Surah

Information

Surah # 53 | Verses: 62 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 23 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD). Except 32, from Madina
اَلَّذِيۡنَ يَجۡتَنِبُوۡنَ كَبٰٓٮِٕرَ الۡاِثۡمِ وَالۡفوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ‌ؕ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَةِ‌ؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِكُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَاِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّةٌ فِىۡ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡ‌ۚ فَلَا تُزَكُّوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ‌ ؕ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى‏ ﴿32﴾
ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے کسی چھوٹے سے گناہ کے بیشک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے ، وہ تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو ۔ وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ۔
الذين يجتنبون كبىر الاثم و الفواحش الا اللمم ان ربك واسع المغفرة هو اعلم بكم اذ انشاكم من الارض و اذ انتم اجنة في بطون امهتكم فلا تزكوا انفسكم هو اعلم بمن اتقى
Those who avoid the major sins and immoralities, only [committing] slight ones. Indeed, your Lord is vast in forgiveness. He was most knowing of you when He produced you from the earth and when you were fetuses in the wombs of your mothers. So do not claim yourselves to be pure; He is most knowing of who fears Him.
Inn logon ko jo baray gunahon say bachtay hain aur beyhayaee say bhi siwaye kissi chotay say gunah kay be-shak tera rab boht kushada maghfirat wala hai woh tumhen bakhoobi jaanta hai jabkay uss ney tumhen zamin say peda kiya aur jabkay tum apni maaon kay pet mein bachay thay pus tum apni pakeezgi aap biyan na kero wohi pehezgaron ko khoob janta hai.
ان لوگوں کو جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں ، البتہ کبھی کبھار پھسل جانے کی بات اور ہے ۔ ( ١٦ ) یقین رکھو تمہارا پروردگار بہت وسیع مغفرت والا ہے ، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ، اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ، لہذا تم اپنے آپ کو پاکیزہ نہ ٹھہراؤ ، وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے ۔ ( ١٧ )
وہ جو بڑے گناہوں اور بےحیائیوں سے بچتے ہیں ( ف۳٦ ) مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے ( ف۳۷ ) بیشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے ، وہ تمہیں خوب جانتا ہے ( ف۳۸ ) تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں حمل تھے ، تو آپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتاؤ ( ف۳۹ ) وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں ( ف٤۰ )
جو بڑے بڑے گناہوں30 اور کھلے کھلے قبیح افعال 31 سے پرہیز کرتے ہیں ، الا یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد 32 ہو جائے بلاشبہ تیرے رب کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے 33 ۔ وہ تمھیں اس وقت سے خوب جانتا ہے جب اس نے زمین سے تمھیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹیوں میں ابھی جنین ہی تھے ۔ پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو ، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے ۔ ع
جو لوگ چھوٹے گناہوں ( اور لغزشوں ) کے سوا بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں ، بیشک آپ کا رب بخشش کی بڑی گنجائش رکھنے والا ہے ، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہاری زندگی کی ابتداء اور نشو و نما زمین ( یعنی مٹی ) سے کی تھی اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جَنیِن ( یعنی حمل ) کی صورت میں تھے ، پس تم اپنے آپ کو بڑا پاک و صاف مَت جتایا کرو ، وہ خوب جانتا ہے کہ ( اصل ) پرہیزگار کون ہے
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :30 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، النساء ، حاشیہ 53 ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :31 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حاشیہ 130 جلد دوم ، النحل حاشیہ 89 ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :32 اصل الفاظ ہیں اِلَّا اللَّمَمَ ۔ عربی زبان میں لَمَم کا لفظ کسی چیز کی تھوڑی سی مقدار ، یا اس کے خفیف سے اثر ، یا اس کے محض قرب ، یا اس کے ذرا سی دیر رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ مثلاً کہتے ہیں اَلَمَّ بَالْمَکَانِ ، وہ شخص فلاں جگہ تھوڑی دیر ہی ٹھہرا ، یا تھوڑی دیر کے لیے ہی وہاں گیا ۔ اَلَمَّ بِالطَّعَامِ ، اس نے تھوڑا سا کھانا کھایا ۔ بِہ لَمَمٌم اس کا دماغ ذرا سا کھسکا ہوا ہے ، یا اس میں کچھ جنون کی لٹک ہے ۔ یہ لفظ اس معنی میں بولتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک فعل کا ارتکاب تو نہیں کیا مگر ارتکاب کے قریب تک پہنچ گیا ۔ فَرّاء کا قول ہے کہ میں نے عربوں کو اس طرح کے فقرے بولتے سنا ہے ضربہ مالمم القتل ، فلاں شخص نے اسے اتنا مارا کہ بس مار ڈالنے کی کسر رہ گئی ۔ اور اَلَمّ یفعل ، قریب تھا کہ فلاں شخص یہ فعل کر گزرتا ۔ شاعر کہتا ہے اَلَمت فحیّت ثم قَامت فودعت ، وہ بس ذرا کی ذرا آئی سلام کیا ، اٹھی اور رخصت ہو گئی ۔ ان استعمالات کی بنا پر اہل تفسیر میں بعض نے لمم سے مراد چھوٹے گناہ لیے ہیں ۔ بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ آدمی عملاً کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جائے مگر اس کا ارتکاب نہ کرے ۔ بعض اسے کچھ دیر کے لیے گناہ میں مبتلا ہونے اور پھر اس سے باز آ جانے کے معنی میں لیتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی گناہ کا خیال ، یا اس کی خواہش ، یا اس کا ارادہ تو کرے مگر عملاً کوئی اقدام نہ کرے ۔ اس سلسلے میں صحابہ و تابعین کے اقوال حسب ذیل ہیں : زید بن اسلم اور ابن زید کہتے ہیں ، اور حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ معاصی ہیں جن کا ارتکاب اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں لوگ کر چکے تھے ، پھر اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اسے چھوڑ دیا ۔ ابن عباس کا دوسرا قول یہ ہے ، اور یہی حضرت ابوہریرہ ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاض ، مجاہد ، حسن بصری اور ابوصالح کا قول بھی ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ یا کسی فحش فعل میں کچھ دیر کے لیے ، یا احیاناً مبتلا ہو جانا اور پھر اسے چھوڑ دینا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور مسروق اور شعبی فرماتے ہیں اور حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی معتبر روایات میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جانا اور اس کے ابتدائی مدارج تک طے کر گزرنا مگر آخری مرحلے پر پہنچ کر رک جانا ہے ۔ مثلاً کوئی شخص چوری کے لیے جائے ، مگر چرانے سے باز رہے ۔ یا اجنبیہ سے اختلاط کرے ، مگر زنا کا اقدام نہ کرے ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ، عِکرمہ ، قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن کے لیے دنیا میں بھی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے اور آخرت میں بھی جن پر عذاب دینے کی کوئی وعید نہیں فرمائی گئی ہے ۔ سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے گناہ کا خیال دل میں آنا مگر عملاً اس کا ارتکاب نہ کرنا ۔ یہ حضرات صحابہ و تابعین کی مختلف تفسیریں ہیں جو روایات میں منقول ہوئی ہیں ۔ بعد کے مفسرین اور ائمہ و فقہاء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ یہ آیت اور سورہ نساء کی آیت 31 صاف طور پر گناہوں کو دو بڑی اقسام پر تقسیم کرتی ہیں ، ایک کبائر ، دوسرے صغائر ۔ اور یہ دونوں آیتیں انسان کو امید دلاتی ہیں کہ اگر وہ کبائر اور فواحش سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ صغائر سے در گزر فرمائے گا ۔ اگرچہ بعض اکابر علماء نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ کوئی معصیت چھوٹی نہیں ہے بلکہ خدا کی معصیت بجائے خود کبیرہ ہے ۔ لیکن جیسا کہ امام غزالی نے فرمایا ہے ، کبائر اور صغائر کا فرق ایک ایسی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ جن ذرائع معلومات سے احکام شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے وہ سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں فرق کیا ہے اور کس قسم کے گناہ صغیرہ اور کس قسم کے کبیرہ ہیں ، تو اس معاملہ میں جس بات پر ہمارا اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ فعل گناہ کبیرہ ہے جسے کتاب و سنت کی کسی نصّ صریح نے حرام قرار دیا ہو ، یا اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی ہو ، یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید سنائی ہو ، یا اس کے مرتکب پر لعنت کی ہو ، یا اس کے مرتکبین پر نزول عذاب کی خبر دی ہو ۔ اس نوعیت کے گناہوں کے ماسوا جتنے افعال بھی شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہیں وہ سب صغائر کی تعریف میں آتے ہیں ۔ اسی طرح کبیرہ کی محض خواہش یا اس کا ارادہ بھی کبیرہ نہیں بلکہ صغیرہ ہے ۔ حتیٰ کہ کسی بڑے گناہ کے ابتدائی مراحل طے کر جانا بھی اس وقت تک گناہ کبیرہ نہیں ہے جب تک آدمی اس کا ارتکاب نہ کر گزرے ۔ البتہ گناہ صغیرہ بھی ایسی حالت میں کبیرہ ہو جاتا ہے جبکہ وہ دین کے استحقاق اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں استکبار کے جذبہ سے کیا جائے ، اور اس کا مرتکب اس شریعت کو کسی اعتناء کے لائق نہ سمجھے جس نے اسے ایک برائی قرار دیا ہے ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :33 یعنی صغائر کے مرتکب کا معاف کر دیا جانا کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ صغیرہ گناہ ، گناہ نہیں ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ تنگ نظری اور خوردہ گیری کا معاملہ نہیں فرماتا ۔ بندے اگر نیکی اختیار کریں اور کبائر و فواحش سے اجتناب کرتے رہیں تو وہ ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرفت نہ فرمائے گا اور اپنی رحمت بے پایاں کی وجہ سے ان کو ویسے ہی معاف کر دے گا ۔