Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَمَا لَـكُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ‌ۚ وَالرَّسُوۡلُ يَدۡعُوۡكُمۡ لِتُؤۡمِنُوۡا بِرَبِّكُمۡ وَقَدۡ اَخَذَ مِيۡثَاقَكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿8﴾
تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ حالانکہ خود رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور اگر تم مومن ہو تو وہ تم سے مضبوط عہد و پیمان بھی لے چکا ہے ۔
و ما لكم لا تؤمنون بالله و الرسول يدعوكم لتؤمنوا بربكم و قد اخذ ميثاقكم ان كنتم مؤمنين
And why do you not believe in Allah while the Messenger invites you to believe in your Lord and He has taken your covenant, if you should [truly] be believers?
Tum ALLAH per eman kiyon nahi latay ? Halankay khud rasool tumhen apney rab per eman lanay ki dawat dey raha hai agar tum momin ho to who to tum say mazboot ehad-o-paymaan bhi ley chukka hai.
اور تمہارے لیے کونسی وجہ ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہ رکھو ، حالانکہ رسول تمہیں دعوت دے رہے ہیں کہ تم اپنے پروردگار پر ایمان رکھو ، اور وہ تم سے عہد لے چکے ہیں ، اگر تم واقعی مومن ہو ۔ ( ٦ )
اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ پر ایمان نہ لاؤ ، حالانکہ یہ رسول تمہیں بلا رہے ہیں کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ ( ف۲۰ ) اور بیشک وہ ( ف۲۱ ) تم سے پہلے سے عہد لے چکا ہے ( ف۲۲ ) اگر تمہیں یقین ہو ،
تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمھیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے 11 اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے 12 اگر تم واقعی ماننے والے ہو ۔
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے ، حالانکہ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں بلا رہے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان لاؤ اور بیشک ( اللہ ) تم سے مضبوط عہد لے چکا ہے ، اگر تم ایمان لانے والے ہو
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :11 یعنی تم یہ غیر ایمانی روش اس حالت میں اختیار کر رہے ہو کہ اللہ کا رسول خود تمہارے درمیان موجود ہے اور دعوت ایمانی تمہیں کسی دور دراز واسطے سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ کے رسول کی زبان سے پہنچ رہی ہے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :12 بعض مفسرین نے اس عہد سے مراد اللہ کی بندگی کا وہ عہد لیا ہے جو ابتدائے آفرینش میں آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت کو نکال کر لیا گیا تھا ۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ عہد لیا ہے جو ہر انسان کی فطرت اور اس کی فطری عقل میں اللہ کی بندگی کے لیے موجود ہے ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا وہ شعوری عہد ہے جو ہر مسلمان ایمان لا کر اپنے رب سے باندھتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اس عہد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : ۔ وَاذکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاتَّقُواللہَ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ o ( المائدہ ۔ 7 ) یاد رکھو اس نعمت کو جو اللہ نے تم کو عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو جو اللہ نے تم سے لیا ہے ، جبکہ تم نے کہا ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی اور اللہ سے ڈروِ اللہ دلوں کا حال جانتا ہے ۔ حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ: بَایَعْنَا رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی السمع والطاعۃ فی النشاط والکسل و علی النفقۃ فی العسر و الیُسر و علی الامر بالمعروف و النھی عن المنکر و علی ان نقول فی اللہ تعالیٰ و لا نخاف لَوْمَۃَ لَا ئمٍ ( مسند احمد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ ہم چستی اور سستی ، ہر حال میں سمع و طاعت پر قائم رہیں گے ، خوشحالی اور تنگ حالی ، دونوں حالتوں میں راہ خدا پر خرچ کریں گے ، نیکی کا حکم سنیں گے اور بدی سے منع کریں گے ، اللہ کی خاطر حق بات کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