Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
سَابِقُوۡۤا اِلٰى مَغۡفِرَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ عَرۡضُهَا كَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ؕ ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ؕ وَاللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ‏ ﴿21﴾
۔ ( آؤ ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسماں و زمین کی وسعت کے برابر ہے یہ ان کے لئے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
سابقوا الى مغفرة من ربكم و جنة عرضها كعرض السماء و الارض اعدت للذين امنوا بالله و رسله ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء و الله ذو الفضل العظيم
Race toward forgiveness from your Lord and a Garden whose width is like the width of the heavens and earth, prepared for those who believed in Allah and His messengers. That is the bounty of Allah which He gives to whom He wills, and Allah is the possessor of great bounty.
( Aao ) doro apney rab ki maghfirat ki taraf our uss jannat ki taraf jiss ki wussat kay barabar hai yeh unkay liye banaee gaee hai jo Allah per aur uskay rasoolon per eman rakhtay hain yeh Allah ka fazal hai jissay chahye dey aur Allah bara fazl wala hai.
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی جیسی ہے ، یہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے ۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
بڑھ کر چلو اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ( ف٦۵ ) جس کی چوڑائی جیسے آسمان اور زمین کا پھیلاؤ ( ف٦٦ ) تیار ہوئی ہے ان کے لیے جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے ، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ، اور اللہ بڑا فضل والا ہے ،
دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو 37 اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے 38 ۔ جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
۔ ( اے بندو! ) تم اپنے رب کی بخشش کی طرف تیز لپکو اور جنت کی طرف ( بھی ) جس کی چوڑائی ( ہی ) آسمان اور زمین کی وسعت جتنی ہے ، اُن لوگوں کیلئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ، یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ عظیم فضل والا ہے
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :37 اصل میں لفظ سَابِقُوْا استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم محض دوڑو کے لفظ سے ادا نہیں ہوتا ۔ مسابقت کے معنی مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ تم دنیا کی دولت اور لذتیں اور فائدے سمیٹنے میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی جو کوشش کر رہے ہو اسے چھوڑ کر اس چیز کو ہدف مقصود بناؤ اور اس کی طرف دوڑنے میں بازی جیت لے جانے کی کوشش کرو ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :38 اصل الفاظ ہیں عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ۔ بعض مفسرین نے عرض کو چوڑائی کے معنی میں لیا ہے ۔ لیکن دراصل یہاں یہ لفظ وسعت و پہنائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عربی زبان میں لفظ عرض صرف چوڑائی ہی کے لیے نہیں بولا جاتا جو طول کا مد مقابل ہے ، بلکہ اسے مجرد وسعت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِیْضٍ ، انسان پھر لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ( حٰم السجدہ ۔ 51 ) ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اس ارشاد سے مقصود جنت کا رقبہ بتانا نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت کا تصور دلانا ہے ۔ یہاں اس کی وسعت آسمان و زمین جیسی بتائی گئی ہے ، اور سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے سَارِعُوْآ اِلیٰ مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقَیْنَ ( آیت ۔ 133 ) ۔ دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت ساری کائنات ہے ، جو مہیا کی گئی ہے متقی لوگوں کے لیے ۔ ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے کچھ ایسا تصور ذہن میں آتا ہے کہ جنت میں ایک انسان کو جو باغ اور محلات ملیں گے وہ تو صرف اس کے قیام کے لیے ہوں گے ، مگر در حقیقت پوری کائنات اس کی سیر گاہ ہو گی ۔ کہیں وہ بند نہ ہو گا ۔ وہاں اس کا حال اس دنیا کی طرح نہ ہو گا کہ چاند جیسے قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لیے بھی وہ برسوں پاپڑ بیلتا رہا اور اس ذرا سے سفر کی مشکلات کو رفع کرنے میں اسے بے تحاشا وسائل صرف کرنے پڑے ۔ وہاں ساری کائنات اس کے لیے کھلی ہو گی ، جو کچھ چاہے گا اپنی جگہ سے بیٹھے بیٹھے دیکھ لے گا اور جہاں چاہے گا بے تکلف جا سکے گا ۔