سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :18
اصل میں لفظ عُرُباً استعمال ہوا ہے ، یہ لفظ عربی زبان میں عورت کی بہترین نسوانی خوبیوں کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اس سے مراد ایسی عورت ہے جو طرحدار ہو ، خوش اطوار ہو ، خوش گفتار ہو ، جسمانی جذبات سے لبریز ہو ، اپنے شوہر کو دل و جان سے چاہتی ہو ، اور اس کا شوہر بھی اس کا عاشق ہو ۔
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :19
اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اپنے شوہروں کی ہم سن ہوں گی ۔ دوسرا یہ کہ وہ آپس میں ہم سن ہوں گی ، یعنی تمام جنتی عورتیں ایک ہی عمر کی ہوں گی اور ہمیشہ اسی عمر کی رہیں گی ۔ بعید نہیں کہ یہ دونوں ہی باتیں بیک وقت صحیح ہوں ، یعنی یہ خواتین خود بھی ہم سن ہوں اور ان کے شوہر بھی ان کے ہم سن بنا دیے جائیں ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ یدخل اھل الجنۃ الجنۃ جردا مردا بیضا جعادا مکحلین ابناء ثلاث و ثلاثین ۔ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے جسم بالوں سے صاف ہوں گے ۔ مسیں بھیگ رہی ہوں گی مگر ڈاڑھی نہ نکلی ہوگی ۔ گورے چٹے ہوں گے ۔ گٹھے ہوئے بدن ہوں گے ۔ آنکھیں سرمگیں ہوں گی ۔ سب کی عمریں 33 سال کی ہوں گی ۔ ( مسند احمد ، مرویات ابی ہریرہ ) قریب قریب یہی مضمون ترمذی میں حضرت معاذ بن جَبَل اور حضرت ابو سعید خدری ( رضی اللہ عنہم ) سے بھی مروی ہے ۔