Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِى الۡيَتٰمٰى فَانْكِحُوۡا مَا طَابَ لَـكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‌ ‌ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَةً اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَلَّا تَعُوۡلُوۡا ؕ‏ ﴿3﴾
اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو دو دو تین تین چار چار سے لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے ، کہ ( ایسا کرنے سے نا انصافی اور ) ایک طرف جُھک پڑنے سے بچ جاؤ ۔
و ان خفتم الا تقسطوا في اليتمى فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى و ثلث و ربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدة او ما ملكت ايمانكم ذلك ادنى الا تعولوا
And if you fear that you will not deal justly with the orphan girls, then marry those that please you of [other] women, two or three or four. But if you fear that you will not be just, then [marry only] one or those your right hand possesses. That is more suitable that you may not incline [to injustice].
Agar tumhen darr ho kay yateem larkiyon say nikkah ker kay tum insaf na rakh sako gay to aur aurton mein say jo bhi tumhen achi lagen tum unn say nikkah kerlo do do teen teen chaar chaar say lekin agar tumhen barabari na ker sakney ka khof ho to aik hi kafi hai ya tumhari milkiyat ki londi yeh ziyada qarib hai kay ( aisa kerney say na insafi aur ) aur aik taraf jhuk parney say bach jao.
اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو ( ان سے نکاح کرنے کے بجائے ) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں ( ٣ ) دو دو سے ، تین تین سے ، اور چار چار سے ، ( ٤ ) ہاں ! اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم ( ان بیویوں ) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو ، یا ان کنیزوں پر جو تمہاری ملکیت میں ہیں ۔ اس طریقے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بے انصافی میں مبتلا نہیں ہوگے ۔
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے ( ف۸ ) تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار ( ف۹ ) پھر اگر ڈرو کہ دو بیبیوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو ( ف۱۰ )
اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو ، تین تین ، چار چار سے نکاح کر لو ۔ 4 لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو 5 یا ان عورتوں کو زوجیّت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ، 6 بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے ۔
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں ، دو دو اور تین تین اور چار چار ( مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے ) ، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم ( زائد بیویوں میں ) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے ( نکاح کرو ) یا وہ کنیزیں جو ( شرعاً ) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں ، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :4 اس کے تین مفہوم اہل تفسیر نے بیان کیے ہیں: ( ١ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے ، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں ، جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے ، وہ ان کے ساتھ خود نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں ، ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کر لو ۔ اسی سورة میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے ۔ ( ۲ ) ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگرد عکرمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی ۔ ایک ایک شخص دس دس بیویاں کرلیتا تھا ۔ اور جب اس کثرت ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں ، بھانجوں اور دوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ ظلم و بے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو ۔ ( ۳ ) سعید بن جبیر اور قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہل جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔ لیکن عورتوں کے معاملہ میں ان کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے ۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کر لیتے تھے اور پھر ان کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو ۔ اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو ، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کر سکو ۔ آیت کے الفاظ ان تینوں تفسیروں کے متحمل ہیں اور عجب نہیں کہ تینوں مفہوم مراد ہوں ۔ نیز اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو ان عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہوں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :5 اس بات پر فقہاء امت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رو سے تعدد ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے ۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے ۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص ( نَوفَل بن معاویہ ) کی پانچ بیویاں تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے ۔ نیز یہ آیت تعدد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے ۔ جو شخص عدل کی شرط پوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے جواز سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے ۔ حکومت اسلامی کی عدالتوں کو حق حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو ان کی داد رسی کریں ۔ بعض لوگ اہل مغرب کی مسیحیت زدہ رائے سے مغلوب و مرعوب ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کا اصل مقصد تعدد ازواج کے طریقے کو ( جو مغربی نقطہ نظر سے فی الاصل برا طریقہ ہے ) مٹا دینا تھا ، مگر چونکہ یہ طریقہ بہت زیادہ رواج پا چکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کر کے چھوڑ دیا گیا ۔ لیکن اس قسم کی باتیں دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں ۔ تعدد ازواج کا فی نفسہ ایک برائی ہونا بجائے خود ناقابل تسلیم ہے ، کیونکہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے ۔ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہو سکتے ، حصار نکاح سے باہر صنفی بد امنی پھیلانے لگتے ہیں جس کے نقصانات تمدن و اخلاق کے لیے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعدد ازواج سے پہنچ سکتے ہیں ۔ اسی لیے قرآن نے ان لوگوں کو اس کی اجازت دی ہے جو اس کی ضرورت محسوس کریں ۔ تاہم جن لوگوں کے نزدیک تعدد ازواج فی نفسہ ایک برائی ہے ان کو یہ اختیار تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے بر خلاف اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کر دینے کا مشورہ دیں ۔ لیکن یہ حق انہیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خوا مخواہ قرآن کی طرف منسوب کریں ۔ کیونکہ قرآن نے صریح الفاظ میں اس کو جائز ٹھیرایا ہے اور اشارةً و کنایةً بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اس کو مسدود کرنا چاہتا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب” سنت کی آئینی حیثیت “ ، ص ۳۰۷ تا ۳١٦ ) ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :6 لونڈیاں مراد ہیں ، یعنی وہ عورتیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک آزاد خاندانی بیوی کا بار بھی برداشت نہ کر سکو تو پھر لونڈی سے نکاح کر لو ، جیسا کہ رکوع ٤ میں آگے آتا ہے ۔ یا یہ کہ اگر ایک سے زیادہ عورتوں کی تمہیں ضرورت ہو اور آزاد خاندانی بیویوں کے درمیان عدل رکھنا تمہارے لیے مشکل ہو تو لونڈیوں کی طرف رجوع کرو ، کیونکہ ان کی وجہ سے تم پر ذمہ داریوں کا بار نسبتًہ کم پڑے گا ۔ ( آگے حاشیہ نمبر ٤٤ میں لونڈیوں کے متعلق احکام کی مزید تفصیل ملے گی )