Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِى الۡاَلۡبَابِ ۚۖ‏ ﴿190﴾
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں
ان في خلق السموت و الارض و اختلاف اليل و النهار لايت لاولي الالباب
Indeed, in the creation of the heavens and the earth and the alternation of the night and the day are signs for those of understanding.
Aasmanon aur zamin ki pedaish mein aur raat din kay hair pher mein yaqeenan aqal mandon kay liye nishaniyan hain.
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ۔
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں ( ف۳۷۵ ) عقلمندوں کے لئے ( ف۳۷٦ )
زمین 134 اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمند لوگوں کےلیے بہت نشانیاں ہیں
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے ( اللہ کی قدرت کی ) نشانیاں ہیں
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :134 یہ خاتمہ کلام ہے ۔ اس کا ربط اوپر کی قریبی آیات میں نہیں بلکہ پوری سورة میں تلاش کرنا چاہیے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے خصوصیت کے ساتھ سورة کی تمہید کو نظر میں رکھنا ضروری ہے ۔
مظاہر کائنات دلیل رب ذوالجلال دعوت غرو فکر طبرانی میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قریش یہودیوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس کیا کیا معجزات لے کر آئے تھے انہوں نے کہا اژدھا بن جانے والی لکڑی اور چمکیلا ہاتھ ، پھر نصرانیوں کے پاس گئے ان سے کہا تمہارے پاس حضرت عیسیٰ ( علیہ اسلام ) کیا نشانیاں لائے تھے جواب ملا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا کر دینا اور کوڑھی کو اچھا کر دینا اور مردوں کو زندہ کر دینا ۔ اب یہ قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے آپ نے دعا کی جس پر یہ آیت ( اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ) 2 ۔ البقرۃ:164 ) اتری یعنی نشان قدرت دیکھنے والوں کیلئے اسی میں بڑی نشانیاں ہیں یہ اسی میں غورو فکر کریں گے تو ان قدرتوں والے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں گے لیکن اس روایت میں ایک اشکال ہے وہ یہ کہ یہ سوال مکہ شریف میں ہوا تھا اور یہ آیت مدینہ شریف میں نازل ہوئی واللہ اعلم ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آسمان جیسی بلندر اور وسعت مخلوق اور زمین جیسی پست اور سخت اور لمبی چوڑی مخلوق پھر آسمان میں بڑی بڑی نشانیاں مثلاً چلنے پھرنے والے اور ایک جاٹھہرنے والے ستارے اور زمین کی بڑی بڑی پیدوارا مثلاً پہاڑ ، جنگل ، درخت ، گھس ، کھیتیاں ، پھل اور مختلف قسم کے جاندار ، کانیں ، الگ الگ ذائقے والے اور طرح طرح کی خوشبوؤں والے اور مختلف خواص والے میوے وغیرہ کیا یہ سب آیات قدرت ایک سوچ سمجھ والے انسان کی رہبری اللہ عزوجل کی طرف نہیں کر سکتیں ؟ جو اور نشانیاں دیکھنے کی ضرورت باقی رہے پھر دن رات کا آنا جانا اور ان کا کم زیادہ ہونا پھر برابر ہو جانا یہ سب اس عزیز وحلیم اللہ عزوجل کی قدرت کاملہ کی پوری پوری نشانیاں ہیں جو پاک نفس والے ہر چیز کی حقیقت پر نظریں ڈالنے کے عادی ہیں اور بیوقوفوں کی طرح آنکھ اندھے اور کان کے بہرے نہیں جن کی حالت اور جگہ بیان ہوئی ہے کہ وہ آسمان اور زمین کی بہت سی نشانیاں پیروں تلے روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور غورو فکر نہیں کرتے ، ان میں سے اکثر باوجود اللہ تعالیٰ کو ماننے کے پھر بھی شرک سے نہیں بچ سکے ۔ اب ان عقلمندوں کی صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ اٹھتے بیٹتھے لیٹتے اللہ کا نام لیا کرتے ہیں ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمران بن حصین سے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹے لیٹے ہی سہی ، یعنی کسی حالت میں اللہ عزوجل کے ذکر سے غافل مت رہو دل میں اور پوشیدہ اور زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہا کرو ، یہ لوگ آسمان اور زمین کی پیدائش میں نظریں دوڑاتے ہیں اور ان کی حکمتوں پر غور کرتے ہیں جو اس خالق یکتا کی عظمت وقدرت علم و حکمت اختیار رحمت پر دلالت کرتی ہیں ، حضرت شیخ سلیمان درانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں گھر سے نکل کر جسچیز پر میری نظر پڑتی ہے میں دیکھتا ہوں کہ اس میں اللہ کی ایک ساعت غورو فکر کرنا رات بھر کے قیام کرنے سے افضل ہے ، حضرت فضیل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن کا قول ہے کہ غورو فکر ایک نور ہے جو تیرے دل پر اپنا پر تو ڈالے گا اور بسا اوقات یہ بیت پڑھتے ۔ اذا المراء کانت لہ فکرۃ ففی کل شئی لہ عبرۃ یعنی جس انسان کو باریک بینی اور سوچ سمجھ کی عادث پڑ گئی اسے ہر چیز میں ایک عبرت اور آیت نظر آتی ہے حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا بولنا ذکر اللہ اور نصیحت ہو اور اس کا جب رہنا غور و فکر ہو اور اس کا دیکھنا عبرت اور تنبیہہ ہو ، لقمان حکیم کا نصیحت آموز مقولہ بھی یاد رہے کہ تنہائی کی گوشہ نشینی جس قدر زیادہ ہو اور اسی قدر غورو فکر اور دور اندیشی کی عادت زیادہ ہوتی ہے اور جس قدر یہ بڑھ جائے اسی قدر راستے انسان پر وہ کھل جاتے ہیں جو اسے جنت میں پہنچا دیں گے ، حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں جس قدر مراقبہ زیادہ ہوگا اسی قدر سمجھ بوجھ تیز ہو گی اور جتنی سمجھ زیادہ ہو گی اتناعلم نصیب ہو گا اور جس قدر علم زیادہ ہو گا نیک اعمال بھی بڑھیں گے ، حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد ہے کہ اللہ عزوجل کے ذکر میں زبان کا چلانا بہت اچھا ہے اور اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر افضل عبادت ہے ، حضرت مغیث اسود مجلس میں بیٹھے ہوئے فرماتے کہ لوگو قبرستان ہر روز جایا کرو تا کہ تمہیں انجام کا خیال پیدا ہو پھر اپنے دل میں اس منظر کو حاضر کرو کہ تم اللہ کے سامنے کھڑے ہو پھر ایک جماعت کو جہنم میں لے جانے کا حکم ہوتا ہے اور ایک جماعت جنت میں جاتی ہے اپنے دلوں کو اس حال میں جذب کر دو اور اپنے بدن کو بھی وہیں حاضر جان لو جہنم کو اپنے سامنے دیکھو اس کے ہتھوڑوں کو اسکی آگ کے قید خانوں کو اپنے سامنے لاؤ اتنا فرماتے ہی دھاڑیں مارمار کر رونے لگتے ہیں یہاں تک کہ بیہوش ہو جاتے ہیں حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک راہب سے ایک قبرستان اور کوڑا کرکٹ پاخانہ پیشاب ڈالنے کی جگہ پر ملاقات کی اور اس سے کہا اے بندہ حق اس وقت تیرے پاس دو خزانے ہیں ایک خزانہ لوگوں کا یعنی قبرستان اور دوسرا خزانہ مال کا یعنی کوڑا کرکٹ ۔ پیشاب پاخانہ ڈالنے کی جگہ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کھنڈرات پر جاتے اور کسی ٹوٹے پھوٹے دروازے پر کھڑے رہ کر نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں فرماتے اے اجڑے ہوئے گھرو تمہارے رہنے والے کہاں گئے؟ پھر خود فرماتے سب زیر زمین چلے گئے سب فنا کا جام پی چکے صرف اللہ تعالیٰ کی جات ہی ہمیشہ کی مالک بقاء ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس کا ارشاد ہے دو رکعتیں جو دل بستگی کے ساتھ ادا کی جائیں اس تمام نماز سے افضل ہیں جس میں ساری رات گزار دی لیکن دلچسپی نہ تھی ، حسن بصری فرماتے ہیں ابن آدم اپنے پیٹ کے تیسرے حصے میں کھا تیسرے حصے میں پانی پی اور تیسرا حصہ ان سانسوں کیلئے چھوڑ جس میں تو آخرت کی باتوں پر اپنے انجام پر اور اپنے اعمال پر خور و فکر کر سکے ، بعض حکیموں کا قول ہے جو شخص دنیا کی چیزوں پر عبرت حاصل کئے بغیر نظر ڈالتا ہے اس غفلت کیوجہ سے اس کی دلی آنکھیں کمزور پڑ جاتی ہیں ، حضرت عامر بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے صحابہ سے سنا ہے کہ ایمان کی روشنی اور تو غور فکر اور مراقبہ میں ہے ، مسیح ابن مریم سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ابن آدم اے ضعیف انسان جہاں کہیں تو ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہ ، دنیا میں عاجزی اور مسکینی کے ساتھ رہ ، اپنا گھر مسجدوں کو بنا لے ، اپنی آنکھوں کو رونا سکھا ، اپنے جسم کو صبر کی عادت سکھا ، اپنے دل کو غور و فکر کرنے والا بنا ، کل کی روزی کی فکر آج نہ کر ، امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک مرتبہ مجلس میں بیٹھے ہوئے رو دیئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا میں نے دنیا میں اور اس کی لذتوں میں اور اس کی خواہشوں میں غور فکر کیا اور عبرت حاصل کی جب نتیجہ پر پہنچا تو میری امنگیں ختم ہو گئیں حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کیلئے اس میں عبرت و نصیحت ہے اور وعظ و پند ہے ، حسین بن عبدالرحمن نے بھی اپنے اشعار میں اس مضمون کو خوب نبھایا ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی مدح و ثنا بیان کی جو مخلوقات اور کائنات سے عبرت حاصل کریں اور نصیحت لیں اور ان لوگوں کی مذمت بیان کی جو قدرت کی نشانیوں پر غور نہ کریں ۔ مومنوں کی مدح میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ سبحانہ کا ذکر کرتے ہیں زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے اپنی مخلوق کو عبث اور بیکار نہیں بنایا بلکہ حق کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو برائی کا بدلہ اور نیکوں کو نیکیوں کا بدلہ عطا فرمائے ، پھر اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں تو اس سے منزہ ہے کہ کسی چیز کو بیکار بنائے اے خالق کائنات اے عدل و انصاف سے کائنات کو سجانے والے اے نقصان اور عیبوں سے پاک ذات ہمیں اپنی قوت و طاقت سے ان اعمال کی توفیق اور ہمارا رفیق فرما جن سے ہم تیرے عذابوں سے نجات پالیں اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہو کر جنت میں داخل ہو جائیں ، یہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ جسے تو جہنم میں لے گیا اسے تو نے برباد اور ذلیل و خوار کر دیا مجمع حشر کے سامنے اسے رسوا کیا ، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں انہیں نہ کوئی چھڑا سکے نہ بچا سکے نہ تیرے ارادے کے درمیان آسکے ، اے رب ہم نے پکارنے والے کی پکار سن لی جو ایمان اور اسلام کی طرف بلاتا ہے ، مراد اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو فرماتے ہیں کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ ہم ایمان لاچکے اور تابعداری بجا لائے پس ہمارے ایمان اور فرماں برداری کی وجہ سے ہمارے گناہوں کو معاف فرما ان کی پردہ پوشی کر اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہمیں صالح اور نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے تو نے ہم سے جو وعدے اپنے نبیوں کی زبانی کئے ہیں انہیں پورے کر اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں پر ایمان لانے کا لیا تھا لیکن پہلا معنی واضح ہے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے عسقلان دو عروس میں سے ایک ہے یہیں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ستر ہزار شہیداء ٹھائیں گے جو وفد بن کر اللہ کے پاس جائیں گے یہیں شہیدوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں ان کے کٹے ہوئے سر ہوں گے ان کی گردن کی رگوں سے خون جاری ہوگا یہ کہتے ہوں گے اے اللہ ہم سے جو وعدے اپنے رسولوں کی معرفت تو نے کئے ہیں انہیں پورے کر ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر تو وعدہ خلافی سے پاک ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے یہ بندے سچے ہیں اور انہیں نہر بیضہ میں غسل کروائیں گے جس غسل کے بعد پاک صاف گورے چٹے رنگ کے ہو کر نکلیں گے اور ساری جنت ان کے لئے مباح ہو گی جہاں چاہیں جائیں آئیں جو چاہیں کھائیں پئیں ۔ یہ حدیث غریب ہے اور بعض تو کہتے ہیں موضوع ہے واللہ اعلم ۔ ہمیں قیامت کے دن تمام لوگوں کے مجمع میں رسوا نہ کر تیرے وعدے سچے ہیں تو نے جو کچھ خبریں اپنے رسولوں کی زبانی پہنچائی ہیں سب اٹل ہیں قیامت کا روز ضرور آنا ہے پس تو ہمیں اس دن کی رسوائی سے نجات دے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندے پر رسوائی ڈانٹ ڈپٹ مار اور شرمندگی اس قدر ڈالی جائے گی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر کے اسے قائل معقول کیا جائے گا کہ وہ چاہے گا کہ کاش مجھے جہنم میں ہی ڈال دیا جاتا ( ابو یعلیٰ ) اس حدیث کی سند بھی غریب ہے ، احادیت سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کیلئے جب اٹھتے تب سورہ آل عمران کی ان دس آخری آیتوں کی تلاوت فرماتے چنانچہ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ کے گھر رات گزاری یہ ام المومنین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب آئے تو تھوڑی دیر تک آپ حضرت میمونہ سے باتیں کرتے رہے پھر سو گئے جب آخری تہائی رات باقی رہ گئی تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے آیت ( ان فی خلق السموات ) سے آخر سورت تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں پھر کھڑے ہوئے مسواک کی وضو کیا اور گیارہ رکعت نماز ادا کی حضرت بلال کی صبح کی اذان سن کر پھر دو رکعتیں صبح کی سنتیں پڑھیں پھر مسجد میں تشریف لا کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی ۔ صحیح بخاری میں یہ روایت دوسری جگہ بھی ہے کہ بسترے کے عرض میں تو میں سویا اور لمبائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین حضرت میمونہ لیٹیں آدھی رات کے قریب کچھ پہلے یا کچھ بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ان دس آیتوں کی تلاوت کی پھر ایک لٹکی ہوئی مشک میں سے پانی لے کر بہت اچھی طرح کامل وضو کیا میں بھی آپ کی بائیں جانب آپ کی اقتدار میں نماز کیلئے کھڑا ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر میرے کان کو پکڑ کر مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کر لیا اور دو دو رکعت کر کے چھ مرتبہ یعنی بارہ رکعت پڑھیں پھر وتر پڑھا اور لیٹ گئے یہاں تک کہ مؤذن نے آکر نماز کی اطلاع کی آپ نے کھڑے ہو کر دو ہلکی رکعتیں ادا کیں اور باہر آکر صبح کی نماز پڑھائی ، ابن مردویہ کی اس حدیث میں ہے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں مجھے میرے والد حضرت عباس نے فرمایا کہ تم آج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں گزارو اور آپ کی رات کی نماز کی کیفیت دیکھو رات کو جب سب لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر چلے گئے میں بیٹھا رہا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگے تو مجھے دیکھ کر فرمایا کون عبداللہ؟ میں نے کہا جی ہاں فرمایا کیوں رکے ہوئے ہو میں نے کہا والد صاحب کا حکم ہے کہ رات آپ کے گھر گزاروں تو فرمایا بہت اچھا آؤ گھر جا کر فرمایا بستر بچھاؤ ٹاٹ کا تکیہ آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سر رکھ کر سو گئے یہاں تک کہ مجھے آپ کے خراٹوں کی آواز آنے لگی پھر آپ جاگے اور سیدھی طرح بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھ کر تین مرتبہ دعا ( سبحان الملک القدوس ) پڑھا پھر سورہ آل عمران کے خاتمہ کی یہ آیتیں پڑھیں اور روایت میں ہے کہ آیتوں کی تلاوت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی ( اللھم اجعل فی قلبی نورا وفی سمعی نورا وفی بصری نورا وعن یمینی نورا وعن شمالی نورا ومن بین یدی نورا ومن خلفی نورا ومن فوقی نورا ومن تحتی نورا واعظم لی نورا یوم القیامتہ ) ( ابن مردویہ ) یہ دعا بعض صحیح طریق سے بھی مروی ہے اس آیت کی تفسیر کے شروع میں طبرانی کے حوالے سے جو حدیث گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے لیکن مشہور اس کے خلاف ہے یعنی یہ کہ یہ آیت مدنی ہے اور اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش ہو سکتی ہے جو ابن مردویہ میں ہے کہ حضرت عطاء ۔ حضرت ابن عمر حضرت عبید بن عمیر ۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس آئے آپ کے اور ان کے درمیان پردہ تھا حضرت صدیقہ نے پوچھا عبید تم کیوں نہیں آیا کرتے؟ حضرت عبید نے جواب دیا اماں جان صرف اس لئے کہ کسی شاعر کا قول ہے زرغباتزد دحبا یعنی کم کم آؤ تا کہ محبت بڑھے ، حضرت ابن عمر نے کہا اب ان باتوں کو چھوڑو ام المومنین ہم یہ پوچھنے کیلئے حاضر ہوئے ہیں کہ سب سے زیادہ عجیب بات جو آپ نے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھی ہو وہ ہمیں بتائیں ۔ حضرت عائشہ رو دیں اور فرمانے لگیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کام عجیب تر تھے ، اچھا ایک واقعہ سنو ایک رات میری باری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میرے ساتھ سوئے پھر مجھ سے فرمانے لگے عائشہ میں اپنے رب کی کچھ عبادت کرنا چاہتا ہوں مجھے جانے دے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم میں آپ کا قرب چاہتی ہوں اور یہ بھی میری چاہت ہے کہ آپ اللہ عزوجل کی عبادت بھی کریں ، اب آپ کھڑے ہوئے اور ایک مشک میں سے پانی لے کر آپ نے ہلکا سا وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہو گئے پھر جو رونا شروع کیا تو اتنا روئے کہ داڑھی مبارک تر ہو گئی پھر سجدے میں گئے اور اس قدر روئے کہ زمین تر ہو گئی پھر کروٹ کے بل لیٹ گئے اور روتے ہی رہے یہاں تک کہ حضرت بلال نے آ کر نماز کیلئے بلایا اور آپ کے آنسو رواں دیکھ کر دریافت کیا کہ اے اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیوں رو رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں ، آپ نے فرمایا بلال میں کیوں نہ روؤں؟ مجھ پر آج کی رات یہ آیت اتری ہے آیت ( اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ) 2 ۔ البقرۃ:164 ) افسوس ہے اس شخص کیلئے جو اسے پڑھے اور پھر اس میں غورو تدبر نہ کرے ۔ عبد بن حمید کی تفسیر میں بھی یہ حدیث ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب ہم حضرت عائشہ کے پاس گئے ہم نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ ہم نے اپنے نام بتائے اور آخر میں یہ بھی ہے کہ نماز کے بعد آپ اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے رخسار تلے ہاتھ رکھا اور روتے رہے یہاں تک کہ آنسوؤں سے زمین تر ہو گئی اور حضرت بلال کے جواب میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اور آیتوں کے نازل ہونے کے بارے میں عذاب النار تک آپ نے تلاوت کی ، ابن مردویہ کی ایک ضعیف سند والی حدیث میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں ہر رات کو پڑھتے اس روایت میں مظاہر بن اسلم ضعیف ہیں ۔