مجنون اور کبھی شاعر قرار دے کر عوام الناس کو آپ کے خلاف بہکاتے تھے تاکہ لوگ آپ کے لائے ہوئے پیغام کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ کریں ۔ وہ آپ کی ذات کو اپنے حق میں ایک بلائے ناگہانی سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ کوئی آفت ان پر نازل ہو جائے تو ہمارا ان سے پیچھا چھوٹے ۔ وہ آپ پر الزام لگاتے تھے کہ یہ قرآن آپ خود گھڑ گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کر رہے ہیں اور یہ معاذاللہ ایک فریب ہے جو آپ نے بنا رکھا ہے ۔ وہ بار بار طنز کرتے تھے کہ خدا کو نبوت کے لیے ملے بھی تو بس یہ صاحب ملے ۔ وہ آپ کی دعوت و تبلیغ سے ایسی بیزاری کا اظہار کرتے تھے جیسے آپ کچھ مانگنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے آپ سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔ وہ آپس میں بیٹھ بیٹھ کر سوچتے تھے کہ آپ کے خلاف کیا چال ایسی چلی جائے جس سے آپ کی اس دعوت کا خاتمہ ہو جائے ۔ اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہیں اس امر کا کوئی احساس نہ تھا کہ وہ کیسے جاہلانہ عقائد میں مبتلا ہیں جن کی تاریکی سے لوگوں کو نکالنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے غرضانہ اپنی جان کھپا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی رویے پر تنقید کرتے ہوئے پے در پے کچھ سوالات کیے ہیں جن میں سے ہر سوال یا تو ان کے کسی اعتراض کا جواب ہے یا ان کی کسی جہالت پر تبصرہ ۔ پھر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو آپ کی نبوت کا قائل کرنے کے لیے کوئی معجزہ دکھانا قطعی لا حاصل ہے ، کیونکہ یہ ایسے ہٹ دھرم لوگ ہیں انہیں خواہ کچھ بھی دکھا دیا جائے ، یہ اس کی کوئی تاویل کر کے ایمان لانے سے گریز کر جائیں گے ۔ اس رکوع کے آغاز میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان مخالفین و معاندین کے الزامات و اعتراضات کی پروا کیے بغیر اپنی دعوت و تذکیر کا کام مسلسل جاری رکھیں ، اور آخر میں بھی آپ کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ صبر کے ساتھ ان مزاحمتوں کا مقابلہ کیے چلے جائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آ جائے ۔ اس کے ساتھ آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو دشمنان حق کے مقابلے میں اٹھا کر اپنے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ وہ برابر آپ کی نگہبانی کر رہا ہے ۔ جب تک اس کے فیصلے کی گھڑی آئے ، آپ سب کچھ برداشت کرتے رہیں اور اپنے رب کی حمد و تسبیح سے وہ قوت حاصل کرتے رہیں جو ایسے حالات میں اللہ کا کام کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے ۔
حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا ہے آپ سے زیادہ خوش آواز اور آپ سے زیادہ اچھی قرأت والا میں نے تو کسی کو نہیں سنا ( موطا مالک ) حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں زمانہ حج میں میں بیمار تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اپنا حال کہا تو آپ نے فرمایا تم سواری پر سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے پیچھے طواف کر لو ، چنانچہ میں نے سواری پر بیٹھ کر طواف کیا اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہے تھے اور آیت ( وَالطُّوْر وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ ِ ) 52- الطور:1 ) کی تلاوت فرما رہے تھے ( بخاری ) ۔