Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَـقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَيِّنٰتِ وَاَنۡزَلۡنَا مَعَهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡمِيۡزَانَ لِيَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ‌ۚ وَاَنۡزَلۡنَا الۡحَـدِيۡدَ فِيۡهِ بَاۡسٌ شَدِيۡدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَـعۡلَمَ اللّٰهُ مَنۡ يَّنۡصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالۡغَيۡبِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيۡزٌ‏ ﴿25﴾
یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان ( ترازو ) نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت و قوت ہے اور لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور اس لئے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بے دیکھے کون کرتا ہے بےشک اللہ قوت والا ز اوربردست ہے ۔
لقد ارسلنا رسلنا بالبينت و انزلنا معهم الكتب و الميزان ليقوم الناس بالقسط و انزلنا الحديد فيه باس شديد و منافع للناس و ليعلم الله من ينصره و رسله بالغيب ان الله قوي عزيز
We have already sent Our messengers with clear evidences and sent down with them the Scripture and the balance that the people may maintain [their affairs] in justice. And We sent down iron, wherein is great military might and benefits for the people, and so that Allah may make evident those who support Him and His messengers unseen. Indeed, Allah is Powerful and Exalted in Might.
yaqeenan hum ney apney payghambaron ko khuli doleelen dey ker bheja our unkay sath kitab our meean nazilfarmaya. takay log adal per qaeem rahein aur hum ney lohey ko utara jiss mein sakht hebat-o-qooat hai aur logon kay liye aur bhi ( boht say ) faeeday hain aur iss liye bhi kay ALLAH jaan ley kay uski aur uss kay rasoolon ki madad bey dekhay kon kerta hai be-shak ALLAH qooat wala aur zabardast hai.
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی ہوئی نشانیاں دے کر بھیجا ، اور ان کے ساتھ کتاب بھی اتاری ، اور ترازو بھی ، ( ٢٠ ) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ، اور ہم نے لوہا اتار جس میں جنگی طاقت بھی ہے اور لوگوں کے لیے دوسرے فائدے بھی ، ( ٢١ ) اور یہ اس لیے تاکہ اللہ جان لے کہ کون ہے جو اس کو دیکھے بغیر اس ( کے دین ) کی اور اس کے پیغمبروں کی مدد کرتا ہے ۔ یقین رکھو کہ اللہ بڑی قوت کا ، بڑے اقتدار کا مالک ہے ۔ ( ٢٢ )
بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب ( ف۷۸ ) اور عدل کی ترازو اتاری ( ف۷۹ ) کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ( ف۸۰ ) اور ہم نے لوہا اتارا ( ف۸۱ ) اس میں سخت آنچ ( نقصان ) ( ف۸۲ ) اور لوگوں کے فائدے ( ف۸۳ ) اور اس لیے کہ اللہ دیکھے اس کو جو بےدیکھے اس کی ( ف۸٤ ) اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے ، بیشک اللہ قورت والا غالب ہے ( ف۸۵ )
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ، 45 ۔ اور لوہا اتار جس میں بڑا زور ہے اور لوگ کے لئے منافع ہیں ۔ 46 یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے ۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے47 ۔ ع
بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں ، اور ہم نے ( معدنیات میں سے ) لوہا مہیّا کیا اس میں ( آلاتِ حرب و دفاع کے لئے ) سخت قوّت اور لوگوں کے لئے ( صنعت سازی کے کئی دیگر ) فوائد ہیں اور ( یہ اس لئے کیا ) تاکہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون اُس کی اور اُس کے رسولوں کی ( یعنی دینِ اسلام کی ) بِن دیکھے مدد کرتا ہے ، بیشک اللہ ( خود ہی ) بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہے
