Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ الۡمُصَّدِّقِيۡنَ وَالۡمُصَّدِّقٰتِ وَاَقۡرَضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعَفُ لَهُمۡ وَلَهُمۡ اَجۡرٌ كَرِيۡمٌ‏ ﴿18﴾
بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں ۔ ان کے لئے یہ بڑھایا جائے گا اور ان کے لئے پسندیدہ اجر و ثواب ہے ۔
ان المصدقين و المصدقت و اقرضوا الله قرضا حسنا يضعف لهم و لهم اجر كريم
Indeed, the men who practice charity and the women who practice charity and [they who] have loaned Allah a goodly loan - it will be multiplied for them, and they will have a noble reward.
Be-shak sadqa denay walay mard our sadqa denay wali orten our jo Allah ko khuloos kay sath qarz dey rahey hain unkay liye yeh barhaya jayega our unn kay liye pasandeedah ajar-o-sawab hai.
یقینا وہ جو صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں ہیں ، اور انہوں نے اللہ کو قرض دیا ہے اچھا قرض ، ان کے لیے اس ( صدقے ) کو کئی گنا بڑھا دیا جائے گا ، اور ان کے لیے باعزت اجر ہے ۔
بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ جنہوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا ( ف۵۳ ) ان کے دونے ہیں اور ان کے لیے عزت کا ثواب ہے ( ف۵٤ )
مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات 31 دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے ، ان کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیئے بہترین اجر ہے ۔
بیشک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لئے ( صدقہ و قرضہ کا اجر ) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لئے بڑی عزت والا ثواب ہوگا
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :31 صَدَقَہ اردو زبان میں تو بہت ہی برے معنوں میں بولا جاتا ہے ، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطیے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے ، جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو ، کسی پر احسان نہ جتایا جائے ، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے ۔ یہ لفظ صدق سے ماخوذ ہے اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے ۔ کوئی عطیہ اور کوئی صرف مال اس وقت تک صدقہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تہہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بےکھوٹ جذبہ موجود نہ ہو ۔
صدقہ و خیرات کرنے والوں کے لئے اجر و ثواب فقیر مسکین محتاجوں اور حاجت مندوں کو خالص اللہ کی مرضی کی جستجو میں جو لوگ اپنے حلال مال نیک نیتی سے اللہ کی راہ میں صدقہ دیتے ہیں ان کے بدلے بہت کچھ بڑھا چڑھا کر اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرمائے گا ۔ دس دس گنے اور اس سے بھی زیادہ سات سات سو تک بلکہ اس سے بھی سوا ان کے ثواب بےحساب ہیں ان کے اجر بہت بڑے ہیں ۔ اللہ رسول پر ایمان رکھنے والے ہی صدیق و شہید ہیں ، ان دونوں اوصاف کے مستحق صرف با ایمان لوگ ہیں ، بعض حضرات نے الشہداء کو الگ جملہ مانا ہے ، غرض تین قسمیں ہوئیں مصدقین صدیقین شہداء جیسے اور روایت میں ہے اللہ اور اس کے رسول کا اطاعت گذار انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہے جو نبی ، صدیق ، شہید اور صالح لوگ ہیں ، پس صدیق و شہید میں یہاں بھی فرق کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو قسم کے لوگ ہیں ، صدیق کا درجہ شہید سے یقینا بڑا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جنتی لوگ اپنے سے اوپر کے بالا خانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یا مغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو ، لوگوں نے کہا یہ درجے تو صرف انبیاء کے ہوں گے آپ نے فرمایا ہاں قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی ( بخاری مسلم ) ایک غریب حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شہید اور صدیق دونوں وصف اس آیت میں اسی مومن کے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے مومن شہید ہیں ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ حضرت عمرو بن میمون کا قول ہے یہ دونوں ان دونوں انگلیوں کی طرح قیامت کے دن آئیں گے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہوں گی جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی پھریں گی اور رات کو قندیلوں میں سہارا لیں گی ان کے رب نے ان کی طرف ایک بار دیکھا اور پوچھا تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ کہ تو ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج تاکہ ہم پھر تیری راہ میں جہاد کریں اور شہادت حاصل کریں اللہ نے جواب دیا یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ کوئی لوٹ کر پھر دنیا میں نہیں جائے گا پھر فرماتا ہے کہ انہیں اجر و نور ملے گا جو نور ان کے سامنے رہے گا اور ان کے اعمال کے مطابق ہو گا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے شہیدوں کی چار قسمیں ہیں ۔ 1- وہ پکے ایمان والا مومن جو دشمن اللہ سے بھڑ گیا اور لڑتا رہا یہاں تک کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اس کا وہ درجہ ہے کہ اہل محشر اس طرح سر اٹھا اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنا سر اس قدر بلند کیا کہ ٹوپی نیچے گر گئی اور اس حدیث کے راوی حضرت عمر نے بھی اسے بیان کرنے کے وقت اتنا ہی اپنا سر بلند کیا کہ آپ کی ٹوپی بھی زمین پر جا پڑی ۔ 2 دوسرا وہ ایمان دار نکلا جہاد میں لیکن دل میں جرات کم ہے کہ یکایک ایک تیر آ لگا اور روح پرواز کر گئی ہی دوسرے درجہ کا شہید جنتی ہے ۔ 3 تیسرا وہ جس کے بھلے برے اعمال تھے لیکن رب نے اسے پسند فرما لیا اور میدان جہاد میں کفار کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی تیسرے درجے میں ہیں ۔ چوتھا وہ جس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جہاد میں نکلا اور اللہ نے شہادت نصیب فرما کر اپنے پاس بلوا لیا ۔ ان نیک لوگوں کا انجام بیان کر کے اب بد لوگوں کا نتیجہ بیان کیا کہ یہ جہنمی ہیں ۔