Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿1﴾
آسمانوں اور زمین میں جو ہے ( سب ) اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ زبردست با حکمت ہے ۔
سبح لله ما في السموت و الارض و هو العزيز الحكيم
Whatever is in the heavens and earth exalts Allah , and He is the Exalted in Might, the Wise.
Aasmanon aur zamin mein jo hai ( Sub ) Allah ki tasbeeh ker rahey hain woh zabardast ba-hikmat hai.
آسمانوں اور زمین میں جو چیز بھی ہے ، وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے ۔ ( ١ ) اور وہی ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔
اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے ( ف۲ ) اور وہی عزت و حکمت والا ہے ،
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے ۔ 1 اورو ہی زبر دست دانا ہے 2 ۔
اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں ، اور وہی بڑی عزت والا بڑی حکمت والا ہے
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :1 یعنی ہمیشہ کائنات کی ہر چیز نے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کیا ہے کہ اس کا خالق و پروردگار ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور خطا اور برائی سے پاک ہے ۔ اس کی ذات پاک ہے ، اس کی صفات پاک ہیں ، اس کے افعال پاک ہیں ، اور اس کے احکام بھی ، خواہ وہ تکوینی احکام ہوں یا شرعی ، سراسر پاک ہیں ۔ یہاں سَبَّحَ صیغہ ماضی استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض دوسرے مقامات پر یُسَبِّحُ صیغہ مضارع استعمال ہو ا ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کا مفہوم شامل ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمیشہ اپنے خالق و رب کی پاکی بیان کرتا رہا ہے ، آج بھی کر رہا ہے ، اور ہمیشہ کرتا رہے گا ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ لفظ ھُوَ کو پہلے لانے سے خود بخود حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ، یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ عزیز اور حکیم ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی ایسی ہستی ہے جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ۔ عزیز کے معنی ہیں ایسا زبردست اور قادر و قاہر جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، جس کی مزاحمت کسی کے بس میں نہیں ہے ، جس کی اطاعت ہر ایک کو کرنی ہی پڑتی ہے خواہ کوئی چاہے یا نہ چاہے ، جس کی نافرمانی کرنے والا اس کی پکڑ سے کسی طرح بچ ہی نہیں سکتا ۔ اور حکیم کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت اور دانائی کے ساتھ کرتا ہے ۔ اس کی تخلیق ، اس کی تدبیر ، اس کی فرمانروائی ، اس کے احکام ، اس کی ہدایات ، سب حکمت پر مبنی ہیں ۔ اس کے کسی کام میں نادانی اور حماقت و جہالت کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں کم ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ قوی ، مقتدر ، جبار اور ذو انتقام جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے محض اس کے اقتدار مطلق کا اظہار ہوتا ہے ، اور یہ صرف ان مواقع پر ہوا ہے جہاں سلسلہ کلام اس بات کا متقاضی تھا کہ ظالموں اور نافرمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا جائے ۔ اس طرح کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے عزیز کا لفاظ استعمال کیا گیا ہے ، وہاں اس کے ساتھ حکیم ، علیم ، رحیم ، غفور ، وہاب اور حمید میں سے کوئی لفظ ضرور لایا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جسے بے پناہ طاقت حاصل ہو مگر اس کے ساتھ وہ نادان ہو ، جاہل ہو ، بے رحم ہو ، در گزر اور معاف کرنا جانتی ہی نہ ہو ، بخیل ہو ، اور بدسیرت ہو تو اس کے اقتدار کا نتیجہ ظلم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہے وہ یا تو اپنی طاقت کو نادانی اور جہالت کے ساتھ استعمال کر رہا ہے ، یا وہ بے رحم اور سنگدل ہے ، یا بخیل اور تنگ دل ہے ، یا بد خو اور بد کردار ہے ، طاقت کے ساتھ ان بری صفات کا اجتماع جہاں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ اس کے حکیم و علیم اور رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہونے کا ذکر لازماً کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ جان لے کہ جو خدا اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے وہ ایک طرف تو ایسا کامل اقتدار رکھتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے روک نہیں سکتا ، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہے ، اس کا ہر فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے ۔ علیم بھی ہے ، جو فیصلہ بھی کرتا ہے ٹھیک ٹھیک علم کے مطابق کرتا ہے ۔ رحیم بھی ہے ، اپنے بے پناہ اقتدا کو بے رحمی کے ساتھ استعمال نہیں کرتا ۔ غفور بھی ہے ، اپنے زیر دستوں کے ساتھ خردہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے ۔ وہاب بھی ہے ، اپنی رعیت کے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ بے انتہا فیاضی کا برتاؤ کر رہا ہے ۔ اور حمید بھی ہے ، تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں ۔ قرآن کے اس بیان کی پوری اہمیت وہ لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو حاکمیت ( Sovereignty ) کے مسئلے پر فلسفہ سیاست اور فلسفہ قانون کی بحثوں سے واقف ہیں ۔ حاکمیت نام ہی اس چیز کا ہے کہ صاحب حاکمیت غیر محدود اقتدار کا مالک ہو ، کوئی داخلی و خارجی طاقت اس کے حکم اور فیصلے کو نفاذ سے روکنے ، یا اس کو بدلنے ، یا اس پر نظر ثانی کرنے والی نہ ہو ، اور کسی کے لیے اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو ۔ اس غیر محدود اقتدار کا تصور کرتے ہی انسانی عقل لازماً یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا اقتدار جس کو بھی حاصل ہو اسے بے عیب اور علم و حکمت میں کامل ہونا چاہیے ۔ کیونکہ اگر اس اقتدار کا حامل نادان ، جاہل ، بے رحم ، اور بدخو ہو تو اس کی حاکمیت سراسر ظلم و فساد ہو گی ۔ اسی لیے جن فلسفیوں نے کسی انسان ، یا انسانی ادارے ، یا انسانوں کے مجموعے کو حاکمیت کا حامل قرار دیا ہے ان کو یہ فرض کرنا پڑا ہے کہ وہ غلطی سے مبرا ہو گا ۔ مگر ظاہر ہے کہ نہ تو غیر محدود حاکمیت فی الواقع کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہو سکتی ہے ، اور نہ یہی ممکن ہے کہ کسی بادشاہ ، یا پارلیمنٹ ، یا قوم ، یا پارٹی کو ایک محدود دائرے میں جو حاکمیت حاصل ہو اسے وہ بے عیب اور بے خطا طریقے سے استعمال کر سکے ۔ اس لیے کہ ایسی حکمت جس میں نادانی کا شائبہ نہ ہو اور ایسا علم جو تمام متعلقہ حقائق پر حاوی ہو ، سرے سے پوری نوع انسانی ہی کو حاصل نہیں ہے کجا کہ وہ انسانوں میں سے کسی شخص یا ادارے یا قوم کو نصیب ہو جائے ۔ اور اسی طرح انسان جب تک انسان ہے اس کا خود غرضی ، نفسانیت ، خوف ، لالچ ، خواہشات ، تعصب ، اور جذباتی رضا و غضب اور محبت و نفرت سے بالکل پاک اور بالاتر ہونا بھی ممکن نہیں ہے ۔ ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھ کر غور کرے تو اسے محسوس ہو گا کہ قرآن اپنے اس بیان میں درحقیقت حاکمیت کا بالکل صحیح اور مکمل تصور پیش کر رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ عزیز یعنی اقتدار مطلق کا حامل اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے ، اور اس غیر محدود اقتدار کے ساتھ وہی ایک ہستی ایسی ہے جو بے عیب ہے ، حکیم و علیم ہے ، رحیم و غفور ہے اور حمید و وہاب ہے ۔
کل کائنات ثناء خواں ہے تمام حیوانات ، سب نباتات اس کی پاکی بیان کرتے ہیں ، ساتواں آسمان ، زمینیں ، ان کی مخلوق اور ہر ایک چیز اس کی ستائش کرنے میں مشغول ہے گو تم ان کی تسبیح نہ سمجھ سکو اللہ حلیم و غفور ہے ۔ اس کے سامنے ہر کوئی پست و عاجز و لاچار ہے ، اس کی مقرر کردہ شریعت اور اس کے احکام حکمت سے پر ہیں ۔ حقیقی بادشاہ جس کی ملکیت میں آسمان و زمین ہیں وہی ہے ، خلق میں متصرف وہی ہے ، زندگی موت اسی کے قبضے میں ہے ، وہی فنا کرتا ہے ، وہی پیدا کرتا ہے ۔ جسے جو چاہے عنایت فرماتا ہے ، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ، جو نہ چاہے نہیں ہو سکتا ۔ اس کے بعد کی آیت ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ Ǽ۝ ) 57- الحديد:3 ) وہ آیت ہے جس کی بابت اوپر کی حدیث میں گذرا کہ ایک ہزار آیتوں سے افضل ہے ۔ حضرت ابو زمیل حضرت ابن عباس سے کہتے ہیں کہ میرے دل میں ایک کھٹکا ہے لیکن زبان پر لانے کو جی نہیں چاہتا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مسکرا کر فرمایا شاید کچھ شک ہو گا جس سے کوئی نہیں بچا یہاں تک کہ قرآن میں ہے آیت ( فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ 94۝ۙ ) 10- یونس:94 ) ، یعنی اگر تو جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اس میں شک میں ہو تو تجھ سے پہلے جو کتاب پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے ۔ پھر فرمایا جب تیرے دل میں کوئی شک ہو تو اس آیت کو پڑھ لیا کر ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ Ǽ۝ ) 57- الحديد:3 ) اس آیت کی تفسیر میں دس سے اوپر اوپر اقوال ہیں ۔ بخاری فرماتے ہیں یحییٰ کا قول ہے کہ ظاہر باطن سے مراد از روئے علم ہر چیز پر ظاہر اور پوشیدہ ہونا ہے ۔ یہ یحییٰ زیاد فراء کے لڑکے ہیں ان کی ایک تصنیف ہے جس کا نام معانی القرآن ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے ۔ اے اللہ اے ساتوں آسمانوں کے اور عرش عظیم کے رب ، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب! اے تورات و انجیل کے اتارنے والے! اے دانوں اور گٹھلیوں کو اگانے والے تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں میں تیری پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے کہ اس کی چوٹی تیرے ہاتھ میں ہے تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہ تھا تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں تو ظاہر ہے تجھ سے اونچی کوئی چیز نہیں تو باطن ہے تجھ سے چھپی کوئی چیز نہیں ہمارے قرض ادا کرا دے اور ہمیں فقیری سے غنا دے ۔ حضرت ابو صالح اپنے متعلقین کو یہ دعا سکھاتے اور فرماتے سوتے وقت داہنی کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ لیا کرو ، الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے ۔ ملاحظہ ہو مسلم ۔ ابو یعلی میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ کا بسترہ قبلہ رخ بچھایا جاتا آپ آ کر اپنے داہنے ہاتھ پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے ، پھر آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے رہتے لیکن آخر رات میں با آواز بلند یہ دعا پڑھتے ( جو اوپر بیان ہوئی ) الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں جامع ترمذی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سمیت تشریف فرما تھے کہ ایک بادل سر پر آ گیا آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ نے با ادب جواب دیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں ۔ فرمایا اسے عنان کہتے ہیں یہ زمین کو سیراب کرنے والے ہیں ان لوگوں پر بھی یہ برسائے جاتے ہیں جو نہ اللہ کے شکر گزار ہیں نہ اللہ کے پکارنے والے پھر پوچھا معلوم ہے تمہارے اوپر کیا ہے انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہے ، فرمایا بلند محفوظ چھت اور لپٹی ہوئی موج ، جانتے ہو تم میں اس میں کس قدر فاصلہ ہے وہی جواب ملا ، فرمایا پانچ سو سال کا راستہ ۔ پھر پوچھا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ نے پھر اپنی لاعلمی ان ہی الفاظ میں ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے اوپر پھر دوسرا آسمان ہے اور ان دونوں آسمانوں میں بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اسی طرح آپ نے سات آسمان گنوائے اور ہر دو میں اتنی ہی دوری بیان فرمائی ۔ پھر سوال کر کے جواب سن کر فرمایا اس ساتویں کے اوپر اتنے ہی فاصلہ سے عرش ہے ، پھر پوچھا جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے اور جواب وہی سن کر فرمایا دوسری زمین ہے ، پھر سوال جواب کے بعد فرمایا اس کے نیچے دوسری زمین ہے اور دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے ، اسی طرح سات زمینیں اسی فاصلہ کے ساتھ ایک دوسرے کے نیچے بتائیں ، پھر فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر تم کوئی رسی سب سے نیچے کی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ بھی اللہ کے پاس پہنچے گی پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ، لیکن یہ حدیث غریب ہے اس کے راوی حسن کا ایوب یونس اور علی بن زید محدثین کا قول ہے ۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے مراد رسی کا اللہ تعالیٰ کے علم قدرت اور غلبے تک پہنچنا ہے ( نہ کہ ذات باری تعالیٰ ) اللہ تعالیٰ کا علم اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور سلطنت بیشک ہر جگہ ہے لیکن وہ اپنی ذات سے عرش پر ہے جیسے کہ اس نے اپنا یہ وصف اپنی کتاب میں خود بیان فرمایا ہے ۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں دو دو زمینوں کے درمیان کا فاصلہ سات سو سال کا بیان ہوا ۔ ابن ابی حاتم اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے لیکن ابن ابی حاتم میں رسی لٹکانے کا جملہ نہیں اور ہر دو زمین کے درمیان کی دوری اس میں بھی پانچ سو سال کی بیان ہوئی ہے ۔ امام بزار نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر حضرت ابو ہریرہ کے اور کوئی نہیں ۔ ابن جریر میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے یعنی قتادہ فرماتے ہیں ہم سے یوں ذکر کیا گیا ہے پھر حدیث بیان کرتے ہیں صحابی کا نام نہیں لیتے ۔ ممکن ہے یہی ٹھیک ہو ، واللہ اعلم ، حضرت ابو ذر غفاری سے مسند بزار اور کتاب الاسماء و الصفات بیہقی میں یہ حدیث مروی ہے لیکن اس کی اسناد میں نظر ہے اور متن میں غربت و نکارت ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔ امام ابن جریر آیت ( وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنّ 12۝ۧ ) 65- الطلاق:12 ) کی تفسیر میں حضرت قتادہ کا قول لائے ہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی ۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے ۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا ، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں ۔ لیکن یہ روایت بھی غریب ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت قتادہ والی اوپر کی روایت جو مرسلاً بیان ہوئی ہے ممکن ہے وہ بھی حضرت قتادہ کا اپنا قول ہو جیسے یہ قول خود قتادہ کا اپنا ۔ واللہ اعلم