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :45 اس مختصر سے فقرے میں انبیاء علیہم السلام کے مشن کا پورا لب لباب بیان کر دیا گیا ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں خدا کے جتنے رسول بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے وہ سب تین چیزیں لے کر آئے تھے : ( 1 ) بینات ، یعنی کھلی کھلی نشانیاں جو واضح کر رہی تھیں کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، بنے ہوئے لوگ نہیں ہیں ۔ روشن دلائل جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی تھے کہ جس چیز کو وہ حق کہہ رہے ہیں وہ واقعی حق ہے اور جس چیز کو وہ باطل قرار دے رہے ہیں وہ واقعی باطل ہے ۔ واضح ہدایات جن میں کسی اشتباہ کے بغیر صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ عقائد ، اخلاق ، عبادات اور معاملات میں لوگوں کے لیے راہ راست کیا ہے جسے وہ اختیار کریں اور غلط راستے کون سے ہیں جن سے وہ اجتناب کریں ۔ ( 2 ) کتاب ، جس میں وہ ساری تعلیمات لکھ دی گئی تھیں جو انسان کی ہدایت کے لیے درکار تھیں تاکہ لوگ رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کر سکیں ۔ ( 3 ) میزان ، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار ، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہاؤں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے ۔ ان تین چیزوں کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا گیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام ، فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی ، عدل پر قائم ہو ۔ ایک طرف ہر انسان اپنے خدا کے حقوق ، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگان خدا کے حقوق ، جن سے اس کو کسی طور پر سابقہ پیش آتا ہے ، ٹھیک ٹھیک جان لے اور پورے انصاف کے ساتھ ان کو ادا کرے ۔ اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر تعمیر کیا جائے جن سے معاشرے میں کسی نوعیت کا ظلم باقی نہ رہے ، تمدن و تہذیب کا ہر پہلو افراط و تفریط سے محفوظ ہو ، حیات اجتماعی کے تمام شعبوں میں صحیح صحیح توازن قائم ہو ، اور معاشرے کے تمام عناصر انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور اپنے فرائض ادا کریں ۔ بالفاظ دیگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصود عدل انفرادی بھی تھا اور عدل اجتماعی بھی ۔ وہ ایک ایک فرد کی شخصی زندگی میں بھی عدل قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے ذہن ، اس کی سیرت ، اس کے کردار اور اس کے برتاؤ میں توازن پیدا ہو ۔ اور انسانی معاشرے کے پورے نظام کو بھی عدل پر قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی روحانی ، اخلاقی اور مادی فلاح میں مانع و مزاحم ہونے کے بجائے معاون و مدد گار ہوں ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :46 لوہا اتارنے کا مطلب زمین میں لوہا پیدا کرنا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں فرمایا وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاجٍ ( الزمر ، 6 ) ۔ اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی قسم کے آٹھ نر و مادہ اتارے ۔ چونکہ زمیں میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں آیا ہے ، خود بخود نہیں بن گیا ہے ، اس لیے ان کے پیدا کیے جانے کو قرآن مجید میں نازل کیے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لیے منافع ہیں ، خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے ، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کر دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے ، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جا سکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جا سکے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :47 یعنی اللہ کو اس مدد کی ضرورت کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ کمزور ہے ، اپنی طاقت سے یہ کام نہیں کر سکتا ۔ بلکہ یہ طریق کار اس نے انسانوں کی آزمائش کے لیے اختیار فرمایا ہے اور اسی آزمائش سے گزر کر انسان اپنی ترقی اور فلاح کی راہ پر آگے بڑھ سکتا ہے ۔ اللہ تو ہر وقت یہ قدرت رکھتا ہے کہ جب چاہے اپنے ایک اشارے سے تمام کافروں کو مغلوب کر دے اور اپنے رسولوں کو ان پر غلبہ و تسلط عطا فرما دے ۔ مگر اس میں پھر رسولوں پر ایمان لانے والوں کا کیا کمال ہو گا جس کی بنا پر وہ کسی انعام کے مستحق ہوں ؟ اسی لیے اللہ نے اس کام کو اپنی غالب قدرت سے انجام دینے کے بجائے طریق کار یہ اختیار فرمایا کہ اپنے رسولوں کو بینات اور کتاب اور میزان دے کر انسانوں کے درمیان مبعوث کر دیا ۔ ان کو اس بات پر مامور فرمایا کہ لوگوں کے سامنے عدل کا راستہ پیش کریں اور ظلم و جور اور بے انصافی سے باز آ جانے کی ان کو دعوت دیں ۔ انسانوں کو اس امر کا پورا اختیار دے دیا کہ ان میں سے جو چاہے رسولوں کی دعوت قبول کرے اور جو چاہے اسے رد کر دے ۔ قبول کرنے والوں کو پکارا کہ آؤ ، اس عدل کے نظام کو قائم کرنے میں میرا اور میرے رسولوں کا ساتھ دو اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جان توڑ جدو جہد کرو جو ظلم و جور کے نظام کو باقی رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون ہیں جو انصاف کی بات کو رد کرتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کے مقابلے میں بے انصافی قائم رکھنے کے لیے اپنی جان لڑاتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کی بات قبول کر لینے کے بعد اس کی حمایت اور اس کی خاطر جد و جہد کرنے سے جی چراتے ہیں ، اور کون ہیں جو ان دیکھے خدا کی خاطر دنیا میں اس حق کو غالب کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ اس امتحان سے جو لوگ کامیاب ہو کر نکلیں گے انہی کے لیے آئندہ ترقیوں کے دروازے کھلیں گے ۔
