Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ اِلَيۡنَاۤ اَلَّا نُؤۡمِنَ لِرَسُوۡلٍ حَتّٰى يَاۡتِيَنَا بِقُرۡبَانٍ تَاۡكُلُهُ النَّارُ‌ؕ قُلۡ قَدۡ جَآءَكُمۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِىۡ بِالۡبَيِّنٰتِ وَبِالَّذِىۡ قُلۡتُمۡ فَلِمَ قَتَلۡتُمُوۡهُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿183﴾
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا جائے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچّے ہو تو مجھ سے پہلے تمہارے پاس جو رسول دیگر معجزوں کے ساتھ یہ بھی لائے جیسے تم کہہ رہے ہو پھر تم نے انہیں کیوں مار ڈالا؟
الذين قالوا ان الله عهد الينا الا نؤمن لرسول حتى ياتينا بقربان تاكله النار قل قد جاءكم رسل من قبلي بالبينت و بالذي قلتم فلم قتلتموهم ان كنتم صدقين
[They are] those who said, "Indeed, Allah has taken our promise not to believe any messenger until he brings us an offering which fire [from heaven] will consume." Say, "There have already come to you messengers before me with clear proofs and [even] that of which you speak. So why did you kill them, if you should be truthful?"
Yeh woh log hai jonhon ney kaha kay Allah Taalaa ney humen hukum diya hai kay kissi rasool ko na manen jab tak woh humaray pass aisi qurbani na laye jissay aag kha jaye. Aap keh dijiye kay agar um sachay ho to mujh say pehlay tumharay pass jo rasool deegar moajzon kay sath yeh bhi laye jissay tum keh rahey ho to phir tum ney unhen kiyon maar dala?
یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ : اللہ نے ہم سے یہ وعدہ لیا ہے کہ کسی پیغمبر پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر نہ آئے جسے آگ کھا جائے ۔ ( ٦٣ ) تم کہو کہ : مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے پیغمبر کھلی نشانیاں بھی لے کر آئے اور وہ چیز بھی جس کے بارے میں تم نے ( مجھ سے ) کہا ہے ۔ پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا اگر تم واقعی سچے ہو؟
وہ جو کہتے ہیں اللہ نے ہم سے اقرار کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک ایسی قربانی کا حکم نہ لائے جس آگ کھائے ( ف۳٦۲ ) تم فرمادو مجھ سے پہلے بہت رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں اور یہ حکم لے کر آئے جو تم کہتے ہو پھر تم نے انہیں کیوں شہید کیا اگر سچے ہو ( ف۳٦۳ )
جو لوگ کہتے ہیں اللہ نے ہم کو ہدایت کر دی ہے کہ ہم کسی کو رسول تسلیم نہ کریں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ کرے جسے﴿غیب سے آکر﴾ آگ کھا لے ان سے کہو تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت رسول آچکے ہیں جو بہت سی روشن نشانیاں لائے تھے اور وہ نشانی بھی لائے تھے جس کا تم ذکر کرتے ہو ، پھر اگر ﴿ایمان لانے کے لیے یہ شرط پیش کرنے میں﴾ تم سچے ہو تو ان رسولوں کو تم نے کیوں قتل کیا ؟ 129
جو لوگ ( یعنی یہود حیلہ جوئی کے طور پر ) یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں یہ حکم بھیجا تھا کہ ہم کسی پیغمبر پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ ( اپنی رسالت کے ثبوت میں ) ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ ( آکر ) کھا جائے ، آپ ( ان سے ) فرما دیں: بیشک مجھ سے پہلے بہت سے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے اور اس نشانی کے ساتھ بھی ( آئے ) جو تم کہہ رہے ہو تو ( اس کے باوجود ) تم نے انہیں شہید کیوں کیا اگر تم ( اتنے ہی ) سچے ہو
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :129 بائیبل میں متعدد مقامات پر یہ ذکر آیا ہے کہ خدا کے ہاں کسی قربانی کے مقبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ غیب سے ایک آگ نمودار ہو کر اسے بھسم کر دیتی تھی ( قضاة ٦: ۲۰ ۔ ۲١ و ١۳: ١۹ ۔ ۲۰ ) ۔ نیز یہ ذکر بھی بائیبل میں آتا ہے کہ بعض مواقع پر کوئی نبی سوختنی قربانی کرتا تھا اور ایک غیبی آگ آکر اسے کھا لیتی تھی ( احبار ۔ ۹ : ۲٤ ۔ ۲ ۔ تواریخ ۔ ۷ : ١ ۔ ۲ ) ۔ لیکن یہ کسی جگہ بھی نہیں لکھا کہ اس طرح کی قربانی نبوت کی کوئی ضروری علامت ہے ، یا یہ کہ جس شخص کو یہ معجزہ نہ دیا گیا ہو وہ ہرگز نبی نہیں ہو سکتا ۔ یہ محض ایک من گھڑت بہانا تھا جو یہودیوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے کے لیے تصنیف کر لیا تھا ۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی حق دشمنی کا ثبوت یہ تھا کہ خود انبیاء بنی اسرائیل میں سے بعض نبی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے آتشیں قربانی کا یہ معجزہ پیش کیا اور پھر بھی یہ جرائم پیشہ لوگ ان کے قتل سے باز نہ رہے ۔ مثال کے طور پر بائیبل میں حضرت الیاس علیہ السلام ( ایلیاہ تشبی ) کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے بعل کے پجاریوں کو چیلنج دیا کہ مجمع عام میں ایک بیل کی قربانی تم کرو اور ایک کی قربانی میں کرتا ہوں ۔ جس کی قربانی کو غیبی آگ کھالے وہی حق پر ہے ۔ چنانچہ ایک خلق کثیر کے سامنے یہ مقابلہ ہوا اور غیبی آگ نے حضرت الیاس علیہ السلام کی قربانی کھائی ۔ لیکن اس کا جو کچھ نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ اسرائیل کے بادشاہ کی بعل پرست ملکہ حضرت الیاس علیہ السلام کی دشمن ہو گئی ، اور وہ زن پرست بادشاہ اپنی ملکہ کی خاطر ان کے قتل کے درپے ہوا اور ان کو مجبوراً ملک سے نکل کر جزیرہ نما ئے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی ( ١ ۔ سلاطین ۔ باب ١۸ و ١۹ ) ۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا ہے کہ حق کے دشمنو! تم کس منہ سے آتشیں قربانی کا معجزہ مانگتے ہو ؟ جن پیغمبروں نے یہ معجزہ دکھایا تھا انہی کے قتل سے تم کب باز رہے ۔