Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَابۡتَلُوا الۡيَتٰمٰى حَتّٰىۤ اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ‌ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡهُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَيۡهِمۡ اَمۡوَالَهُمۡ‌ۚ وَلَا تَاۡكُلُوۡهَاۤ اِسۡرَافًا وَّبِدَارًا اَنۡ يَّكۡبَرُوۡا‌ ؕ وَمَنۡ كَانَ غَنِيًّا فَلۡيَسۡتَعۡفِفۡ‌ ۚ وَمَنۡ كَانَ فَقِيۡرًا فَلۡيَاۡكُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَيۡهِمۡ اَمۡوَالَهُمۡ فَاَشۡهِدُوۡا عَلَيۡهِمۡ‌ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيۡبًا‏ ﴿6﴾
اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سُدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حُسنِ تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کر دو مال داروں کو چاہیے کہ ( ان کے مال سے ) بچتے رہیں ، ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طور سے کھالے پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواہ بنا لو ، دراصل حساب لینے والا اللہ تعالٰی ہی کافی ہے ۔
و ابتلوا اليتمى حتى اذا بلغوا النكاح فان انستم منهم رشدا فادفعوا اليهم اموالهم و لا تاكلوها اسرافا و بدارا ان يكبروا و من كان غنيا فليستعفف و من كان فقيرا فلياكل بالمعروف فاذا دفعتم اليهم اموالهم فاشهدوا عليهم و كفى بالله حسيبا
And test the orphans [in their abilities] until they reach marriageable age. Then if you perceive in them sound judgement, release their property to them. And do not consume it excessively and quickly, [anticipating] that they will grow up. And whoever, [when acting as guardian], is self-sufficient should refrain [from taking a fee]; and whoever is poor - let him take according to what is acceptable. Then when you release their property to them, bring witnesses upon them. And sufficient is Allah as Accountant.
Aur yateemon ko unn kay baligh ho janey tak sidhartay aur aazmatay raho phir agar inn mein tum hoshiyari aur husn-e-tadbeer pao to enhen inn kay maal sonp do aur inn kay baray ho janey kay darr say inn kay maalon ko jaldi jaldi fazool kharchiyon mein tabah na kerdo maal daron ko chahaiye kay ( inn kay maal say ) bachtay rahen haan miskeen mohtaj ho to dastoor kay mutabiq wajibi tor say kha ley phir jab enhen inn kay maal sonpo to gawah bana lo dar asal hisab lenay wala Allah Taalaa hi kafi hai.
اور یتیموں کو جانچتے رہو ، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں ، تو اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو ۔ اور یہ مال فضول خرچی کر کے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں ۔ اور ( یتیموں کے سرپرستوں میں سے ) جو خود مال دار ہو وہ تو اپنے آپ کو ( یتیم کا مال کھانے سے ) بالکل پاک رکھے ، ہاں اگر وہ خود محتاج ہو تو معروف طریق کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھا لے ۔ ( ٦ ) پھر جب تم ان کے مال انہیں دو تو ان پر گواہ بنا لو ، اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے ۔
اور یتیموں کو آزماتے رہو ( ف۱۵ ) یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں تو اگر تم ان کی سمجھ ٹھیک دیکھو تو ان کے مال انہیں سپرد کردو اور انہیں نہ کھاؤ حد سے بڑھ کر اور اس جلدی میں کہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں اور جسے حاجت نہ ہو وہ بچتا رہے ( ف۱٦ ) اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھائے ، پھر جب تم ان کے مال انہیں سپرد کرو تو ان پر گواہ کرلو ، اور اللہ کافی ہے حساب لینے کو ،
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں ۔ 9 پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ۔ 10 ایسا کبھی نہ کرنا کہ حدِّ انصاف سے تجاوز کر کے اس خوف سے ان کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے ۔ یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے ۔ 11 پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بنا لو ، اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے ۔
اور یتیموں کی ( تربیتہً ) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح ( کی عمر ) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری ( اور حُسنِ تدبیر ) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں ( اس اندیشے سے ) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو ( کر واپس لے ) جائیں گے ، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ ( مالِ یتیم سے ) بالکل بچا رہے اور جو ( خود ) نادار ہو اسے ( صرف ) مناسب حد تک کھانا چاہئے ، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو ، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :9 یعنی جب وہ سن بلوغ کے قریب پہنچ رہے ہوں تو دیکھتے رہو کہ ان کا عقلی نشوونما کیسا ہے اور ان میں اپنے معاملات کو خود اپنی ذمہ داری پر چلانے کی صلاحیت کس حد تک پیدا ہو رہی ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :10 مال ان کے حوالہ کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں: ایک بلوغ ، دوسرے رشد ، یعنی مال کے صحیح استعمال کی اہلیت ۔ پہلی شرط کے متعلق تو فقہائے امت میں اتفاق ہے ۔ دوسری شرط کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ اگر سن بلوغ کو پہنچنے پر یتیم میں رشد نہ پایا جائے تو ولی یتیم کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظام کرنا چاہیے ۔ پھر خواہ رشد پایا جائے یا نہ پایا جائے ، اس کا مال اس کے حوالہ کر دینا چاہیے ۔ اور امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام شافعی رحمہم اللہ کے رائے یہ ہے کہ مال حوالہ کیے جانے کے لیے بہر حال رشد کا پایا جانا ناگزیر ہے ۔ غالباً موخر الذکر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بات زیادہ قرین صواب ہو گی کہ اس معاملہ میں قاضی شرع سے رجوع کیا جائے اور اگر قاضی پر ثابت ہو جائے کہ اس میں رشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے خود کوئی مناسب انتظام کر دے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :11 یعنی اپنا حق الخدمت اس حد تک لے کہ ہر غیر جانبدار معقول آدمی اس کو مناسب تسلیم کرے ۔ نیز یہ کہ جو کچھ بھی حق الخدمت وہ لے چوری چھپے نہ لے بلکہ علانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے ۔
وراثت کے مسائل مشرکین عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی بڑی اولاد کو اس کا مال مل جاتا چھوٹی اولاد اور عورتیں بالکل محروم رہتیں اسلام نے یہ حکم نازل فرما کر سب کی مساویانہ حیثیت قائم کر دی کہ وارث تو سب ہوں گے خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ بوجہ عقد زوجیت کے ہو یا بوجہ نسبت آزادی ہو حصہ سب کو ملے گا گو کم و بیش ہو ، ام کجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں کہ حضور میرے دو لڑکے ہیں ان کے والد فوت ہو گئے ہیں ان کے پاس اب کچھ نہیں پس یہ آیت نازل ہوئی ، یہی حدیث دوسرے الفاظ سے میراث کی اور دونوں آیتوں کی تفسیر میں بھی عنقریب انشاء اللہ آئے گی واللہ اعلم ، دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مرنے والے کا ورثہ بٹنے لگے اور وہاں اس کا کوئی دور کا رشتہ دار بھی آ جائے جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آ جائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو ۔ ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے ہیں مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے یا نہیں؟ اس میں بھی دو قول ہیں ، حضرت ابن عباس تو اسے باقی بتاتے ہیں حضرت مجاہد حضرت ابن مسعود حضرت ابو موسیٰ حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر حضرت ابو العالیہ حضرت شعبی حضرت حسن حضرت سعید بن جیر حضرت ابن سیرین حضرت عطاء بن ابو رباح حضرت زہری حضرت یحیٰی بن معمر رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی باقی بتاتے ہیں ، بلکہ یہ حضرات سوائے حضرت ابن عباس کے وجوب کے قائل ہیں ، حضرت عبیدہ ایک وصیت کے ولی تھے ۔ انہوں نے ایک بکری ذبح کی اور تینوں قسموں کے لوگوں کو کھلائی اور فرمایا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو یہ بھی میرا مال تھا ، حضرت عروہ نے حضرت مصعب کے مال کی تقسیم کے وقت بھی دیا ، حضرت زہری کا بھی قول ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ، ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ وصیت پر موقوف ہے ۔ چنانچہ جب عبدالرحمن بن حضرت ابو بکر کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کا ورثہ تقسیم کیا اور یہ واقعہ حضرت مائی عائشہ کی موجودگی کا ہے تو گھر میں جتنے مسکین اور قرابت دار تھے سب کو دیا اور اسی آیت کی تلاوت کی ، حضرت ابن عباس کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا اس نے ٹھیک نہیں کیا اس آیت سے تو مراد یہ ہے کہ جب مرنے والے نے اس کی وصیت کی ہو ( ابن ابی حاتم ) بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ آیت بالکل منسوخ ہی ہے مثلاً حصرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے ۔ اور ناسخ آیت ( يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ) 4 ۔ النسآء:11 ) ہے ، حصے مقرر ہونے سے پہلے یہ حکم تھا پھر جب حصے مقرر ہو چکے اور ہر حقدار کو خود اللہ تعالیٰ نے حق پہنچا دیا تو اب صدقہ صرف وہی رہ گیا جو مرنے والا کہہ گیا ہو حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہاں اگر وصیت ان لوگوں کے لئے ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ آیت منسوخ ہے ، جمہور کا اور چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے ، امام ابن جریر نے یہاں ایک عجیب قول اختیار کیا ہے ان کی لمبی اور کئی بار کی تحریر کا ماحصل یہ ہے کہ مال وصیت کی تقسیم کے وقت جب میت کے رشتہ دار آ جائیں تو انہیں بھی دے دو اور یتیم مسکین جو آگئے ہوں ان سے نرم کلامی اور اچھے جواب سے پیش آؤ ، لیکن اس میں نظر ہے واللہ اعلم ، حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں تقسیم سے مراد یہاں ورثے کی تقسیم ہے ، پس یہ قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کے خلاف ہے ، ٹھیک مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب یہ غریب لوگ ترکے کی تقسیم کے وقت آجائیں اور تم اپنا اپنا حصہ الگ الگ کر کے لے رہے ہو اور یہ بیچارے تک رہے ہوں تو