سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :28
یہاں آلاء کا مفہوم اوصاف ہی زیادہ موزوں نظر آتا ہے ۔ ہر شخص جو کسی نوعیت کا شرک کرتا ہے ، دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کی تکذیب کرتا ہے ۔ کسی کا یہ کہنا کہ فلاں حضرت نے میری بیماری دور کر دی ، اصل میں یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ شافی نہیں ہے بلکہ وہ حضرت شافی ہیں ۔ کسی کا کہنا کہ فلاں بزرگ کی عنایت سے مجھے روزگار مل گیا ، حقیقت میں یہ کہنا ہے کہ رازق اللہ نہیں ہے بلکہ وہ بزرگ رازق ہیں ۔ کسی کا یہ کہنا کہ فلاں آستانے سے میری مراد بر آئی ، گویا دراصل یہ کہنا ہے کہ دنیا میں حکم اللہ کا نہیں بلکہ اس آستانے کا چل رہا ہے ۔ غرض ہر مشرکانہ عقیدہ اور مشرکانہ قول آخری تجزیہ میں صفات الٰہی کی تکذیب ہی پر منتہی ہوتا ہے ۔ شرک کے معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی دوسروں کو سمیع و بصیر عالم الغیب ، فاعل مختار ، قادر و متصرف ، اور الوہیت کے دوسرے اوصاف سے متصف قرار دے رہا ہے اور اس بات کا انکار کر رہا ہے کہ اکیلا اللہ ہی ان صفات کا مالک ہے ۔