Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖۤ اُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الصِّدِّيۡقُوۡنَۖ وَالشُّهَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّهِمۡؕ لَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ وَنُوۡرُهُمۡ‌ؕ وَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَاۤ اُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿19﴾
اللہ اور اس کے رسول پر جو ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے ، اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ جہنمی ہیں ۔
و الذين امنوا بالله و رسله اولىك هم الصديقون و الشهداء عند ربهم لهم اجرهم و نورهم و الذين كفروا و كذبوا بايتنا اولىك اصحب الجحيم
And those who have believed in Allah and His messengers - those are [in the ranks of] the supporters of truth and the martyrs, with their Lord. For them is their reward and their light. But those who have disbelieved and denied Our verses - those are the companions of Hellfire.
Allah our uskay rasool per jo eman rakhtay hain wohi log apney rab kay nazdeek siddiq our shaheed hain unkay liye unka ajar our unka noor hai our jo log kufur kertay hain our humari aayaton ko jhutlatay hain woh jahannomi hain.
اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ، وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ۔ ( ١٥ ) ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے ۔ اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا ، وہ دوزخی لوگ ہیں ۔
اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائیں وہی ہیں کامل سچے ، اور اَوروں پر ( ف۵۵ ) گواہ اپنے رب کے یہاں ، ان کے لیے ان کا ثواب ( ف۵٦ ) اور ان کا نور ہے ( ف۵۷ ) اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتیں جھٹلائیں وہ دوزخی ہیں ،
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں 32 وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق 33 اور شہید 34 ہیں ۔ ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے ۔ 35 ۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ دوزخی ہیں ۔ ع
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، اُن کے لئے اُن کا اجر ( بھی ) ہے اور ان کا نور ( بھی ) ہے ، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :32 یہاں ایمان لانے والوں سے مراد وہ صادق الایمان لوگ ہیں جن کا طرز عمل جھوٹے مدعیان ایمان اور ضعف الایمان لوگوں سے بالکل مختلف تھا ۔ جو اس وقت ایک دوسرے سے بڑھ کر مالی قربانیاں دے رہے تھے اور اللہ کے دین کی خاطر جانیں لڑا رہے تھے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :33 یہ صدق کا مبالغہ ہے ۔ صادق سچا ، اور صدیق نہایت سچا ۔ مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صدق محض سچے اور مطابق حقیقت قول کو نہیں کہتے بلکہ اس کا اطلاق صرف اس قول پر ہوتا ہے جو بجائے خود بھی سچا ہو اور جس کا قائل ہی سچے دل سے اس حقیقت کو مانتا ہو جسے وہ زبان سے کہہ رہا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اگر کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، تو یہ بات بجائے خود عین حقیقت کے مطابق ہے ، کیونکہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، لیکن وہ شخص اپنے اس قول میں صادق صرف اسی وقت کہا جائے گا جبکہ اس کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ لہٰذا صدق کے لیے ضروری ہے کہ قول کی مطابقت حقیقت کے ساتھ بھی ہو اور قائل کے ضمیر کے ساتھ بھی ۔ اسی طرح صدق کے مفہوم میں وفا اور خلوص اور عملی راستبازی بھی شامل ہے ۔ صادق الوعد ( وعدے کا سچا ) اس شخص کو کہیں گے جو عملاً اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو ۔ صدیق ( سچا دوست ) اسی کو کہا جائے گا جس نے آزمائش کے مواقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی آدمی کو اس سے بے وفائی کا تجربہ نہ ہوا ہو ۔ جنگ میں صادق فی القتال ( سچا سپاہی ) صرف وہی شخص کہلائے گا جو جان توڑ کر لڑا ہو اور جس نے اپنے عمل سے اپنی بہادری ثابت کر دی ہو ۔ پس صدق کی حقیقت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قائل کا عمل اس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو ۔ قول کے خلاف عمل کرنے والا صادق قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اسی بنا پر تو آپ اس شخص کو جھوٹا واعظ کہتے ہیں جو کہے کچھ اور کرے کچھ ۔ اب غور کرنا چاہیے کہ یہ تعریف جب صدق اور صادق کی ہے تو مبالغہ کے صیغہ میں کسی کو صدیق کہنے کا مطلب کیا ہو گا ۔ اس کے معنی لازماً ایسے راستباز آدمی کے ہیں جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو ، جو کبھی حق اور راستی سے نہ ہٹا ہو ، جس سے یہ توقع ہی نہ کی جا سکتی ہو کہ وہ کبھی اپنے ضمیر کے خلاف کوئی بات کہے گا ۔ جس نے کسی بات کو مانا ہو تو پورے خلوص کے ساتھ مانا ہو ، اس کی وفاداری کا حق ادا کیا ہو اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہو کہ وہ فی الواقع ویسا ہی ماننے والا ہے جیسا ایک ماننے والے کو ہونا چاہیے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، النساء ، حاشیہ 99 ) ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :34 اس آیت کی تفسیر میں اکابر مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ابن عباس ، مسروق ، ضحاک مقاتل بن حیان وغیرہ کہتے ہیں کہ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ پر ایک جملہ ختم ہو گیا ۔ اس کے بعد وَ الشُّہَدَآءُ عِنْدِ رَبِّھِمْ لَھُمْ اَجْرُھُمْ وَنُوْرُھُمْ ایک الگ مستقل جملہ ہے ۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی صدیق ہیں ۔ اور شہداء کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر اور ان کا نور ہے بخلاف اس کے مجاہد اور متعدد دوسرے مفسرین اس پوری عبارت کو ایک ہی جملہ مانتے ہیں اور ان کی تفسیر کے لحاظ سے ترجمہ وہ ہو گا جو اوپر ہم نے متن میں کیا ہے ۔ دونوں تفسیروں میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے گروہ نے شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا ہے ، اور یہ دیکھ کر کہ ہر مومن اس معنی میں شہید نہیں ہوتا انہوں نے وَالشُّھَدَآءُ عِنْدَ رَبِّھِمْ کو ایک الگ جملہ قرار دے دیا ہے ۔ مگر دوسرا گروہ شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں نہیں بلکہ حق کی گواہی دینے والے کے معنی میں لیتا ہے اور اس لحاظ سے ہر مومن شہید ہے ۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر قابل ترجیح ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً ۔ ( البقرہ ۔ 143 ) اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک متوسط امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو ۔ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شَھَدَآءَ عَلَ النَّاسِ ( الحج ۔ 87 ) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی ( تمہارا یہی نام ہے ) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ۔ حدیث میں حضرت بَراء بن عازِب کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے یہ فرماتے سنا مؤمنوا امَّتی شھدآء ، میری امت کے مومن شہید ہیں ، پھر حضور نے سورہ حدید کی یہی آیت تلاوت فرمائی ( ابن جریر ) ۔ ابن مردویہ نے اسی معنی میں حضرت ابوالدرداء سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من فر بدینہ من ارضٍ مخافۃ الفتنۃ علیٰ نفسہ و دینہ کتب عند اللہ صدیقا فاذا مات قبضہ اللہ شھیداً ثم تلا ھٰذاہ الایٰۃ ۔ جو شخص اپنی جان اور اپنے دین کو فتنے سے بچانے کے لیے کسی سر زمین سے نکل جائے وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اللہ شہید کی حیثیت سے اس کی روح قبض فرماتا ہے ، پھر یہ بات ارشاد فرمانے کے بعد حضور نے یہی آیت پڑھی ( شھادت کے اس مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 144 ۔ النساء حاشیہ 99 ۔ جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 82 ) ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :35 یعنی ان میں سے ہر ایک جس مرتبے کے اجر اور جس درجے کے نور کا مستحق ہو گا وہ اس کو ملے گا ۔ وہ اپنا اپنا اجر اور اپنا اپنا نور پائیں گے ۔ ان کے لیے ان کا حصہ آج ہی سے محفوظ ہے ۔