Surah

Information

Surah # 54 | Verses: 55 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 37 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 44-46, from Madina
كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ فَكَذَّبُوۡا عَبۡدَنَا وَقَالُوۡا مَجۡنُوۡنٌ وَّازۡدُجِرَ‏ ﴿9﴾
ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کر جھڑک دیا گیا تھا ۔
كذبت قبلهم قوم نوح فكذبوا عبدنا و قالوا مجنون و ازدجر
The people of Noah denied before them, and they denied Our servant and said, "A madman," and he was repelled.
Inn say pehlay qom-e-nooh ney bhi humaray banday ko jhulaya tha aur deewana batla ker jhirak diya gaya tha.
ان سے پہلے نوح کی قوم نے بھی جھٹلانے کا رویہ اختیار کیا تھا ۔ انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا ، اور کہا کہ : یہ دیوانے ہیں ، اور انہیں دھمکیاں دی گئیں ۔
ان سے ( ف۱٦ ) پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تو ہمارے بندہ ( ف۱۷ ) کو جھوٹا بتایا اور بولے وہ مجنون ہے اور اسے جھڑکا ( ف۱۸ )
ان سے پہلے نوح ( علیہ السلام ) کی قوم جھٹلا چکی ہے 9 ۔ انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے ، اور وہ بری طرح جھڑکا گیا 10 ۔
اِن سے پہلے قومِ نوح نے ( بھی ) جھٹلایا تھا ۔ سو انہوں نے ہمارے بندۂ ( مُرسَل نُوح علیہ السلام ) کی تکذیب کی اور کہا: ( یہ ) دیوانہ ہے ، اور انہیں دھمکیاں دی گئیں
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :9 یعنی اس خبر کو جھٹلا چکی ہے کہ آخرت برپا ہونی ہے جس میں انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا ، اس نبی کی نبوت کو جھٹلا چکی ہے جو اپنی قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا تھا ، اور نبی کی اس تعلیم کو جھٹلا چکی ہے جو یہ بتاتی تھی کہ آخرت کی باز پرس میں کامیاب ہونے کے لیے لوگوں کو کیا عقیدہ اور کیا عمل اختیار کرنا چاہیے اور کس چیز سے بچنا چاہیے ۔ سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :10 یعنی ان لوگوں نے محض نبی کی تکذیب ہی پر اکتفا نہ کیا ، بلکہ الٹا اسے دیوانہ قرار دیا ، اس کو دھمکیاں دیں ، اس پر لعنت ملامت کی بوچھاڑ کی ، اسے ڈانٹ ڈپٹ کر صداقت کی تبلیغ سے باز رکھنے کی کوشش کی ، اور اس کا جینا دوبھر کر دیا ۔
دیرینہ انداز کفر یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت سے پہلے امت نوح نے بھی اپنے نبی کو جو ہمارے بندے حضرت نوح تھے تکذیب کی اسے مجنون کہا اور ہر طرح ڈانٹا ڈپٹا اور دھمکایا ، صاف کہدیا تھا کہ اے نوح اگر تم باز نہ رہے تو ہم تجھے پتھروں سے مار ڈالیں گے ، ہمارے بندے اور رسول حضرت نوح نے ہمیں پکارا کہ پروردگار میں ان کے مقابلہ میں محض ناتواں اور ضعیف ہوں میں کسی طرح نہ اپنی ہستی کو سنبھال سکتا ہوں نہ تیرے دین کی حفاظت کر سکتا ہوں تو ہی میری مدد فرما اور مجھے غلبہ دے ان کی یہ دعا قبول ہوتی ہے اور ان کی کافر قوم پر مشہور طوفان نوح بھیجا جاتا ہے ۔ موسلا دھار بارش کے دروازے آسمان سے اور ابلتے ہوئے پانی کے چشمے زمین سے کھول دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ جو پانی کی جگہ نہ تھی مثلاً تنور وغیرہ وہاں سے زمین پانی اگل دیتی ہے ہر طرف پانی بھر جاتا ہے نہ آسمان سے برسنا رکتا ہے نہ زمین سے ابلنا تھمتا ہے پس حد حکم تک پہنچ جاتا ہے ۔ ہمیشہ پانی ابر سے برستا ہے لیکن اس وقت آسمان سے پانی کے دروازے کھول دئیے گئے تھے اور عذاب الٰہی پانی کی شکل میں برس رہا تھا نہ اس سے پہلے کبھی اتنا پانی برسا نہ اس کے بعد کبھی ایسا برسے ادھر سے آسمان کی یہ رنگت ادھر سے زمین کو حکم کہ پانی اگل دے پس ریل پیل ہو گئی ، حضرت علی فرماتے ہیں کہ آسمان کے دہانے کھول دئیے گئے اور ان میں سے براہ راست پانی برسا ۔ اس طوفان سے ہم نے اپنے بندے کو بچا لیا انہیں کشتی پر سوار کر لیا جو تختوں میں کیلیں لگا کر بنائی گئی تھی ۔ دسر کے معنی کشتی کے دائیں بائیں طرف کا حصہ اور ابتدائی حصہ جس پر موج تھپیڑے مارتی ہے اور اس کے جوڑے اور اس کی اصل کے بھی کئے گئے ہیں ، وہ ہمارے حکم سے ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری حفاظت میں چل رہی تھی اور صحیح و سالم آر پار جار ہی تھی ۔ حضرت نوح کی مدد تھی اور کفار سے یہ انتقام تھا ہم نے اسے نشانی بنا کر چھوڑا ۔ یعنی اس کشتی کو بطور عبرت کے باقی رکھا ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس امت کے اوائل لوگوں نے بھی اسے دیکھا ہے لیکن ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کے نمونے پر اور کشتیاں ہم نے بطور نشان کے دنیا میں قائم رکھیں ، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ 41؀ۙ ) 36-يس:41 ) یعنی ان کے لئے نشانی ہے کہ ہم نے نسل آدم کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کرایا اور کشتی کے مانند اور بھی ایسی سواریاں دیں جن پر وہ سوار ہوں اور جگہ ہے آیت ( اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 11۝ۙ ) 69- الحاقة:11 ) ، یعنی جب پانی نے طغیانی کی ہم نے تمہیں کشتی میں لے لیا تاکہ تمھارے لئے نصیحت وعبرت ہو اور یاد رکھنے والے کان اسے محفوظ رکھ سکیں ، پس کوئی ہے جو ذکر و وعظ حاصل کرے؟ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مدکر ) پڑھایا ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس لفظ کی قرأت اسی طرح مروی ہے ، حضرت اسود سے سوال ہوتا ہے کہ یہ لفظ دال سے ہے یا ذال سے ؟ فرمایا میں نے عبداللہ سے دال کے ساتھ سنا ہے اور وہ فرماتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دال کے ساتھ سنا ہے ، پھر فرماتا ہے میرا عذاب میرے ساتھ کفر کرنے اور میرے رسولوں کو جھوٹا کہنے اور میری نصیحت سے عبرت نہ حاصل کرنے والوں پر کیسا ہوا ؟ میں نے کس طرح اپنے رسولوں کے دشمنوں سے بدلہ لیا اور کس طرح ان دشمنان دین حق کو نیست ونابود کر دیا ۔ ہم نے قرآن کریم کے الفاظ اور معانی کو ہر اس شخص کے لئے آسان کر دیا جو اس سے نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھے ، جیسے فرمایا آیت ( كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ 2٩؀ ) 38-ص:29 ) ، ہم نے تیری طرف سے یہ مبارک کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں تدبر کریں اور اس لئے کہ عقلمند لوگ یاد رکھ لیں اور جگہ ہے آیت ( فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 58؀ ) 44- الدخان:58 ) ، یعنی ہم نے اسے تیری زبان پر اس لئے آسان کیا ہے کہ تو پرہیزگار لوگوں کو خوشی سنا دے اور جھگڑالو لوگوں کو ڈرا دے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کی قرأت اور تلاوت اللہ تعالیٰ نے آسان کر دی ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ اس میں آسانی نہ رکھ دیتا تو مخلوق کی طاقت نہ تھی کہ اللہ عزوجل کے کلام کو پڑھ سکے ۔ میں کہتا ہوں انہی آسانیوں میں سے ایک آسانی وہ ہے جو پہلے حدیث میں گذر چکی کہ یہ قرآن سات قرأت وں پر نازل کیا گیا ہے ، اس حدیث کے تمام طرق و الفاظ ہم نے پہلے جمع کر دئیے ہیں ، اب دوبارہ یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پس اس قرآن کو بہت ہی سادہ کر دیا ہے کوئی طالب علم جو اس الٰہی علم کو حاصل کرے اس کے لئے بالکل آسان ہے ۔