Surah

Information

Surah # 52 | Verses: 49 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 76 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَاِنۡ يَّرَوۡا كِسۡفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا يَّقُوۡلُوۡا سَحَابٌ مَّرۡكُوۡمٌ‏ ﴿44﴾
اگر یہ لوگ آسمان کے کسی ٹکڑے کو گرتا ہوا دیکھ لیں تب بھی کہہ دیں کہ تہ یہ تہ بادل ہے ۔
و ان يروا كسفا من السماء ساقطا يقولوا سحاب مركوم
And if they were to see a fragment from the sky falling, they would say, "[It is merely] clouds heaped up."
Agar yeh log aasman kay kissi tukray ko girta hua dekhlen tab bhi yeh keh den key yeh teh-ba-teh badal hai.
اور اگر یہ آسمان کا کوئی ٹکڑا گرتے ہوئے بھی دیکھ لیں تو یہ کہیں گے کہ یہ کوئی گہرا بادل ہے ۔ ( ١٣ )
اور اگر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرتا دیکھیں تو کہیں گے تہ بہ تہ بادل ہے ( ف۵۷ )
یہ لوگ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے ہوئے دیکھ لیں تو کہیں گے یہ بادل ہیں جو امڈے چلے آ رہے ہیں 36 ۔
اور اگر وہ آسمان سے کوئی ٹکڑا ( اپنے اوپر ) گرتا ہوا دیکھ لیں تو ( تب بھی یہ ) کہیں گے کہ تہ بہ تہ ( گہرا ) بادل ہے
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :36 اس ارشاد سے مقصود ایک طرف سرداران قریش کی ہٹ دھرمی کو بے نقاب کرنا ، اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی دینا ہے ۔ حضور اور صحابہ کرام کے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے ان کو نبوت محمدیہ کی صداقت معلوم ہو جائے ۔ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ خواہ کوئی معجزہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، بہرحال یہ اس کی تاویل کر کے کسی نہ کسی طرح اپنے کفر پر جمے رہنے کا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے ، کیونکہ ان کے دل ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی ان کی اس ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ انعام میں فرمایا اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ماننے والے نہ تھے ۔ ( آیت 111 ) ۔ اور سورہ حجر میں فرمایا اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے ، پھر بھی یہ لوگ یہی کہتے کہ ہماری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہیں ، بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے ( آیت ۔ 15 ) ۔
طے شدہ بدنصیب اور نشست وبرخواست کے آداب مشرکوں اور کافروں کے عناد کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ اپنی سرکشی ضد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اللہ کے عذاب کو محسوس کر لینے کے بعد بھی انہیں ایمان کی توفیق نہ ہو گی یہ اگر دیکھ لیں گے کہ آسمان کا کوئی ٹکڑا اللہ کا عذاب بن کر ان کے سروں پر گر رہا ہے تو بھی انہیں تصدیق ویقین نہ ہو گا بلکہ صاف کہدیں گے کہ غلیظ ابر ہے جو پانی برسانے کو آرہا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ 14۝ۙ ) 15- الحجر:14 ) ، اگر ہم ان کے لئے آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیں اور یہ وہاں چڑھ جائیں تب بھی یہ تو یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں باندھ دی گئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے یعنی معجزات جو یہ طلب کر رہے ہیں اگر ان کی چاہت کے مطابق ہی دکھا دئیے جائیں بلکہ خود انہیں آسمانوں پر چڑھا دیا جائے جب بھی یہ کوئی بات بنا کر ٹال دیں گے اور ایمان نہ لائیں گے ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ انہیں چھوڑ دیجئے قیامت والے دن خود انہیں معلوم ہو جائے گا اس دن ان کی ساری فریب کاریاں دھری کی دھری رہ جائیں گی کوئی مکاری وہاں کام نہ دے گی چوکڑی بھول جائیں گے اور چالاکی بھول جائیں گے ۔ آج جن جن کو یہ پکارتے ہیں اور اپنا مددگار جانتے ہیں اس دن سب کے منہ تکیں گے اور کوئی نہ ہو گا جو ان کی ذرا سی بھی مدد کر سکے بلکہ ان کی طرف سے کچھ عذر بھی پیش کر سکے یہی نہیں کہ انہیں صرف قیامت کے دن ہی عذاب ہو اور یہاں اطمینان و آرام کے ساتھ زندگی گذار لیں بلکہ ان ناانصافوں کے لئے اس سے پہلے دنیا میں بھی عذاب تیار ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ 21؀ ) 32- السجدة:21 ) یعنی ہم انہیں آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ یہ رجوع کریں لیکن ان میں سے اکثر بےعلم ہیں نہیں جانتے کہ یہ دنیوی مصیبتوں میں بھی مبتلا ہوں گے اور اللہ کی نافرمانیاں رنگ لائیں گی ۔ یہی بےعلمی ہے جو انہیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے ۔ کہ گناہ پر گناہ ظلم پر ظلم کرتے جائیں پکڑے جاتے ہیں عبرت حاصل ہوتی ہے لیکن جہاں پکڑ ہٹی یہ پھر ویسے کے ویسے سخت دل بدکار بن گئے ۔ بعض احادیث میں ہے کہ منافق کی مثال اونٹ کی سی ہے جس طرح اونٹ نہیں جانتا کہ اسے کیوں باندھا اور کیوں کھولا ؟ اسی طرح منافق بھی نہیں جانتا کہ کیوں بیمار کیا گیا ؟ اور کیوں تندرست کر دیا گیا ؟ اثر الہٰی میں ہے کہ میں کتنی ایک تیری نافرمانیاں کروں گا اور تو مجھے سزا نہ دے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندے کتنی مرتبہ میں نے تجھے عافیت دی اور تجھے علم بھی نہ ہوا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صبر کیجئے ان کی ایذاء دہی سے تنگ دل نہ ہو جائیے ان کی طرف سے کوئی خطرہ بھی دل میں نہ لائیے سنئے آپ ہماری حفاظت میں ہیں آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں آپ کی نگہبانی کے ذمہ دار ہم ہیں تمام دشمنوں سے آپ کو بچانا ہمارے سپرد ہے پھر حکم دیتا ہے کہ جب آپ کھڑے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی پاکی اور تعریف بیان کیجئے اس کا ایک مطلب یہ کیا گیا ہے کہ جب رات کو جاگیں دونوں مطلب درست ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ نماز کو شروع کرتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دعا ( سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک ) صحیح مسلم ۔ یعنی اے اللہ تو پاک ہے تمام تعریفوں کا مستحق ہے تیرا نام برکتوں والا ہے تیری بزرگی بہت بلند و بالا ہے ۔ تیرے سوا معبود برحق کوئی اور نہیں مسند احمد اور سنن میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا مروی ہے مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو جاگے اور کہے دعا ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الہ الاللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ) پھر خواہ اپنے لئے بخشش کی دعا کرے خواہ جو چاہے طلب کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے پھر اگر اس نے پختہ ارادہ کیا اور وضو کر کے نماز بھی ادا کی تو وہ نماز قبول کی جاتی ہے ۔ یہ حدیث صحیح بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اللہ کی تسبیح اور حمد کے بیان کرنے کا حکم ہر مجلس سے کھڑے ہونے کے وقت ہے حضرت ابو الاحوص کا قول بھی یہی ہے کہ جب مجلس سے اٹھنا چاہے یہ پڑھے دعا ( سبحانک اللھم وبحمدک ) حضرت عطا بن ابو رباح بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر اس مجلس میں نیکی ہوئی ہے تو وہ اور بڑھ جاتی ہے اور اگر کچھ اور ہوا ہے تو یہ کلمہ اس کا کفارہ ہو جاتا ہے جامع عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دی کہ جب کبھی کسی مجلس سے کھڑے ہو تو دعا ( سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک ) پڑھو ۔ اس کے راوی حضرت معمر فرماتے ہیں میں نے یہ بھی سنا ہے کہ یہ قول اس مجلس کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ یہ حدیث تو مرسل ہے لیکن مسند حدیثیں بھی اس بارے میں بہت سی مروی ہیں جن کی سندیں ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں ایک حدیث میں ہے جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے وہاں کچھ بک جھک ہو اور کھڑا ہونے سے پہلے ان کلمات کو کہہ لے تو اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہے اس کا کفارہ ہو جاتا ہے ( ترمذی ) اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں ۔ امام حاکم اسے مستدرک میں روایت کر کے فرماتے ہیں اس کی سند شرط مسلم پر ہے ہاں امام بخاری نے اس میں علت نکالی ہے میں کہتا ہوں امام احمد امام مسلم امام ابو حاتم امام ابو زرعہ امام دارقطنی وغیرہ نے بھی اسے معلول کہا ہے اور وہم کی نسبت ابن جریج ہیں ہی نہیں ، اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں جس مجلس سے کھڑے ہوتے ان کلمات کو کہتے بلکہ ایک شخص نے پوچھا بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس سے پہلے تو اسے نہیں کہتے تھے ؟ آپ نے فرمایا مجلس میں جو کچھ ہوا ہو یہ کلمات اس کا کفارہ ہو جاتے ہیں یہ روایت مرسل سند سے بھی حضرت ابو العالیہ سے مروی ہے واللہ اعلم نسائی وغیرہ ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں یہ کلمات ایسے ہیں کہ جو انہیں مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ کہہ لے اس کے لئے یہ کفارہ ہو جاتے ہیں مجلس خیر اور مجلس ذکر میں انہیں کہنے سے یہ مثل مہر کے ہو جاتے ہیں ( ابو داؤد وغیرہ ) الحمد اللہ میں نے ایک علیحدہ جزو میں ان تمام احادیث کو ان کے الفاظ کو اور ان کی سندوں کو جمع کر دیا ہے اور ان کی علتیں بھی بیان کر دی ہیں اور اس کے متعلق جو کچھ لکھنا تھا لکھ دیا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ رات کے وقت اس کی یاد اور اس کی عبادت تلاوت اور نماز کے ساتھ کرتے رہو جیسے فرمان ہے آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀ ) 17- الإسراء:79 ) ، رات کے وقت تہجد پڑھا کرو یہ تیرے لئے نفل ہے ممکن ہے تیرا رب تجھے مقام محمود پر اٹھائے ستاروں کے ڈوبتے وقت سے مراد صبح کی فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں کہ وہ دونوں ستاروں کے غروب ہونے کے لئے جھک جانے کے وقت پڑھی جاتی ہیں چنانچہ ایک مرفوع حدیث میں ہے ان سنتوں کو نہ چھوڑو گو تمہیں گھوڑے کچل ڈالیں ۔ اسی حدیث میں ہے دن رات میں پانچ نمازیں ہیں سننے والے نے کہا کیا مجھ پر اس کے سوا اور کچھ بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ تو نفل ادا کرے بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی نفل کی بہ نسبت صبح کی دو سنتوں کے زیادہ پابندی اور ساری دنیا سے اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہیں الحمد اللہ سورہ الطور کی تفسیر پوری ہوئی ۔