Surah

Information

Surah # 58 | Verses: 22 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 105 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلَّذِيۡنَ يُظٰهِرُوۡنَ مِنۡكُمۡ مِّنۡ نِّسَآٮِٕهِمۡ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمۡ‌ؕ اِنۡ اُمَّهٰتُهُمۡ اِلَّا الّٰٓـىِٔۡ وَلَدۡنَهُمۡ‌ؕ وَاِنَّهُمۡ لَيَقُوۡلُوۡنَ مُنۡكَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَزُوۡرًا‌ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ‏ ﴿2﴾
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ( یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں ) وہ دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے ، یقینًا یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں بے شک اللہ تعا لٰی معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔
الذين يظهرون منكم من نساىهم ما هن امهتهم ان امهتهم الا الي ولدنهم و انهم ليقولون منكرا من القول و زورا و ان الله لعفو غفور
Those who pronounce thihar among you [to separate] from their wives - they are not [consequently] their mothers. Their mothers are none but those who gave birth to them. And indeed, they are saying an objectionable statement and a falsehood. But indeed, Allah is Pardoning and Forgiving.
Tum mein say jo log apni biwiyon say zahaar kertay hain ( yani unhen maa keh bethtay hain ) woh dar asal unn ki maayen nahi bann jatin unn ki maayen to wohi hain jin kay batan say woh peda huye yaqeenan yeh log aik na maqool aur jhooti baat kehtay hain be-shak Allah Taalaa moaf kerney wala aur bakshney wala hai.
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ( ان کے اس عمل سے ) وہ بیویاں ان کی مائیں نہیں ہوجاتیں ۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جو بہت بری ہے ، اور جھوٹ ہے ۔ ( ٢ ) اور اللہ بہت معاف کرنے والا ، بہت بخشنے والا ہے ۔
وہ جو تم میں اپنی بیبیوں کو اپنی ماں کی جگہ کہہ بیٹھتے ہیں ( ف۳ ) وہ ان کی مائیں نہیں ( ف٤ ) ان کی مائیں تو وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہیں ( ف۵ ) اور وہ بیشک بری اور نری جھوٹ بات کہتے ہیں ( ف٦ ) اور بیشک اللہ ضرور معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ،
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں 3 ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے 4 ۔ یہ لوگ ایک سخت ، ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں 5 ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے 6 ۔
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کر بیٹھتے ہیں ( یعنی یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ تم مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہو ) ، تو ( یہ کہنے سے ) وہ اُن کی مائیں نہیں ( ہوجاتیں ) ، اُن کی مائیں تو صرف وہی ہیں جنہوں نے اُن کو جَنا ہے ، اور بیشک وہ لوگ بری اور جھوٹی بات کہتے ہیں ، اور بیشک اﷲ ضرور درگزر فرمانے والا بڑا بخشنے والا ہے
