Surah

Information

Surah # 58 | Verses: 22 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 105 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
قَدۡ سَمِعَ اللّٰهُ قَوۡلَ الَّتِىۡ تُجَادِلُكَ فِىۡ زَوۡجِهَا وَ تَشۡتَكِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ ‌ۖ وَاللّٰهُ يَسۡمَعُ تَحَاوُرَكُمَا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ ۢ بَصِيۡرٌ‏ ﴿1﴾
یقیناً اللہ تعالٰی نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی ، اللہ تعالٰی تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا بیشک اللہ تعالٰی سننے دیکھنے والا ہے ۔
قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها و تشتكي الى الله و الله يسمع تحاوركما ان الله سميع بصير
Certainly has Allah heard the speech of the one who argues with you, [O Muhammad], concerning her husband and directs her complaint to Allah . And Allah hears your dialogue; indeed, Allah is Hearing and Seeing.
Yaqeenan Allah Taalaa ney uss aurat ki baat suni jo tujh say apney shoher kay baray mein takraar ker rahi thi aur Allah kay aagay shikayat ker rahi thi Allah Taalaa tum dono kay sawal-o-jawab sunn raha tha be-shak Allah Taalaa sunnay dekhney wala hai.
۔ ( اے پیغمبر ) اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کر رہی ہے ، اور اللہ سے فریاد کرتی جاتی ہے ۔ ( ١ ) اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے ۔ یقینا اللہ سب کچھ سننے دیکھنے والا ہے ۔
بیشک اللہ نے سنی اس کی بات جو تم سے اپنے شوہر کے معاملہ میں بحث کرتی ہے ( ف۲ ) اور اللہ سے شکایت کرتی ہے ، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے ، بیشک اللہ سنتا دیکھتا ہے ،
اللہ نے سن لی 1 اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے ۔ اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے ۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے 2 ۔ وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے ۔
بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ سے فریاد کر رہی تھی ، اور اللہ آپ دونوں کے باہمی سوال و جواب سن رہا تھا ، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :1 یہاں سننے سے محض سن لینا نہیں ہے بلکہ فریاد رسی کرنا ہے ، جیسے ہم اردو زبان میں کہتے ہیں اللہ نے دعا سن لی اور اس سے مراد دعا قبول کر لینا ہوتا ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :2 عام طور پر مترجمین نے اس مقام پر مجادلہ کر رہی تھی ، فریاد کر رہی تھی ، اور اللہ سن رہا تھا ترجمہ کیا ہے جس سے پڑھنے والے کا ذہن یہ مفہوم اخذ کرتا ہے کہ وہ خاتون اپنی شکایت سنا کر چلی گئی ہوں گی اور بعد میں کسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی ہو گی ، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس عورت کی بات ہم نے سن لی جو تم سے تکرار اور ہم سے فریاد کر رہی تھی ، اور ہم اس وقت تم دونوں کی بات سن رہے تھے ۔ لیکن اس واقعہ کے متعلق جو روایات احادیث میں آئی ہیں ان میں سے اکثر میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت وہ خاتون اپنے شوہر کے ظہار کا قصہ سنا سنا کر بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر رہی تھیں کہ اگر ہم دونوں کی جدائی ہو گئی تو میں مصیبت میں پڑ جاؤں گی اور میرے بچے تباہ ہو جائیں گے ، عین اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں ۔ اس بنا پر ہم نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ترجمہ حال کے صیغوں میں کیا جائے ۔ یہ خاتون جن کے معاملہ میں آیات نازل ہوئی ہیں قبیلہ خَزرَج کی خَولہ بنت ثعلبہ تھیں ، اور ان کے شوہر اَوْس بن صامِت انصاری ، قبیلہ اَوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامِت کے بھائی تھے ۔ ان کے ظہار کا قصہ آگے چل کر ہم تفصیل کے ساتھ نقل کریں گے ۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان صحابیہ کی فریاد کا بار گاہ الٰہی میں مسموع ہونا اور فوراً ہی وہاں سے ان کی فریاد رسی کے لیے فرمان مبارک نازل ہو جانا ایک ایسا واقعہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ کرام میں ان کو ایک خاص قدر و منزلت حاصل ہو گئی تھی ۔ ابن ابی حاتم و بیہقی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے ۔ راستہ میں ایک عورت ملی اور اس نے ان کو روکا ۔ آپ فوراً رک گئے ۔ سر جھکا کر دیر تک اس کی بات سنتے رہے اور جب تک اس نے بات ختم نہ کر لی آپ کھڑے رہے ۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا امیر المومنین ، آپ نے قریش کے سرداروں کو اس بڑھیا کے لیے اتنی دیر روکے رکھا ۔ فرمایا جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہے ۔ یہ وہ عورت ہے جس کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ۔ خدا کی قسم ، اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتی تو میں کھڑا رہتا ، بس نمازوں کے اوقات پر اس سے معذرت کر دیتا ۔ ابن عبدالبر نے اِستعیاب میں قتادہ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ خاتون راستہ میں حضرت عمر کو ملیں تو آپ نے ان کو سلام کیا ۔ یہ سلام کا جواب دینے کے بعد کہنے لگیں اوہو ، اے عمر ایک وقت تھا جب میں نے تم کو بازار عکاظ میں دیکھا تھا ۔ اس وقت تم عمیر کہلاتے تھے ۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے ۔ پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ تم عمر کہلانے لگے ۔ پھر ایک وقت آیا تم امیر المومنین کہے جانے لگے ۔ ذرا رعیت کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے اس کے لیے دور کا آدمی بھی قریبی رشتہ دار کی طرح ہوتا ہے ، اور جو موت سے ڈرتا ہے اس کے حق میں اندیشہ ہے کہ وہ اسی چیز کو کھودے گا جسے بچانا چاہتا ہے ۔ اس پر جارود عَبْدِی ، جو حضرت عمر کے ساتھ تھے ، بولے ، اے عورت ، تو نے امیر المومنین کے ساتھ بہت زبان درازی کی ۔ حضرت عمر نے فرمایا ، انہیں کہنے دو ، جانتے بھی ہو یہ کون ہیں؟ ان کی بات تو سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی تھی ، عمر کو تو بدرجۂ اولیٰ سننی چاہیے ۔ امام بخاری نے بھی اپنی تاریخ میں اختصار کے ساتھ اس سے ملتا جلتا قصہ نقل کیا ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات حمد و ثناء کے لائق ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیر رکھا ہے ، یہ شکایت کرنے والی خاتون آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کر رہی تھیں کہ باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میں مطلقاً نہ سن سکی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس پوشیدہ آواز کو بھی سن لیا اور یہ آیت اتری ( بخاری و مسند وغیرہ ) اور روایت میں آپ کا یہ فرمان اس طرح منقول ہے کہ بابرکت ہے وہ الہ جو ہر اونچی نیچی آواز کو سنتا ہے ، یہ شکایت کرنے والی بی بی صاحبہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اس طرح سرگوشیاں کر رہی تھیں کہ کوئی لفظ تو کان تک پہنچ جاتا تھا ورنہ اکثر باتیں باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میرے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں ۔ اپنے میاں کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جوانی تو ان کے ساتھ کٹی بچے ان سے ہوئے اب جبکہ میں بڑھیا ہوگئی بچے پیدا کرنے کے قابل نہ رہی تو میرے میاں نے مجھ سے ظہار کرلیا ، اے اللہ میں تیرے سامنے اپنے اس دکھڑے کا رونا روتی ہوں ، ابھی یہ بی بی صاحبہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لے کر اترے ، ان کے خاوند کا نام حضرت اوس بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا ( ابن ابی حاتم ) انہیں بھی کچھ جنون سا ہو جاتا تھا اس حالت میں اپنی بیوی صاحبہ سے ظہار کرلیتے پھر جب اچھے ہو جاتے تو گویا کچھ کہا ہی نہ تھا ، یہ بی بی صاحبہ حضور سے فتویٰ پوچھنے اور اللہ کے سامنے اپنی التجا بیان کرنے کو آئیں جس پر یہ آیت اتری ۔ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں اور لوگوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ ایک عورت نے آواز دے کر ٹھہرالیا ، حضرت عمر فوراً ٹھہر گئے اور ان کے پاس جاکر توجہ اور ادب سے سر جھکائے ان کی باتیں سننے لگے ، جب وہ اپنی فرمائش کی تعمیل کراچکیں اور خود لوٹ گئیں تب امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی واپس ہمارے پاس آئے ، ایک شخص نے کہا امیرالمومنین ایک بڑھیا کے کہنے سے آپ رک گئے اور اتنے آدمیوں کو آپ کی وجہ سے اب تک رکنا پڑا ، آپ نے فرمایا افسوس جانتے بھی ہو یہ کون تھیں؟ اس نے کہا نہیں ، فرمایا یہ وہ عورت ہیں جن کی شکایت اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر سنی یہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ ہیں اگر یہ آج صبح سے شام چھوڑ رات کردیتیں اور مجھ سے کچھ فرماتی رہتیں تو بھی میں ان کی خدمت سے نہ ٹلتا ہاں نماز کے وقت نماز ادا کرلیتا اور پھر کمربستہ خدمت کیلئے حاضر ہو جاتا ( ابن ابی حاتم ) اس کی سند منقطع ہے اور دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ، ایک روایت میں ہے کہ یہ خولہ بن صامت تھیں اور ان کی والدہ کا نام معاذہ تھا جن کے بارے میں آیت ( وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا 33؀ ) 24- النور:33 ) ہوئی تھی ، لیکن ٹھیک بات یہ ہے کہ حضرت خولہ اوس بن صامت کی بیوی تھیں ، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو ۔