Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِيۡبَةٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡـرَاَهَا ؕ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌۚ  ۖ‏ ﴿22﴾
نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ ( خاص ) تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے یہ ( کام ) اللہ تعالٰی پر ( بالکل ) آسان ہے ۔
ما اصاب من مصيبة في الارض و لا في انفسكم الا في كتب من قبل ان نبراها ان ذلك على الله يسير
No disaster strikes upon the earth or among yourselves except that it is in a register before We bring it into being - indeed that, for Allah , is easy -
Na koi museebat duniya main aati hai na ( Khaas ) tumhari jaanon main magar iss say pehlay kay hum usko peda keran woh aik khaas kitab main likhi hui hai yeh ( kaam ) Allah taalaa per ( bilkul ) aasan hai
کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں نازل ہوتی یا تمہاری جانوں کو لاحق ہوتی ہو ، مگر وہ ایک کتاب میں اس وقت سے درج ہے جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا ، ( ١٧ ) یقین جانو یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے ۔
نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں ( ف٦۷ ) اور نہ تمہاری جانوں میں ( ف٦۸ ) مگر وہ ایک کتاب میں ہے ( ف٦۹ ) قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں ( ف۷۰ ) بیشک یہ ( ف۷۱ ) اللہ کو آسان ہے ،
کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے 39 ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو ۔ 40 ایسا کرنا اللہ کے لیئے بہت آسان کام ہے 41 ۔
کوئی بھی مصیبت نہ تو زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری زندگیوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ( یعنی لوحِ محفوظ میں جو اللہ کے علمِ قدیم کا مرتبہ ہے ) اس سے قبل کہ ہم اسے پیدا کریں ( موجود ) ہوتی ہے ، بیشک یہ ( علمِ محیط و کامل ) اللہ پر بہت ہی آسان ہے
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :39 اس کو کا شارہ مصیبت کی طرف بھی ہو سکتا ہے ، زمین کی طرف بھی ، نفس کی طرف بھی ، اور فحوائے کلام کے لحاظ سے مخلوقات کی طرف بھی ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :40 کتاب سے مراد ہے نوشتہ تقدیر ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :41 یعنی اپنی مخلوقات میں سے ایک ایک کی تقدیر پہلے سے لکھ دینا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
تنگی اور آسانی کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ اپنی اس قدرت کی خبر دے رہا ہے جو اس نے مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی اپنی مخلوق کی تقدیر مقرر کی تھی ، فرمایا کہ زمین کے جس حصے میں کوئی برائی آئے یا جس کسی شخص کی جان پر کچھ آ پڑے اسے یقین رکھنا چاہئے کہ خلق کی پیدائش سے پہلے ہے ، لیکن زیادہ ٹھیک بات یہ ہے کہ مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہے ، امام حسن سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمانے لگے سبحان اللہ ہر مصیبت جو آسمان و زمین میں ہے وہ نفس کی پیدائش سے پہلے ہی رب کی کتاب میں موجود ہے اس میں کیا شک ہے؟ زمین کی مصیبتوں سے مراد خشک سالی ، قحط وغیرہ ہے اور جانوں کی مصیبت درد دکھ اور بیماری ہے ، جس کسی کو کوئی خراش لگتی ہے یا لغزش پا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کسی سخت محنت سے پسینہ آ جاتا ہے یہ سب اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے اور ابھی تو بہت سے گناہ ہیں جنہیں وہ غفور و رحیم اللہ بخش دیتا ہے ، یہ آیت بہترین اور بہت اعلیٰ دلیل ہے قدریہ کی تردید میں جس کا خیال ہے کہ سابق علم کوئی چیز نہیں اللہ انہیں ذلیل کرے ۔ صحیح مسلم شریف ہے اللہ تعالیٰ نے تقدیر مقرر آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے کی اور رویات میں ہے اس کا عرش پانی پر تھا ( ترمذی ) پھر فرماتا ہے کاموں کے وجود میں آنے سے پہلے ان کا اندازہ کر لینا ، ان کے ہونے کا علم حاصل کر لینا اور اسے لکھ دینا اللہ پر کچھ مشکل نہیں ۔ وہی تو ان کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جس کا محیط علم ہونے والی ، ہو رہی ، ہو چکی ، ہو گی تمام چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے ہم نے تمہیں یہ خبر اس لئے دی ہے کہ تم یقین رکھو کہ جو تمہیں پہنچا وہ ہرگز کسی صورت ٹلنے والا نہ تھا ، پس مصیبت کے وقت صبر و شکر تحمل و ثابت قدمی مضبوط ولی اور روحانی طاقت تم میں موجود رہے ، ہائے وائے بےصبری اور بےضبطی تم سے دور رہے جزع فزع تم پر چھا نہ جائے تم اطمینان سے رہو کہ یہ تکلیف تو آنے والی تھی ہی ، اسی طرح اگر مال دولت غلبہ وغیرہ مل جائے تو اس وقت آپے سے باہر نہ ہو جاؤ اسے عطیہ الٰہی مانو تکبر اور غرور تم میں نہ آ جائے ایسا نہ ہو کہ دولت و مال وغیرہ کے نشے میں پھول جاؤ اور اللہ کو بھول جاؤ اس لئے کہ اس وقت بھی ماری یہ تعلیم تمہارے سامنے ہو گی کہ یہ میرے دست و بازو کا میری عقل و ہوش کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے ۔ ایک قرأت اس کی آتکم ہے دوسری اتکم ہے اور دونوں میں تلازم ہے ، اسی لئے ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے جی میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے دوسروں پر فخر کرنے والے اللہ کے دشمن ہیں ، حضرت ابن عباس کا فرمان ہے کہ رنج و راحت خوشی و غم تو ہر شخص پر آتا ہے خوشی کو شکر میں اور غم کو صبر میں گذار دو ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود بھی بخیل اور خلاف شرع کام کرنے والے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی برا راستہ بتاتے ہیں ۔ جو شخص اللہ کی حکم برداری سے ہٹ جائے وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا کیونکہ وہ تمام مخلوق سے بےنیاز ہے اور ہر طرح سزا اور حمد ہے ۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یعنی اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کافر ہو جائیں تو بھی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ ساری مخلوق سے غنی ہے اور مستحق حمد ہے ۔