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :3 عرب میں بسا اوقات یہ صورت پیش آتی تھی کہ شوہر اور بیوی میں لڑائی ہوتی تو شوہر غصے میں آ کر کہتا اَنتِ عَلَیّ کَظَہرِ اُمیّ ۔ اس کے لغوی معنی تو یہ ہیں کہ تو میرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ ، لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ تجھ سے مباشرت کرنا میرے لیے ایسا ہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں ۔ اس زمانے میں بھی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اس کو ماں ، بہن ، بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی گویا اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لیے حرام ہیں ۔ اسی فعل کا نام ظِہار ہے ۔ ظَہر عربی زبان میں استعارے کے طور پر سواری کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مثلاً سواری کے جانور کو ظَہر کہتے ہیں ، کیونکہ اس کی پیٹھ پر آدمی سوار ہوتا ہے چونکہ وہ لوگ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کہتے تھے کہ تجھے ظَہر بنانا میرے اوپر ایسا حرام ہے جیسے اپنی ماں کو ظہر بنانا ، اس لیے یہ کلمات زبان سے نکالنا ان کی اصطلاح میں ظِہار کہلاتا تھا ۔ جاہلیت کے زمانہ میں اہل عرب کے ہاں یہ طلاق ، بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید قطع تعلق کا اعلان سمجھا جاتا تھا ، کیونکہ ان کے نزدیک اس کے معنی یہ تھے کہ شوہر اپنی بیوی سے نہ صرف ازدواجی رشتہ توڑ رہا ہے بلکہ اسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے ۔ اسی بناء پر اہل عرب کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجائش ہو سکتی تھی ، مگر ظِہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :4 یہ ظہار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پہلا فیصلہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اس کے ایسا کہنے سے بیوی ماں نہیں ہو سکتی ، نہ اس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے ۔ ماں کا ماں ہونا تو ایک حقیقی امر واقعہ ہے ، کیونکہ اس نے آدمی کو جنا ہے ۔ اسی بناء پر اسے ابدی حرمت حاصل ہے ۔ اب آخر وہ عورت جس نے اس کو نہیں جنا ہے ، محض منہ سے کہہ دینے پر اس کی ماں کیسے ہو جائے گی ، اور اس کے بارے میں عقل اخلاق ، قانون ، کسی چیز کے اعتبار سے بھی وہ حرمت کیسے ثابت ہو گی جو اس امر واقعی کی بنا پر جننے والی ماں کے لیے ہے ۔ اس طرح یہ بات ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس قانون کو منسوخ کر دیا جس کی رو سے ظہار کرنے والے شوہر سے اس کی بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا تھا اور وہ اس کے لیے ماں کی طرح قطعی حرام سمجھ لی جاتی تھی ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :5 یعنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دینا اول تو ایک نہایت ہی بیہودہ اور شرمناک بات ہے جس کا تصور بھی کسی شریف آدمی کو نہ کرناچاہئے ، کجا کہ وہ اسے زبان سے نکالے ۔ دوسرے یہ جھوٹ بھی ہے ۔ کیونکہ ایسی بات کہنے والا اگر یہ خبر دے رہا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے ماں ہو گئی ہے تو جھوٹی خبر دے رہا ہے ۔ اور اگر وہ اپنا یہ فیصلہ سنا رہا ہے کہ آج سے اس نے اپنی بیوی کو ماں کی سی حرمت بخش دی ہے تو بھی اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے ، کیونکہ خدا نے اسے یہ اختیارات نہیں دیئے ہیں کہ جب تک چاہے ایک عورت کو بیوی کے حکم میں رکھے ، اور جب چاہے اسے ماں کے حکم میں کر دے ۔ شارع وہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے جننے والی ماں کے ساتھ مادری کے حکم میں دادی ، نانی ، ساس ، دودھ پلانے والی عورت اور اَزواجِ نبی کو شامل کیا ہے ۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس حکم میں اپنی طرف سے کسی اور عورت کو داخل کر دے ، کجا کہ عورت کو جو اسکی بیوی رہ چکی ہے ۔ اس ارشاد سے یہ دوسرا قانونی حکم نکلا کہ ظِہار کرنا ایک بڑا گناہ اور حرام فعل ہے جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :6 یعنی یہ حرکت تو ایسی ہے کہ اس پر آدمی کو بہت ہی سخت سزا ملنی چاہیے ، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے اول تو ظہار کے معاملہ میں جاہلیت کے قانون کو منسوخ کر کے تمہاری خانگی زندگی کو تباہی سے بچا لیا ، دوسرے اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے وہ سزا تجویز کی جو اس جرم کی ہلکی سے ہلکی سزا ہو سکتی تھی ، اور سب سے بڑی مہربانی یہ ہے کہ سزا کسی ضرب یا قید کی شکل میں نہیں بلکہ چند ایسی عبادات اور نیکیوں کی شکل میں تجویز کی جو تمہارے نفس کی اصلاح کرنے والی اور تمہارے معاشرے میں بھلائی پھیلانے والی ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام میں بعض جرائم اور گناہوں پر جو عبادات بطور کفارہ مقرر کی گئی ہیں وہ نہ محض سزا ہیں کہ عبادت کی روح سے خالی ہوں اور نہ محض عبادت ہیں کہ سزا کی اذیت کا کوئی پہلو ان میں نہ ہو ، بلکہ ان میں یہ دونوں پہلو جمع کر دیے گئے ہیں ، تاکہ آدمی کو اذیت بھی ہو اور ساتھ ساتھ وہ ایک نیکی اور عبادت کر کے اپنے گناہ کی تلافی بھی کر دے ۔
خولہ اور خویلہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا اور مسئلہ ظہار حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میرے اور میرے خاوند اوس بن صامت کے بارے میں اس سورۃ مجادلہ کی شروع کی چار آیتیں اتری ہیں ، میں ان کے گھر میں تھی یہ بوڑھے اور بڑی عمر کے تھے اور کچھ اخلاق کے بھی اچھے نہ تھے ، ایک دن باتوں ہی باتوں میں میں نے ان کی کسی بات کے خلاف کہا اور انہیں کچھ جواب دیا ، جس پر وہ بڑے غضب ناک ہوئے اور غصے میں فرمانے لگے تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے پھر گھر سے چلے گئے اور قومی مجلس میں کچھ دیر بیٹھے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے خاص بات چیت کرنی چاہی ، میں نے کہا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے تمہارے اس کہنے کے بعد اب یہ بات ناممکن ہے یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہمارے بارے میں نہ ہو ، لیکن وہ نہ مانے اور زبردستی کرنے لگے مگر چونکہ کمزور اور ضعیف تھے میں ان پر غالب آگئی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے ، میں اپنی پڑوسن کے ہاں گئی اور اس سے کپڑا مانگ کر اوڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی ، اس واقعہ کو بیان کیا اور بھی اپنی مصیبتیں اور تکلیفیں بیان کرنی شروع کردیں ، آپ یہی فرماتے جاتے تھے خولہ اپنے خاوند کے بارے میں اللہ سے ڈرو وہ بوڑھے بڑے ہیں ، ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی ، جب وحی اترچکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خولہ تیرے اور تیرے خاوند کے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئی ہیں ، پھر آپ نے آیت ( قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ڰ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا Ǻ۝ ) 58- المجادلة:1 ) تک پڑھ سنایا اور فرمایا جاؤ اپنے میاں سے کہو کہ ایک غلام آزاد کریں ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس غلام کہاں؟ وہ تو بہت مسکین شخص ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تو دو مہینے کے لگاتار روزے رکھ لیں ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو بڑی عمر کے بوڑھے ناتواں کمزور ہیں انہیں دو ماہ کے روزوں کی بھی طاقت نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق ( تقریباً چار من پختہ ) کھجوریں دے دیں ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مسکین کے پاس یہ بھی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا آدھا وسق کھجوریں میں اپنے پاس سے انہیں دیدوں گا میں نے کہا بہتر آدھا وسق میں دیدوں گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم نے بہت اچھا کیا اور خوب کام کیا ، جاؤ یہ ادا کردو اور اپنے خاوند کے ساتھ جو تمہارے چچا کے لڑکے ہیں محبت ، پیار ، خیر خواہی اور فرمانبرداری سے گزارا کرو ( مسند احمد و ابو داؤد ) ۔ ان کا نام بعض روایتوں میں خولہ کے بجائے خولہ بھی آیا ہے اور بنت ثعلبہ کے بدلے بنت مالک بن ثعلبہ بھی آیا ہے ، ان اقوال میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو ، واللہ اعلم ۔ اس سورت کی ان شروع کی آیتوں کا صحیح شان نزول یہی ہے ۔ حضرت سلمہ بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ جو اب آ رہا ہے وہ اس کے اترنے کا باعث نہیں ہوا ہاں البتہ جو حکم ظہار ان آیتوں میں تھا انہیں بھی دیا گیا یعنی غلام آزاد کرنا یا روزے رکھنا یا کھانا دینا ، حضرت سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ خود ان کی زبانی یہ ہے کہ مجھے جماع کی طاقت اوروں سے بہت زیادہ تھی ، رمضان میں اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو دن میں روزے کے وقت میں بچ نہ سکوں میں نے رمضان بھر کیلئے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا ، ایک رات جبکہ وہ میری خدمت میں مصروف تھی بدن کے کسی حصہ پر سے کپڑا ہٹ گیا پھر تاب کہاں تھی؟ اس سے بات چیت کر بیٹھا صبح اپنی قوم کے پاس آکر میں نے کہا رات ایسا واقعہ ہوگیا ہے تم مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو اور آپ سے پوچھو کہ اس گناہ کا بدلہ کیا ہے؟ سب نے انکار کیا اور کہا کہ ہم تو تیرے ساتھ نہیں جائیں گے ایسا نہ ہو کہ قرآن کریم میں اس کی بابت کوئی آیت اترے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسی بات فرما دیں کہ ہمیشہ کیلئے ہم پر عار باقی رہ جائے ، تو جانے تیرا کام ، تونے ایسا کیوں کیا ؟ ہم تیرے ساتھی نہیں ، میں نے کہا اچھا پھر میں اکیلا جاتا ہوں ۔ چنانچہ میں گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام واقعہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایسا کیا ؟ میں نے کہا جی ہاں حضور مجھ سے ایسا ہوگیا ۔ آپ نے پھر فرمایا تم نے ایسا کیا ؟ میں نے پھر یہی عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے یہ خطا ہوگئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ بھی یہی فرمایا میں نے پھر اقرار کیا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوں جو سزا میرے لئے تجویز کی جائے میں اسے صبر سے برداشت کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیجئے ، آپ نے فرمایا جاؤ ایک غلام آزاد کرو ، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو صرف اس کا مالک ہوں اللہ کی قسم مجھے غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دو مہینے کے پے درپے روزے رکھو ، میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزوں ہی کی وجہ سے تو یہ ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر جاؤ صدقہ کرو میں نے کہا اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس کچھ نہیں بلکہ آج کی شب سب گھر والوں نے فاقہ کیا ہے ، پھر فرمایا اچھا بنو رزیق کے قبیلے کے صدقے والے کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ صدقے کا مال تمہیں دیدیں تم اس میں سے ایک وسق کھجور تو ساٹھ مسکینوں کو دیدو اور باقی تم آپ اپنے اور اپنے بال بچوں کے کام میں لاؤ ، میں خوش خوش لوٹا اور اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ تمہارے پاس تو میں نے تنگی اور برائی پائی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میں نے کشادگی اور برکت پائی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ اپنے صدقے تم مجھے دیدو چنانچہ انہوں نے مجھے دے دیئے ( مسند احمد ابو داؤد وغیرہ ) بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت اوس بن صامت اور ان کی بیوی صاحبہ حضرت خویلہ بنت ثعلبہ کے واقعہ کے بعد کا ہے ، چنانچہ حضرت ابن عباس کا فرمان ہے کہ ظہار کا پہلا واقعہ حضرت اوس بن صامت کا ہے جو حضرت عبادہ بن صامت کے بھائی تھے ، ان کی بیوی صاحبہ کا نام خولہ بنت ثعلبہ بن مالک رضی الہ تعالیٰ عنہا تھا ، اس واقعہ سے حضرت خولہ کو ڈر تھا کہ شاید طلاق ہوگئی ، انہوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے میاں نے مجھ سے ظہار کرلیا ہے اور اگر ہم علیحدہ علیحدہ ہوگئے تو دونوں برباد ہو جائیں گے میں اب اس لائق بھی نہیں رہی کہ مجھے اولاد ہو ہمارے اس تعلق کو بھی زمانہ گزر چکا اور بھی اسی طرح کی باتیں کہتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں ، اب تک ظہار کا کوئی حکم اسلام میں نہ تھا اس پر یہ آیتیں شروع سورت سے الیم تک اتریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اوس کو بلوایا اور پوچھا کہ کیا تم غلام آزاد کرسکتے ہو؟ انہوں نے قسم کھاکر انکار کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے رقم جمع کی انہوں نے اس سے غلام خرید کر آزاد کیا اور اپنی بیوی صاحبہ سے رجوع کیا ( ابن جریر ) حضرت ابن عباس کے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگوں کا یہ فرمان ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، واللہ اعلم ۔ لفظ ظہار ظہر سے مشٹق ہے چونکہ اہل جاہلیت اپنی بیوی سے ظہار کرتے وقت یوں کہتے تھے کہ انت علی کظھر امی یعنی تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ ، شریعت میں حکم یہ ہے کہ اس طرح خواہ کسی عضو کا نام لے ظہار ہو جائے گا ، ظہار جاہلیت کے زمانے میں طلاق سمجھا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس امت کیلئے اس میں کفارہ مقرر کردیا اور اسے طلاق شمار نہیں کیا جیسے کہ جاہلیت کا دستور تھا ۔ سلف میں سے اکثر حضرات نے یہی فرمایا ہے ، حضرت ابن عباس جاہلیت کے اس دستور کا ذکر کرکے فرماتے ہیں اسلام میں جب حضرت خویلہ والا واقعہ پیش آیا اور دونوں میاں بیوی پچھتانے لگے تو حضرت اوس نے اپنی بیوی صاحبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا یہ جب آئیں تو دیکھا کہ آپ کنگھی کر رہے ہیں ، آپ نے واقعہ سن کر فرمایا ہمارے پاس اس کا کوئی حکم نہیں اتنے میں یہ آیتیں اتریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خویلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس کی خوشخبری دی اور پڑھ سنائیں ، جب غلام کو آزاد کرنے کا ذکر کیا تو عذر کیا کہ ہمارے پاس غلام نہیں ، پھر روزوں کا ذکر سن کر کہا اگر ہر روز تین مرتبہ پانی نہ پئیں تو بوجہ اپنے بڑھاپے کے فوت ہو جائیں ، جب کھانا کھلانے کا ذکر سنا تو کہا چند لقموں پر تو سارا دن گزرتا ہے تو اوروں کو دینا کہاں؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھا وسق تیس صاع منگواکر انہیں دیئے اور فرمایا اسے صدقہ کردو اور اپنی بیوی سے رجوع کرلو ( ابن جریر ) اس کی اسناد قوی اور پختہ ہے ، لیکن ادائیگی غربت سے خالی نہیں ۔ حضرت ابو العالیہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ، فرماتے ہیں خولہ بنت دلیج ایک انصاری کی بیوی تھیں جو کم نگاہ والے مفلس اور کج خلق تھے ، کسی دن کسی بات پر میاں بیوی میں جھگڑا ہوگیا تو جاہلیت کی رسم کے مطابق ظہار کرلیا جو ان کی طلاق تھی ۔ یہ بیوی صاحبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اس وقت آپ عائشہ کے گھر میں تھے اور ام المومنین آپ کا سر دھو رہی تھیں ، جاکر سارا واقعہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب کیا ہوسکتا ہے ، میرے علم میں تو تو اس پر حرام ہوگئی یہ سن کر کہنے لگیں اللہ میری عرض تجھ سے ہے ، اب حضرت عائشہ آپ کے سرمبارک کا ایک طرف کا حصہ دھو کر گھوم کر دوسری جانب آئیں اور ادھر کا حصہ دھونے لگیں تو حضرت خولہ بھی گھوم کر اس دوسری طرف آ بیٹھیں اور اپنا واقعہ دوہرایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا ، ام المومنین نے دیکھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا ہے تو ان سے کہا کہ دور ہٹ کر بیٹھو ، یہ دور کھسک گئیں ادھر وحی نازل ہونی شروع ہوئی جب اتر چکی تو آپ نے فرمایا وہ عورت کہاں ہے؟ ام المومنین نے انہیں آواز دے کر بلایا ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اپنے خاوند کو لے آؤ ، یہ دوڑتی ہوئی گئیں اور اپنے شوہر کو بلا لائیں تو واقعی وہ ایسے ہی تھے جیسے انہوں نے کہا تھا ، آپ نے استعیذ باللہ السمیع العلیم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اس سورت کی یہ آیتیں سنائیں ، اور فرمایا تم غلام آزاد کرسکتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ، کہا دو مہینے کے لگاتار ایک کے پیچھے ایک روزے رکھ سکتے ہو؟ انہوں نے قسم کھاکر کہا کہ اگر دو تین دفعہ دن میں نہ کھاؤں تو بینائی بالکل جاتی رہتی ہے ، فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے سکتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں لیکن اگر آپ میری امداد فرمائیں تو اور بات ہے ، پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اعانت کی اور فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھلادو اور جاہلیت کی اس رسم طلاق کو ہٹا کر اللہ تعالیٰ نے اسے ظہار مقرر فرمایا ( ابن ابی حاتم و ابن جریر ) حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایلا اور ظہار جاہلیت کے زمانہ کی طلاقیں تھیں ، اللہ تعالیٰ نے ایلا میں تو چار مہینے کی مدت مقرر فرمائی اور ظہار میں کفارہ مقرر فرمایا ۔ حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے لفظ منکم سے استدلال کیا ہے کہ چونکہ یہاں خطاب مومنوں سے ہے اسلئے اس حکم میں کافر داخل نہیں ، جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ بہ اعتبار غلبہ کے کہہ دیا گیا ہے اس لئے بطور قید کے اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں لے سکتے ، لفظ من نسائھم سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے ظہار نہیں نہ وہ اس خطاب میں داخل ہے ۔ پھر فرماتا ہے اس کہنے سے کہ تو مجھ پر میری ماں کی طرح ہے یا میرے لئے تو مثل میری ماں کے ہے یا مثل میری ماں کی پیٹھ کے ہے یا اور ایسے ہی الفاظ اپنی بیوی کو کہہ دینے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتی ، حقیقی ماں تو وہی ہے جس کے بطن سے یہ تولد ہوا ہے ، یہ لوگ اپنے منہ سے فحش اور باطل قول بول دیتے ہیں اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشش دینے والا ہے ۔ اس نے جاہلیت کی اس تنگی کو تم سے دور کردیا ، اسی طرح ہر وہ کلام جو ایک دم زبان سے بغیر سوچے سمجھے اور بلا قصد نکل جائے ۔ چنانچہ ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے اے میری بہن تو آپ نے فرمایا یہ تیری بہن ہے؟ غرض یہ کہنا برا لگا اسے روکا مگر اس سے حرمت ثابت نہیں کی کیونکہ دراصل اس کا مقصود یہ نہ تھا یونہی زبان سے بغیر قصد کے نکل گیا تھا ورنہ ضرور حرمت ثابت ہو جاتی ، کیونکہ صحیح قول یہی ہے کہ اپنی بیوی کو جو شخض اس نام سے یاد کرے جو محرمات ابدیہ ہیں مثلاً بہن یا پھوپھی یا خالہ وغیرہ تو وہ بھی حکم میں ماں کہنے کے ہیں ۔ جو لوگ ظہار کریں پھر اپنے کہنے سے لوٹیں اس کا مطلب ایک تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ظہار کیا پھر مکرر اس لفظ کو کہا لیکن یہ ٹھیک نہیں ، بقول حضرت امام شافعی مطلب یہ ہے کہ ظہار کیا پھر اس عورت کو روک رکھا یہاں تک کہ اتنا زمانہ گزر گیا کہ اگر چاہتا تو اس میں باقاعدہ طلاق دے سکتا تھا لیکن طلاق نہ دی ۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ پھر لوٹے جماع کی طرف یا ارادہ کرے تو یہ حلال نہیں تاوقتیکہ مذکورہ کفارہ ادا نہ کرے ۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ مراد اس سے جماع کا ارادہ یا پھر بسانے کا عزم یا جماع ہے ۔ امام ابو حنیفہ وغیرہ کہتے ہیں مراد ظہار کی طرف لوٹنا ہے اس کی حرمت اور جاہلیت کے حکم کے اٹھ جانے کے بعد پس جو شخص اب ظہار کرے گا اس پر اس کی بیوی حرام ہو جائے گی جب تک کہ یہ کفارہ ادا نہ کرے ، حضرت سعید فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ جس چیز کو اس نے اپنی جان پر حرام کرلیا تھا اب پھر اس کام کو کرنا چاہے تو اس کا کفارہ ادا کرے ۔ حضرت حسن بصری کا قول ہے کہ مجامعت کرنا چاہے ورنہ اور طرح چھونے میں قبل کفارہ کے بھی ان کے نزدیک کوئی حرج نہیں ۔ ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یہاں مس سے مراد صحبت کرنا ہے ۔ زہری فرماتے ہیں کہ ہاتھ لگانا پیار کرنا بھی کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جائز نہیں ۔ سنن میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں اس سے مل لیا آپ نے فرمایا اللہ تجھ پر رحم کرے ایسا تونے کیوں کیا ؟ کہنے لگا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاندنی رات میں اس کے خلخال کی چمک نے مجھے بےتاب کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب اس سے قربت نہ کرنا جب تک کہ اللہ کے فرمان کے مطابق کفارہ ادا نہ کردے ، نسائی میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے اور امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ مرسل ہونے کو اولیٰ بتاتے ہیں ۔ پھر کفارہ بیان ہو رہا ہے کہ ایک غلام آزاد کرے ، ہاں یہ قید نہیں کہ مومن ہی ہوجیسے قتل کے کفارے میں غلام کے مومن ہونے کی قید ہے ۔ امام شافعی تو فرماتے ہیں یہ مطلق اس مقید پر محمول ہوگی کیونکہ غلام کو آزاد کرنے کی شرط جیسی وہاں ہے ایسی ہی یہاں بھی ہے ، اس کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ ایک سیاہ فام لونڈی کی بابت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے ، اوپر واقعہ گزر چکاجس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہار کرکے پھر کفارہ سے قبل واقع ہو نے والے کو آپ نے دوسرا کفارہ ادا کرنے کو نہیں فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے اس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے یعنی دھمکایا جا رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں سے خبردار ہے اور تمہارے احوال کا عالم ہے ۔ جو غلام کو آزاد کرنے پر قادر نہ ہو وہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے کے بعد اپنی بیوی سے اس صورت میں مل سکتا ہے اور اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا دینے کے بعد ، پہلے حدیثیں گزر چکیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مقدم پہلی صورت پھر دوسری پھر تیسری ، جیسے کہ بخاری و مسلم کی اس حدیث میں بھی ہے جس میں آپ نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو فرمایا تھا ۔ ہم نے یہ احکام اس لئے مقرر کئے ہیں کہ تمہارا کامل ایمان اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو جائے ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کے محرمات ہیں خبردار اس حرمت کو نہ توڑنا ۔ جو کافر ہوں یعنی ایمان نہ لائیں حکم برداری نہ کریں شریعت کے احکام کی بےعزتی کریں ان سے لاپرواہی برتیں انہیں بلاؤں سے بچنے والا نہ سمجھو بلکہ ان کیلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں ۔