Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لِّـكَيۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰى مَا فَاتَكُمۡ وَلَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰٮكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۙ‏ ﴿23﴾
تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر اترا جاؤ اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا ۔
لكيلا تاسوا على ما فاتكم و لا تفرحوا بما اتىكم و الله لا يحب كل مختال فخور
In order that you not despair over what has eluded you and not exult [in pride] over what He has given you. And Allah does not like everyone self-deluded and boastful -
Takay tum apney say fol shuda kissi cheez per ranjeedah na hojoya kero our na attakerdah cheez per itra jao.our itranay walay shekhi khoron ko Allah pasand nhifarmata.
یہ اس لیے تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے ، اس پر تم غم میں نہ پڑو ، اور جو چیز اللہ تمہیں عطا فرمادے ، اس پر تم اتراؤ نہیں ، ( ١٨ ) اور اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اتراہٹ میں مبتلا ہو ، شیخی بگھارنے والا ہو ۔
اس لیے کہ غم نہ کھاؤ اس ( ف۷۲ ) پر جو ہاتھ سے جائے اور خوش نہ ہو ( ف۷۳ ) اس پر جو تم کو دیا ( ف۷٤ ) اور اللہ کو نہیں کوئی اترونا ( شیخی بگھارنے والا ) بڑائی مارنے والا ،
۔ ( یہ سب کچھ اس لیئے ہے ) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمھیں ہو ا اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمھیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ 42 ۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں ۔
تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی ، اور اللہ کسی تکبّر کرنے والے ، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :42 اس سلسلہ بیان میں یہ بات جس غرض کے لیے فرمائی گئی ہے اسے سمجھنے کے لیے ان حالات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے جو اس سورت کے نزول کے وقت اہل ایمان کو پیش آ رہے تھے ۔ ہر وقت دشمنوں کے حملے کا خطرہ ، پے در پے لڑائیاں دائماً محاصرہ کی سی کیفیت ، کفار کے معاشی مقاطعہ کی وجہ سے سخت بد حالی ، عرب کے گوشے گوشے میں ایمان لانے والوں پر کفار کا ظلم و ستم ، یہ کیفیات تھیں جن سے مسلمان اس وقت گزر رہے تھے ۔ کفار ان کو مسلمانوں کے مخذول اور راندۂ درگاہ ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے ۔ منافقین انہیں اپنے شکوک و شبہات کی تائید میں استعمال کرتے تھے ۔ اور مخلص اہل ایمان اگرچہ بڑی ثابت قدمی کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کر رہے تھے ، مگر بعض اوقات مصائب کا ہجوم ان کے لیے بھی انتہائی صبر آزما ہو جاتا تھا ۔ اس پر مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر کوئی مصیبت بھی معاذاللہ تمہارے رب کی بے خبری میں نازل نہیں ہو گئی ہے ۔ جو کچھ پیش آ رہا ہے ، یہ سب اللہ کی طے شدہ اسکیم کے مطابق ہے جو پہلے سے اس کے دفتر میں لکھی ہوئی موجود ہے ۔ اور ان حالات سے تمہیں اس لیے گزارا جا رہا ہے کہ تمہاری تربیت پیش نظر ہے ۔ جو کار عظیم اللہ تعالیٰ تم سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے یہ تربیت ضروری ہے ۔ اس سے گزارے بغیر تمہیں کامیابی کی منزل پر پہنچا دیا جائے تو تمہاری سیرت میں وہ خامیاں باقی رہ جائیں گی جن کی بدولت نہ تم عظمت و اقتدار کی ثقیل خوراک ہضم کر سکو گے اور نہ باطل کی طوفان خیز موجوں کے تھپیڑے سہہ سکو گے ۔