Surah

Information

Surah # 58 | Verses: 22 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 105 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحَآدُّوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ كُبِتُوۡا كَمَا كُبِتَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ وَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ‌ ؕ وَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ‌ ۚ‏ ﴿5﴾
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کئے جائیں گے جیسے ان سے پہلے کے لوگ ذلیل کئے گئے تھے اور بیشک ہم واضح آیتیں اتار چکے ہیں اور کافروں کے لئے تو ذلت والا عذاب ہے ۔
ان الذين يحادون الله و رسوله كبتوا كما كبت الذين من قبلهم و قد انزلنا ايت بينت و للكفرين عذاب مهين
Indeed, those who oppose Allah and His Messenger are abased as those before them were abased. And We have certainly sent down verses of clear evidence. And for the disbelievers is a humiliating punishment.
Be-shak jo log Allah aur uss kay rasool ki mukhalifat kertay hain woh zaleel kiye jayen gay jaisay unn say pehlay kay log zaleel kiye gaye thay aur be-shak hum wazeh aayaten utaar chuken hain aur kafiron kay liye to zillat wala azab hai.
یقین رکھو کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ، وہ ایسے ہی ذلیل ہوں گے جیسے ان سے پہلے لوگ ذلیل ہوئے تھے اور ہم نے کھلی کھلی آیتیں نازل کردی ہیں اور کافروں کے لیے ایسا عذاب ہے جو خوار کر کے رکھ دے گا ۔
بیشک وہ جو مخالفت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی ذلیل کیے گئے جیسے ان سے اگلوں کو ذلت دی گئی ( ف۱۹ ) اور بیشک ہم نے روشن آیتیں اتاریں ( ف۲۰ ) اور کافروں کے لیے خواری کا عذاب ہے ،
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں 14 وہ اسی طرح ذلیل و خوار کر دیئے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہیں 15 ہم نے صاف صاف آیات نازل کر دی ہیں ، اور کافروں کے لیئے ذلت کا عذاب ہے16 ۔
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے عداوت رکھتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل کئے جائیں گے جس طرح اُن سے پہلے لوگ ذلیل کئے جاچکے ہیں اور بیشک ہم نے واضح آیتیں نازل فرما دی ہیں ، اور کافروں کے لئے ذِلت انگیز عذاب ہے
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :14 مخالفت کرنے سے مراد اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو نہ ماننا اور ان کے بجائے کچھ دوسری حدیں مقرر کر لینا ہے ۔ ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر یہ کرتے ہیں : ای یخالفون فی حدودہ و فرائضہ فیجعلون حدوداً غیر حدودہ ۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ کی حدود اور اس کے فرائض کے معاملہ میں اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کی جگہ دوسرے حدیں تجویز کر لیتے ہیں ۔ بیضاوی نے اس کی تفسیر یہ کی ہے : ای یعادو نھما ویشاقونھما اویضعون او یختارون حدوداً غیر حدودھما ۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول سے مخاصمت اور جھگڑا کرتے ہیں ، یا ان کی مقرر کی ہوئی حدوں کے سوا دوسری حدیں خود وضع کر لیتے ہیں یا دوسروں کی وضع کردہ حدوں کو اختیار کرتے ہیں ۔ آلودی نے روح المعانی میں بیضاوی کی اس تفسیر سے اتفاق کرتے ہوئے شیخ الاسلام سعد اللہ چلَپی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ان بادشاہوں اور حکام سوء کے لیے سخت وعید ہے جنہوں نے شریعت کی مقرر کردہ حدود کے خلاف بہت سے احکام وضع کر لیے ہیں اور ان کا نام قانون رکھا ہے ۔ اس مقام پر علامہ آلوسی شرعی قوانین کے مقابلے میں وضعی قوانین کی آئینی ( یعنی اسلامی نقطہ نظر آئینی ) حیثیت پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس شخص کے کفر میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے جو اس قانون کو مستحسن اور شریعت کے مقابلہ میں افضل قرار دیتا ہے ، اور کہتا ہے کہ یہ زیادہ حکیمانہ اور قوم کے لیے زیادہ مناسب و موزوں ہے ، اور جب کسی معاملہ میں اس سے کہا جائے کہ شریعت کا حکم اس کے بارے میں یہ ہے تو اس پر غصے میں بھڑک اٹھتا ہے ، جیسا کہ ہم نے بعض ان لوگوں کو دیکھا ہے جن پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :15 اصل میں لفظ کَبْت استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں رسوا کرنا ، ہلاک کرنا ، لعنت کرنا ، راندہ درگاہ کر دینا دھکے دے کر نکال دینا ، تذلیل کرنا ۔ ارشاد الہٰی کا مدعا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور اس کے احکام سے بغاوت کا جوا انجام پچھلے انبیا کی امتیں دیکھ چکی ہیں اس سے وہ لوگ ہرگز نہ بچ سکیں گے جو اب مسلمانوں میں سے وہی روش اختیار کریں ۔ انہوں نے بھی جب خدا کی شریعت کے خلاف خود قوانین بنائے ، یا دوسروں کے بنائے ہوئے قوانین کو اختیار کیا تب اللہ کے فضل اور اس کی نظر عنایت سے وہ محروم ہوئے ، اور اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی ایسی گمراہیوں ، بد درازیوں اور اخلاقی و تمدنی برائیوں سے لبریز ہوتی چلی گئی جنہوں نے بالآخر دنیا ہی میں ان کو ذلیل و خوار کر کے چھوڑا ۔ یہی غلطی اگر اب امت محمدیہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مقبول بارگاہ بنی رہے اور اللہ اسے ذلت کے گڑھے میں گرنے سے بچائے چلا جائے ۔ اللہ کو نہ اپنے پچھلے رسولوں کی امت سے کوئی عداوت تھی ، نہ اس رسول کی امت سے اس کا کوئی مخصوص رشتہ ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :16 سیاق عبارت پر غور کرنے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہاں اس روش کی دو سزاؤں کا ذکر ہے ۔ ایک کبُت ، یعنی وہ خوای و رسوائی جو اس دنیا میں ہوئی اور ہو گی ۔ دوسرے عذاب مہین ، یعنی ذلت کا وہ عذاب جو آخرت میں ہونے والا ہے ۔
احکامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم فرمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے اور احکام شرع سے سرتابی کرنے والے ذلت ادبار نحوست اور پھٹکار کے لائق ہیں جس طرح ان سے اگلے انہی اعمال کے باعث برباد اور رسوا کردیئے گئے ، اسی طرح واضح ، اس قدر ظاہر ، اتنی صاف اور ایسی کھلی ہوئی آیتیں بیان کردی ہیں اور نشانیاں ظاہر کردی ہیں کہ سوائے اس کے جس کے دل میں سرکشی ہو کوئی ان سے انکار کر نہیں سکتا اور جو ان کا انکار کرے وہ کافر ہے اور ایسے کفار کیلئے یہاں کی ذلت کے بعد وہاں کے بھی اہانت والے عذاب ہیں ، یہاں ان کے تکبر نے اللہ کی طرف جھکنے سے روکا وہاں اس کے بدلے انہیں بے انتہا ذلیل کیا جائے گا ، خوب روندا جائے گا ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا اور جو بھلائی برائی جس کسی نے کی تھی اس سے اسے آگاہ کرے گا ۔ گو یہ بھول گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے تو اسے یاد رکھا تھا اس کے فرشتوں نے اسے لکھ رکھا تھا ۔ نہ تو اللہ پر کوئ چیز چھپ سکے نہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولے ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ تم جہاں ہو جس حالت میں ہو نہ تمہاری باتیں اللہ کے سننے سے رہ سکیں نہ تمہاری حالتیں اللہ کے دیکھنے سے پوشیدہ رہیں اس کے علم نے ساری دنیا کا احاطہ کر رکھا ہے اسے ہر زبان و مکان کی اطلاع ہر وقت ہے ، وہ زمین و آسمان کی تمام تر کائنات سے باعلم ہے ، تین شخص آپس میں مل کر نہایت پوشیدگی ، رازداری کے ساتھ اپنی باتیں ظاہر کریں انہیں وہ سنتا ہے اور وہ اپنے آپ کو تین ہی نہ سمجھیں بلکہ اپنا چوتھا اللہ کو گنیں اور جو پانچ شخص تنہائی میں رازداریاں کر رہے ہیں وہ چھٹا اللہ کو جانیں پھر جو اس سے کم ہوں یا اس سے زیادہ ہوں ، وہ بھی یقین رکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں ان کے ساتھ ان کا اللہ ہے یعنی ان کے حال و قال سے مطلع ہے ان کے کلام کو سن رہا ہے اور ان کی حالتوں کو دیکھ رہا ہے پھر ساتھ ہی ساتھ اس کے فرشتے بھی لکھتے جا رہے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ 78؀ۚ ) 9- التوبہ:78 ) کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو بخوبی جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام غیبوں پر اطلاع رکھنے والا ہے ، اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ ۭ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ 80؀ ) 43- الزخرف:80 ) کیا ان کا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور خفیہ مشوروں کو سن نہیں رہے؟ برابر سن رہے ہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس موجود ہیں جو لکھتے جا رہے ہیں ، اکثر بزرگوں نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد معیت علمی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا وجود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر جگہ ہے ، ہر تین کے مجمع میں چوتھا اس کا علم ہے تبارک و تعالیٰ ۔ بیشک و شبہ اس بات پر ایمان کامل اور یقین راسخ رکھنا چاہئے کہ یہاں مراد ذات سے ساتھ ہونا نہیں بلکہ علم سے ہر جگہ موجود ہونا ہے ، ہاں بیشک اس کا سننا دیکھنا بھی اسی طرح اس کے علم کے ساتھ ساتھ ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی تمام مخلوق پر مطلع ہے ان کا کوئی کام اس سے پوشیدہ نہیں ، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے تمام اعمال پر تنبیہ کرے گا ، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے ۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو شروع بھی اپنے علم کے بیان سے کیا تھا اور ختم بھی اللہ کے علم بیان پر کیا ( مطلب یہ ہے کہ درمیان میں اللہ کا ساتھ ہونا جو بیان کیا تھا اس سے بھی ازروئے علم کے ساتھ ہونا ہے نہ کہ ازروئے ذات کے ۔ مترجم )