لوہے کے فوائد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبروں کو ظاہر حجتیں اور بھرپور دلائل دے کر دنیا میں مبعوث فرمایا ، پھر ساتھ ہی انہیں کتاب بھی دی جو کھری اور صاف سچی ہے اور عدل و حق دیا جس سے ہر عقل مند انسان ان کی باتوں کے قبول کر لینے پر فطرتاً مجبور ہو جاتا ہے ، ہاں بیمار رائے والے اور خلاف عقل والے اس سے محروم رہ جاتے ہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً 17؀ ) 11-ھود:17 ) جو شخص اپنے رب کی طرف دلیل پر ہو اور ساتھ ہی اس کے شاہد بھی ہو ۔ ایک اور جگہ ہے اللہ کی یہ فطرت ہے جس پر مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے اور فرماتا ہے آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان رکھ دی ، پس یہاں فرمان ہے یہ اس لئے کہ لوگ حق و عدل پر قائم ہو جائیں ، یعنی اتباع رسول کرنے لگیں امر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بجا لائیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تمام باتوں کو حق سمجھیں کیونکہ اس کے سوا حق کسی اور کا کلام نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥؁ ) 6- الانعام:115 ) تیرے رب کا کلمہ جو اپنی خبروں میں سچا اور اپنے احکام میں عدل والا ہے پورا ہو چکا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایمان دار جنتوں میں پہنچ جائیں گے اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہو جائیں گے تو کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں ہدایت دی اگر اس کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم اس راہ نہیں لگ سکتے تھے ہمارے رب کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس حق لائے تھے ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے منکرین حق کی سرکوبی کے لئے لوہا بنایا ہے ، یعنی اولاً تو کتاب و رسول اور حق سے حجت قائم کی پھر ٹیڑھے دل والوں کی کجی نکالنے کے لئے لوہے کو پیدا کر دیا تاکہ اس کے ہتھیار بنیں اور اللہ دوست حضرات اللہ کے دشمنوں کے دل کا کانٹا نکال دیں ، یہی نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بالکل عیاں نظر آتا ہے کہ مکہ شریف کے تیرہ سال مشرکین کو سمجھانے ، توحید و سنت کی دعوت دینے ، ان کے عقائد کی اصلاح کرنے میں گذارے ۔ خود اپنے اوپر مصیبتیں جھیلیں لیکن جب یہ حجت ختم ہو گئی تو شرع نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دی ، پھر حکم دیا کہ اب ان مخالفین سے جنہوں نے اسلام کی اشاعت کو روک رکھا ہے مسلمانوں کو تنگ کر رکھا ہے ان کی زندگی دو بھر کر دی ہے ان سے باقاعدہ جنگ کرو ، ان کی گردنیں مارو اور ان مخالفین وحی الٰہی سے زمین کو پاک کرو ۔ مسند احمد اور ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں قیامت کے آگے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں یہاں تک کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی ہی عبادت کی جائے اور میرا رزق میرے نیزے کے سایہ تلے رکھا گیا ہے اور کمینہ پن اور ذلت ان لوگوں پر ہے جو میرے حکم کی مخالفت کریں اور جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ پس لوہے سے لڑائی کے ہتھیار بنتے ہیں جیسے تلوار نیزے چھریاں تیز زرہیں وغیرہ اور لوگوں کے لئے اس کے علاوہ بھی بہت سے فائدے ہیں ۔ جیسے سکے ، کدال ، پھاوڑے ، آرے ، کھیتی کے آلات ، بننے کے آلات ، پکانے کے برتن ، توے وغیرہ وغیرہ اور بھی بہت سی ایسی ہی چیزیں جو انسانی زندگی کی ضروریات سے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں تین چیزیں حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت سے آئیں نہائی ، سنی اور ہتھوڑا ( ابن جریر ) پھر فرمایا تا کہ اللہ جان لے کہ ان ہتھیاروں کے اٹھانے سے اللہ رسول کی مدد کرنے کا نیک ارادہ کس کا ہے؟ اللہ قوت و غلبہ والا ہے ، اس کے دین کی جو مدد کرے وہ اس کی مدد کرتا ہے ، دراصل اپنے دین کو وہی قوی کرتا ہے اس نے جہاد تو صرف اپنے بندوں کی آزمائش کے لئے مقرر فرمایا ہے ورنہ غلبہ و نصرت تو اسی کی طرف سے ہے ۔