Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
كُلُّ نَفۡسٍ ذَآٮِٕقَةُ الۡمَوۡتِ‌ؕ وَاِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ‌ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ‌ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ‏ ﴿185﴾
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنّت میں داخل کر دیا جائے بیشک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے
كل نفس ذاىقة الموت و انما توفون اجوركم يوم القيمة فمن زحزح عن النار و ادخل الجنة فقد فاز و ما الحيوة الدنيا الا متاع الغرور
Every soul will taste death, and you will only be given your [full] compensation on the Day of Resurrection. So he who is drawn away from the Fire and admitted to Paradise has attained [his desire]. And what is the life of this world except the enjoyment of delusion.
Her jaan maut ka maza chakhney wali hai aur qayamat kay din tum apney badlay pooray pooray diye jao gay pus jo shaks aag say hata diya jaye aur jannat mein dakhil ker diya jaye be-shak woh kaamyaab hogaya aur duniya ki zindagi to sirf dhokay ki jinss hai.
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ، اور تم سب کو ( تمہارے اعمال کے ) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے ۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا ، اور یہ دنیوی زندگی تو ( جنت کے مقابلے میں ) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
ہر جان کو موت چکھنی ہے ، اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے ، جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا ، اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے ( ف۳٦٦ )
آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو ۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے ۔ رہی یہ دنیا ، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے ۔ 130
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے ، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے ، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعۃً کامیاب ہو گیا ، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :130 یعنی اس دنیا کی زندگی میں جو نتائج رونما ہوتے ہیں انہی کو اگر کوئی شخص اصلی اور آخری نتائج سمجھ بیٹھے اور انہی پر حق و باطل اور فلاح و خسران کے فیصلے کا مدار رکھے تو درحقیقت وہ سخت دھوکہ میں مبتلا ہو جائے گا ۔ یہاں کسی پر نعمتوں کی بارش ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہی حق پر بھی ہے اور اسی کو اللہ کی بارگاہ میں قبولیت بھی حاصل ہے ۔ اور اسی طرح یہاں کسی کا مصائب و مشکلات میں مبتلا ہونا بھی لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ باطل پر ہے اور مرد ود بارگاہ الہٰی ہے ۔ اکثر اوقات اس ابتدائی مرحلہ کے نتائج ان آخری نتائج کے برعکس ہوتے ہیں جو حیات ابدی کے مرحلہ میں پیش آنے والے ہیں ۔ اور اصل اعتبار انہی نتائج کا ہے ۔
موت و حیات اور یوم حساب تمام مخلوق کو عام اطلاع ہے کہ ہر جاندار مرنے والا ہے جیسے فرمایا آیت ( كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ 26۝ښ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27۝ۚ ) 55 ۔ الرحمن:26-27 ) یعنی اس زمین پر جتنے ہیں سب فانی ہیں صرف رب کا چہرہ باقی ہے جو بزرگی اور انعام والا ہے ، پس صرف وہی اللہ وحدہ لا شریک ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبھی فنا نہ ہو گا ، جن انسان کل کے کل مرنے والے ہیں اسی طرح فرشتے اور حاملان عرش بھی مر جائیں گے اور صرف اللہ وحدہ لا شریک دوام اور بقاء والا باقی رہ جائے گا پہلے بھی وہی تھا اور آخر بھی وہی رہے گا ، جب سب مر جائیں گے مدت ختم ہو جائے گی صلب آدم سے جتنی اولاد ہونے والی تھی ہو چکی اور پھر سب موت کے گھاٹ اتر گئے مخلوقات کا خاتمہ ہو گیا اس وقت اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے گا اور مخلوق کو ان کے کل اعمال کے چوٹے بڑے چھپے کھلے صغیرہ کبیرہ سب کی جزا سزا ملے گی کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا یہی اس کے بعد کے جملہ میں فرمایا جا رہا ہے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ گویا کوئی آرہا ہے ہمیں پاؤں کی چاپ سنائی دیتی تھی لیکن کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا تھا اس نے آکر کہا اے اہل بیت تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکت ، ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے تم سب کو تمہارے اعمال کا بدلہ پورا پورا قیامت کے دن دیا جائے گا ۔ ہر مصیبت کی تلافی اللہ کے پاس ہے ، ہر مرنے والے کا بدلہ ہے اور ہر فوت ہونے والے کا اپنی گم شدہ چیز کو پا لینا ہے اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اسی سے بھلی امیدیں رکھو سمجھ لو کہ سچ مچ مصیبت زدہ وہ شخص جو ثواب سے محروم رہ جائے تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اس کی رحمتیں اور برکتیں ( ابن ابی حاتم ) حضرت علی کا خیال ہے کہ یہ خضر علیہ السلام تھے حقیقت یہ ہے کہ پورا کامیاب وہ انسان ہے جو جہنم سے نجات پا لے اور جنت میں چلا جائے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ مل جانا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے اگر تم چاہو تو پڑھو آیت ( فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ) 3 ۔ آل عمران:185 ) آخری ٹکڑے کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے اور کچھ زیادہ الفاظ کے ساتھ ابن ابی حاتم میں ہے اور ابن مردویہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کی خواہش آگ سے بچ جانے اور جنت میں داخل ہو جانیکی ہو اسے چاہئے کہ مرتے دم تک اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ سلوک کرے جسے خود اپنے پسند کرتا ہو ، یہ حدیث پہلے آیت ( وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:102 ) کی تفسیر میں گذر چکی ہے ، مسند احمد میں بھی اور وکیع بن جراح کی تفسیر میں بھی یہی حدیث ہے ۔ اس کے بعد دنیا کی حقارت اور ذلت بیان ہو رہی ہے کہ یہ نہایت ذلیل فانی اور زوال پذیر چیز ہے ارشاد ہے آیت ( بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا 16۝ڮ وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى 17۝ۭ ) 87 ۔ الاعلیٰ:16 ) یعنی تم تو دنیا کی زندگی پر ریجھے جاتے ہو حالانکہ دراصل بہتری اور بقاء والی چیز آخرت ہے ، دوسری آیت میں ہے تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے یہ تو حیات دنیا کا فائدہ ہے اور اس کی بہترین زینت اور باقی رہنے والی تو وہ زندگی ہے جو اللہ کے پاس ہے ، حدیث شریف میں ہے اللہ کی قسم دنیا آخرت کے مقابلہ میں صرف ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو لے اس انگلی کے پانی کو سمندر کے پانی کے مقابلہ میں کیا نسبت ہے آخرت کے مقابلہ میں دنیا ایسی ہی ہے ، حضرت قتادہ کا ارشاد ہے دنیا کیا ہے ایک یونہی دھوکے کی جگہ ہے جسے چھوڑ چھاڑ کر تمہیں چل دینا ہے اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کہ یہ تو عنقریب تم سے جدا ہونے والی اور برباد ہونے والی چیز ہے پس تمہیں چاہئے کہ ہوش مندی برتو اور یہاں اللہ کی اطاعت کر لو اور طاقت بھر نیکیاں کما لو اللہ کی دی ہوئی طاقت کے بغیر کوئی کام نہیں بنتا ۔ آزمائش لازمی ہے صبرو ضبط بھی ضروری پھر انسانی آزمائش کا ذکر ہو رہا ہے جیسے ارشاد ہے آیت ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:155 ) مطلب یہ ہے کہ مومن کا امتحان ضرور ہوتا ہے کبھی جانی کبھی مالی کبھی اہل و عیال میں کبھی اور کسی طرح یہ آزمائش دینداری کے انداز کے مطابق ہوتی ہے ، سخت دیندار کی ابتلاء بھی سخت اور کمزور دین والے کا امتحان بھی کمزور ، پھر پروردگار جل شانہ صحابہ کرام کو خبر دیتا ہے کہ بدر سے پہلے مدینہ میں تمہیں اہل کتاب سے اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں اور سرزنش سننی پڑے گی ، پھر تسلی دیتا ہوا طریقہ سکھاتا ہے کہ تم صبرو ضبط کر لیا کرو اور پرہیز گاری پر تو یہ بڑا بھاری کام ہے ، حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مشرکین سے اور اہل کتاب سے بہت کچھ درگذر فرمایا کرتے تھے اور ان کی ایذاؤں کو برداشت کر لیا کرتے تھے اور رب کریم کے اس فرمان پر عامل تھے یہاں تک کہ جہاد کی آیتیں اتریں ، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر حضرت اسامہ کو اپنے بھتیجے بٹھا کر حضرت سعد بن عباد کی عیادت کے لئے بنو حارث بن خزرج کے قبیلے میں تشریف لے چلے یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے راستہ میں ایک مخلوط مجلس بیٹھی ہوئی ملی جس میں مسلمان بھی تھے یہودی بھی تھی ۔ مشرکین بھی تھے اور عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا یہ بھی اب تک کفر کے کھلے رنگ میں تھا مسلمانوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے گردوغبار جو اڑا تو عبداللہ بن ابی سلول نے ناک پر کپڑا رکھ لیا اور کہنے لگا غبار نہ اڑاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پاس پہنچ ہی چکے تھے سواری سے اتر آئے سلام کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن کی چند آیتیں سنائیں تو عبداللہ بول پڑا سنئے صاحب آپ کا یہ طریقہ ہمیں پسند نہیں آپ کی باتیں حق ہی سہی لیکن اس کی کیا وجہ کہ آپ ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں ایذاء دیں اپنے گھر جائیے جو آپ کے پاس آئے اسے سنائیے ۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں ہمیں تو اس کی عین چاہت ہے اب ان کی آپس میں خوب جھڑپ ہوئی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگا اور قریب تھا کہ کھڑے ہو کر لڑنے لگیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے بجھانے سے آخر امن و امان ہو گیا اور سب خاموش ہو گئے ۔ آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر حضرت سعد کے ہاں تشریف لے گئے اور وہاں جا کر حضرت سعد سے فرمایا کہ ابو حباب عبداللہ بن ابی سلول نے آج تو اس طرح کیا حضرت سعد نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جانے دیجئے معاف کیجئے اور درگذر کیجئے قسم اللہ کی جس نے آپ پر قرآن اتارا اسے آپ سے اس لئے بیحد دشمنی ہے اور ہونی چاہئے کہ یہاں کے لوگوں نے اسے سردار بنانا چاہا تھا اسے چودراہٹ کی پگڑی بندھوانے کا فیصلہ ہو چکا تھا ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا نبی برحق بنا کر بھیجا لوگوں نے آپ کو نبی مانا اس کی سرداری جاتی رہی جس کا اسے رنج ہے اسی باعث یہ اپنے جلے دل کے پھپولے پھوڑ رہا ہے جو کہدیا کہدیا آپ اسے اہمیت نہ دیں چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے درذگر کر لیا اور یہی آپ کی عادت تھی اور آپ کے اصحاب کی بھی ، یہودیوں سے مشرکوں سے درذگر فرماتے سنی ان سنی کر دیا کرتے اور اس فرمان پر عمل کرتے ، یہی حکم آیت ( ودکثیر ) میں ہے جو حکم عفو و درگزر کا اس آیت ( ولتسمعن ) میں ہے ۔ بعد ازاں آپ کو جہاں کی اجازت دی گئی اور پہلا غزوہ بدر کا ہوا جس میں لشکر کفار کے سرداران قتل و غارت ہوئے یہ حالت اور شوکت اسلام دیکھ کر اب عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی گھبرائے بجز اس کے کوئی چارہ کار انہیں نظر نہ آیا کہ بیعت کرلیں اور بظاہر مسلمان جائیں ۔ پس یہ کلیہ قاعدہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر حق والے پر جو نیکی اور بھلائی کا حکم کرتا رہے اور جو برائی اور خلاف شرع کام سے روکتا رہے اس پر ضرور مصیبتیں اور آفتیں آتی ہیں اسے چاہئے کہ ان تمام تکلیفوں کو جھیلے اور اللہ کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لے اسی کی پاک ذات پر بھروسہ رکھے اسی سے مدد طلب کرتا رہے اور اپنی کامل توجہ اور پورا رجوع اسی کی طرف رکھے ۔