Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا وَّ اِبۡرٰهِيۡمَ وَجَعَلۡنَا فِىۡ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالۡـكِتٰبَ‌ فَمِنۡهُمۡ مُّهۡتَدٍ‌ۚ وَكَثِيۡرٌ مِّنۡهُمۡ فٰسِقُوۡنَ‏ ﴿26﴾
بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم ( علیہما السلام ) کو ( پیغمبر بنا کر ) بھیجا اور ہم نے دونوں ان کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب جاری رکھی تو ان میں سے کچھ تو راہ یافتہ ہوئے اور ان میں سے اکثر نافرمان رہے ۔
و لقد ارسلنا نوحا و ابرهيم و جعلنا في ذريتهما النبوة و الكتب فمنهم مهتد و كثير منهم فسقون
And We have already sent Noah and Abraham and placed in their descendants prophethood and scripture; and among them is he who is guided, but many of them are defiantly disobedient.
Be-shak hum ney nooh aur ibrahim ( aleh-e-salam ) ko ( payghumber banaker ) bheja aur hum ney inn dono ki olad mein payghumbari aur kitab jari rakhi to inn mein say kuch to raah yafta huye aur inn mein say aksar boht nafarman rahey.
اور ہم نے نوح کو اور ابراہیم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ، اور ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب کا سلسلہ جاری کیا ۔ پھر ان میں سے کچھ تو ہدایت پر آگئے ، اور ان میں سے بہت سے لوگ نافرمان رہے ۔
اور بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی ( ف۸٦ ) تو ان میں ( ف۸۷ ) کوئی راہ پر آیا اور ان میں بہتیرے فاسق ہیں ،
ہم نے48 نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی 49 ۔ پھر ان کی اولاد میں سے کسی نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہو گئے 50 ۔
اور بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم علیہما السلام کو بھیجا اور ہم نے دونوں کی اولاد میں رسالت اور کتاب مقرر فرما دی تو ان میں سے ( بعض ) ہدایت یافتہ ہیں ، اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :48 اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو رسول بینات اور کتاب اور میزان لے کر آئے تھے ان کے ماننے والوں میں کیا بگاڑ پیدا ہوا ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :49 یعنی جو رسول بھی اللہ کی کتاب لے کر آئے وہ حضرت نوح کی ، اور ان کے بعد حضرت ابراہیم کی نسل سے تھے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :50 یعنی نافرمان ہو گئے ، اللہ کی اطاعت کے دائرے سے نکل گئے ۔
حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کی فضیلت حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس فضیلت کو دیکھئے کہ حضرت نوح کے بعد سے لے کر حضرت ابراہیم تک جتنے پیغمبر آئے سب آپ ہی کی نسل سے آئے اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے نبی اور رسول آئے سب کے سب آپ ہی کی نسل سے ہوئے جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِيْمَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ 26؀ ) 57- الحديد:26 ) یہاں تک کہ بنو اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کی خوش خبری سنائی ۔ پس نوح اور ابراہیم صلوات اللہ علیہما کے بعد برابر رسولوں کا سلسلہ رہا حضرت عیسیٰ تک جنہیں انجیل ملی اور جن کی تابع فرمان امت رحمدل اور نرم مزاج واقع ہوئی ، خشیت الٰہی اور رحمت خلق کے پاک اوصاف سے متصف ۔ پھر نصرانیوں کی ایک بدعت کا ذکر ہے جو ان کی شریعت میں تو نہ تھی لیکن انہوں نے خود اپنی طرف سے اسے ایجاد لی تھی ، اس کے بعد کے جملے کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ ان کا مقصد نیک تھا کہ اللہ کی رضا جوئی کے لئے یہ طریقہ نکالا تھا ۔ حضرت سعید بن جبیر حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا ہاں ہم نے ان پر صرف اللہ کی رضا جوئی واجب کی تھی ۔ پھر فرماتا ہے یہ اسے بھی نبھا نہ سکے جیسا چاہیے تھا ویسا اس پر بھی نہ جمے ، پس دوہری خرابی آئی ایک اپنی طرف سے ایک نئی بات دین اللہ میں ایجاد کرنے کی دوسرے اس پر بھی قائم نہ رہیں کی ، یعنی جسے وہ خود قرب اللہ کا ذریعہ اپنے ذہن سے سمجھ بیٹھے تھے بالآخر اس پر بھی پورے نہ اترے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو پکارا آپ نے لبیک کہا آپ نے فرمایا سنو بنی اسرائیل کے بہتر گروہ ہو گئے جن میں سے تین نے نجات پائی ، پہلے فرقہ نے تو بنی اسرائیل کی گمراہی دیکھ کر ان کی ہدایت کے لئے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر ان کے بڑوں کو تبلیغ شروع کی لیکن آخر وہ لوگ جدال و قتال پر اترے آئے اور بادشاہ اور امراء نے جو اس تبلیغ سے بہت گھبراتے تھے ان پر لشکر کشی کی اور انہیں قتل بھی کیا قید بھی کیا ان لوگوں نے تو نجات حاصل کر لی ، پھر دوسری جماعت کھڑی ہوئی ان میں مقابلہ کی طاقت تو نہ تھی تاہم اپنے دین کی قوت سے سرکشوں اور بادشاہوں کے دربار میں حق گوئی شروع کی اور اللہ کے سچے دین اور حضرت عیسیٰ کے اصلی مسلک کی طرف انہیں دعوت دینے لگے ، ان بدنصیبوں نے انہیں قتل بھی کرایا آروں سے بھی چیرا اور آگ میں بھی جلایا جسے اس جماعت نے صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیا اور نجات حاصل کی ، پھر تیسری جماعت اٹھی یہ ان سے بھی زیادہ کمزور تھے ان میں طاقت نہ تھی کہ اصل دین کے احکام کی تبلیغ ان ظالموں میں کریں اس لئے انہوں نے اپنے دین کا بچاؤ اسی میں سمجھا کہ جنگلوں میں نکل جائیں اور پہاڑوں پر چڑھ جائیں عبادت میں مشغول ہو جائیں اور دنیا کو ترک کر دیں انہی کا ذکر رہبانیت والی آیت میں ہے ، یہی حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے اس میں تہتر فرقوں کا بیان ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اجراء نہیں ملے گا جو مجھ پر ایمان لائیں اور میری تصدیق کریں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ایسے ہیں جو مجھے جھٹلائیں اور میرا خلاف کریں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں نے حضرت عیسیٰ کے بعد توریت وانجیل میں تبدیلیاں کر لیں ، لیکن ایک جماعت ایمان پر قائم رہی اور اصلی تورات و انجیل ان کے ہاتھوں میں رہی جسے وہ تلاوت کیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ ان لوگوں نے ( جنہوں نے کتاب اللہ میں رد و بدل کر لیا تھا ) اپنے بادشاہوں سے ان سچے مومنوں کی شکایت کی کہ یہ لوگ کتاب اللہ کہہ کر جس کتاب کو پڑھتے ہیں اس میں تو ہمیں گالیاں لکھی ہیں اس میں لکھا ہوا ہے جو کوئی اللہ کی نازل کردہ کتاب کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافر ہے اور اسی طرح کی بہت سی آیتیں ہیں ، پھر یہ لوگ ہمارے اعمال پر بھی عیب گیری کرتے رہتے ہیں ، پس آپ انہیں دربار میں بلوایئے اور انہیں مجبور کیجئے کہ یا تو وہ اسی طرح پڑھیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں اور ویسا ہی عقیدہ ایمان رکھیں جیسا ہمارا ہے ورنہ انہیں بدترین عبرت ناک سزا دیجیے ، چنانچہ ان سچے مسلمانوں کو دربار میں بلوایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ یا تو ہماری اصلاح کردہ کتاب پڑھا کرو اور تمہارے اپنے ہاتھوں میں جو الہامی کتابیں انہیں چھوڑ دو ورنہ جان سے ہاتھ دھو لو اور قتل گاہ کی طرف قدم بڑھاؤ ، اس پر ان پاک بازوں کی ایک جماعت نے کہا کہ تم ہمیں ستاؤ نہیں تم اونچی عمارت بنا دو ہمیں وہاں پہنچا دو اور ڈوری چھڑی دیدو ہمارا کھانا پینا اس میں ڈال دیا کرو ہم اوپر سے گھسیٹ لیا کریں گے نیچے اتریں گے ہی نہیں اور تم میں آئیں گے ہی نہیں ، ایک جماعت نے کہا سنو ہم یہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں جنگلوں اور پہاڑوں میں نکل جاتے ہیں تمہاری بادشاہت کی سرزمین سے باہر ہو جاتے ہیں چشموں ، نہروں ، ندیوں ، نالوں اور تالابوں سے جانوروں کی طرح منہ لگا کر پانی پیا کریں گے اور جو پھول پات مل جائیں گے ان پر گزارہ کرلیں گے ۔ اس کے بعد اگر تم ہمیں اپنے ملک میں دیکھ لو تو بیشک گردن اڑا دینا ، تیسری جماعت نے کہا ہمیں اپنی آبادی کے ایک طرف کچھ زمین دیدو اور وہاں حصار کھینچ دو وہیں ہم کنویں کھود لیں گے اور کھیتی کر لیا کریں گے تم میں ہرگز نہ آئیں گے ۔ چونکہ اس اللہ پرست جماعت سے ان لوگوں کی قریبی رشتہ داریاں تھیں اس لئے یہ درخواستیں منظور کر لی گئیں اور یہ لوگ اپنے اپنے ٹھکانے چلے گئے ، لیکن ان کے ساتھ بعض اور لوگ بھی لگ گئے جنہیں دراصل علم و ایمان نہ تھا تقلیداً ساتھ ہو لیے ، ان کے بارے میں یہ آیت ( وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا 27؀ ) 57- الحديد:27 ) نازل ہوئی ، پس جب اللہ تعالیٰ نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اس وقت ان میں سے بہت کم لوگ رہ گئے تھے آپ کی بعثت کی خبر سنتے ہی خانقاہوں والے اپنی خانقاہوں سے اور جنگلوں والے اپنے جنگلوں سے اور حصار والے اپنے حصاروں سے نکل کھڑے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ پر ایمان لائے ، آپ کی تصدیق کی جس کا ذکر اس آیت میں ہے ( یا ایھا الذین امنوا برسولہ یؤتکم کفلین من رحمتہ ویجعل لکم نورا تمشون بہ ) الخ ، یعنی ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تمہیں اللہ اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا ( یعنی حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے کا اور پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا ) اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو ( یعنی قرآن و سنت ) تاکہ اہل کتاب جان لیں ( جو تم جیسے ہیں ) کہ اللہ کے کسی فضل کا انہیں اختیار نہیں اور سارا فضل اللہ کے ہاتھ ہے جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے ۔ یہ سیاق غریب ہے اور ان دونوں پچھلی آیتوں کی تفسیر اس آیت کے بعد ہی آ رہی ہے ، انشاء اللہ تعالیٰ ابو یعلی میں ہے کہ لوگ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کی خلافت کے زمانہ میں آئے ، آپ اس وقت امیر مدینہ تھے جب یہ آئے اس وقت حضرت انس نماز ادا کر رہے تھے اور بہت ہلکی نماز پڑھ رہے تھے جیسے مسافرت کی نماز ہو یا اس کے قریب قریب جب سلام پھیرا تو لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نے فرض نماز پڑھی یا نفل؟ فرمایا فرض اور یہی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ، میں نے اپنے خیال سے اپنی یاد برابر تو اس میں کوئی خطا نہیں کی ، ہاں اگر کچھ بھول گیا ہوں تو اس کی بابت نہیں کہہ سکتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ورنہ تم پر سختی کی جائے گی ، ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کی اور ان پر بھی سختی کی گئی پس ان کی بقیہ خانقاہوں میں اور گھروں میں اب بھی دیکھ لو ترک دنیا کی ہی وہی سختی تھی جسے اللہ نے ان پر واجب نہیں کیا تھا ۔ دوسرے دن ہم لوگوں نے کہا آیئے سواریوں پر چلیں اور دیکھیں اور عبرت حاصل کریں ۔ حضرت انس نے فرمایا بہت اچھا ہم سوار ہو کر چلے اور کئی ایک بستیاں دیکھیں جو بالکل اجڑ گئی تھیں اور مکانات اوندھے پڑے ہوئے تھے تو ہم نے کہا ان شہروں سے آپ واقف ہیں؟ فرمایا خوب اچھی طرح بلکہ ان کے باشندوں سے بھی انہیں سرکشی اور حسد نے ہلاک کیا ۔ حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے اور سرکشی اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔ آنکھ کا بھی زنا ہے ہاتھ اور قدم اور زبان کا بھی زنا ہے اور شرمگاہ اسے سچ ثابت کرتی ہے یا جھٹلاتی ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کیلئے رہبانیت تھی اور میری امت کی رہبانیت اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ ایک شخص حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کچھ وصیت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھ سے وہ سوال کیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا ۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرتے رہنے کی ، یہی تمام نیکیوں کا سر ہے اور تو جہاد کو لازم پکڑے رہ یہی اسلام کی رہبانیت ہے اور ذکر اللہ اور تلاوت قرآن پر مداومت کر ۔ وہی آسمان میں ، زمین میں تیری راحت و روح ہے اور تیری یاد ہے ۔ یہ روایت مسند احمد میں ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