انہیں بھی خالی ہاتھ نہ پھیرو ان کا وہاں سے مایوس اور خالی ہاتھ واپس جانا اللہ تعالیٰ رؤف و رحیم کو اچھا نہیں لگتا بطور صدقہ کے راہ اللہ ان سے بھی کچھ اچھا سلوک کر دو تا کہ یہ خوش ہو کر جائیں ، جیسے اور جگہ فرمان باری ہے کہ کھیتی کے کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو اور فاقہ زدہ اور مسکینوں سے چھپا کر اپنے باغ کا پھل لانے والوں کی اللہ تعالیٰ نے بڑی مذمت فرمائی ہے جیسے کہ سورۃ نون میں ہے کہ وہ رات کے وقت چھپ کر پوشیدگی سے کھیت اور باغ کے دانے اور پھل لانے کے لئے چلتے ہیں وہاں اللہ کا عذاب ان سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور سارے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتا ہے دوسروں کے حق برباد کرنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے ، حدیث شریف میں ہے جس مال میں صدقہ مل جائے یعنی جو شخص اپنے مال سے صدقہ نہ دے اس کا مال اس وجہ سے غارت ہو جاتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے پیچھے چھوڑ جائیں یعنی ایک شخص اپنی موت کے وقت وصیت کر رہا ہے اور اس میں اپنے وارثوں کو ضرر پہنچا رہا ہے تو اس وصیت کے سننے والے کو چاہئے کہ اللہ کا خوف کرے اور اسے ٹھیک بات کی رہنمائی کرے اس کے وارثوں کے لئے ایسی بھلائی چاہئے جیسے اپنے وارثوں کے ساتھ بھلائی کرانا چاہتا ہے جب کہ ان کی بربادی اور تباہی کا خوف ہو ، بخاری و مسلم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس ان کی بیماری کے زمانے میں ان کی عیادت کو گئے اور حضرت سعد نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال بہت ہے اور صرف میری ایک لڑکی ہی میرے پیچھے ہے تو اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے مال کی دو تہائیاں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا پھر ایک تہائی کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا خیر لیکن ہے یہ بھی زیادہ تو اگر اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو توانگر چھوڑ کر جائے اس سے بہتر ہے تو کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لوگ ایک تہائی سے بھی کم یعنی چوتھائی کی ہی وصیت کریں تو اچھا ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کو بھی زیادہ فرمایا ہے فقہاء فرماتے ہیں اگر میت کے وارث امیر ہوں تب تو خیر تہائی کی وصیت کرنا مستحب ہے اور اگر فقیر ہوں تو اس سے کم کی وصیت کرنا مستحب ہے ، دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم یتیموں کا اتنا ہی خیال رکھو جتنا تم تمہاری چھوٹی اولاد کا تمہارے مرنے کے بعد چاہتے ہو اور لوگ خیال رکھیں جس طرح تم نہیں چاہتے کہ ان کے مال دوسرے ظلم سے کھا جائیں اور وہ بالغ ہو کر فقیر رہ جائیں اسی طرح تم دوسروں کی اولادوں کے مال نہ کھا جاؤ ، یہ مطلب بھی بہت عمدہ ہے اسی لئے اس کے بعد ہی یتیموں کا مال ناحق مار لینے والوں کی سزا بیان فرمائی ، کہ یہ لوگ اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے والے اور جہنم و اصل ہونے والے ہیں ، بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات گناہوں سے بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں پوچھا گیا کیا کیا ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک ، جادو ، بےوجہ قتل ، سود خوری ، یتیم کا مال کھا جانا ، جہاد سے پیٹھ موڑنا ، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا ، ابن ابی حاتم میں ہے صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اور فرشتے انہیں گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے ہیں پھر جہنم کے گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے ہیں جو ان کے پیٹ میں اتر کر پیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں اور وہ بےطرح چیخ چلا رہے ہیں ہائے ہائے مچا رہے ہیں ۔ میں نے حضرت جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے ، حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یتیم کا مال کھا جانے والا قیامت کے روز اپنی قبر سے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے منہ آنکھوں نتھنوں اور روئیں روئیں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ اس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے ۔ ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کے قریب قریب مروی ہے اور حدیث میں ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان دونوں ضعیفوں کا مال پہنچا دو عورتوں کا اور یتیم کا ، ان کے مال سے بچو ، سورۃ بقرہ میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو جن کے پاس یتیم تھے انہوں نے ان کا اناج پانی بھی الگ کر دیا اب عموماً ایسا ہوتا کہ کھانے پینے کی ان کی کوئی چیز بچ رہتی تو یا تو دوسرے وقت اسی باسی چیز کو کھاتے یا سڑنے کے بعد پھینک دی جاتی گھر والوں میں سے کوئی اسی ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا یہ بات دونوں طرف ناگوار گزری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اس کا ذکر آیا ہے اس پر آیت ( وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:220 ) اتری جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کام میں یتیموں کی بہتری سمجھو کرو چنانچہ اس کے بعد پھر کھانا پانی ایک ساتھ ہوا ۔