Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
الَّذِيۡنَ يَذۡكُرُوۡنَ اللّٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰى جُنُوۡبِهِمۡ وَيَتَفَكَّرُوۡنَ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‏ ﴿191﴾
جو اللہ تعالٰی کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ۔ تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ۔
الذين يذكرون الله قيما و قعودا و على جنوبهم و يتفكرون في خلق السموت و الارض ربنا ما خلقت هذا باطلا سبحنك فقنا عذاب النار
Who remember Allah while standing or sitting or [lying] on their sides and give thought to the creation of the heavens and the earth, [saying], "Our Lord, You did not create this aimlessly; exalted are You [above such a thing]; then protect us from the punishment of the Fire.
Jo Allah Taalaa ka zikar kharay aur bethay aur apni kerwaton per letay huye kertay hain aur aasmanon-o-zamin ki pedaish mein ghor-o-fiker kertay hain aur kehtay hain aey humaray perwerdigar! Tu ney yeh bey faeeda nahi banaya tu pak hai pus humen aag kay azab say bacha ley.
جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے ( ہر حال میں ) اللہ کو یاد کرتے ہیں ، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں ، ( اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ ) اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔ آپ ( ایسے فضول کام سے ) پاک ہیں ، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے ۔
جو اللہ کی یاد کرت ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے ( ف۳۷۷ ) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں ( ف۳۷۸ ) اے رب ہمارے! تو نے یہ بیکار نہ بنایا ( ف۳۷۹ ) پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ،
جو اٹھتے ، بیٹھتے اور لیٹتے ، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں ۔ 135 ﴿ وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں﴾ پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے ، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ، 136
یہ وہ لوگ ہیں جو ( سراپا نیاز بن کر ) کھڑے اور ( سراپا ادب بن کر ) بیٹھے اور ( ہجر میں تڑپتے ہوئے ) اپنی کروٹوں پر ( بھی ) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق ( میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں ) میں فکر کرتے رہتے ہیں ، ( پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں: ) اے ہمارے رب! تو نے یہ ( سب کچھ ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا ، تو ( سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے ) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :135 یعنی ان نشانیوں سے ہر شخص بآسانی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ وہ خدا سے غافل نہ ہو ، اور آثار کائنات کو جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ غور و فکر کے ساتھ مشاہدہ کرے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :136 جب وہ نظام کائنات کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت ان پر کھل جاتی ہے کہ یہ سراسر ایک حکیمانہ نظام ہے ۔ اور یہ بات سراسر حکمت کے خلاف ہے کہ جس مخلوق میں اللہ نے اخلاقی حس پیدا کی ہو ، جسے تصرف کے اختیارات دیے ہوں ، جسے عقل و تمیز عطا کی ہو ، اس سے اس کی حیات دنیا کے اعمال پر باز پرس نہ ہو ، اور اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا نہ دی جائے ۔ اس طرح نظام کائنات پر غور و فکر کرنے سے انہیں آخرت کا یقین حاصل ہو جاتا ہے اور وہ خدا کی سزا سے پناہ مانگنے لگتے ہیں ۔