Surah

Information

Surah # 58 | Verses: 22 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 105 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَيۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَيۡنَ يَدَىۡ نَجۡوٰٮكُمۡ صَدَقَةً  ‌ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ لَّكُمۡ وَاَطۡهَرُ ‌ؕ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿12﴾
اے مسلمانو! جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزہ تر ہے ہاں اگر نہ پاؤ تو بیشک اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔
يايها الذين امنوا اذا ناجيتم الرسول فقدموا بين يدي نجوىكم صدقة ذلك خير لكم و اطهر فان لم تجدوا فان الله غفور رحيم
O you who have believed, when you [wish to] privately consult the Messenger, present before your consultation a charity. That is better for you and purer. But if you find not [the means] - then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
Aey musalmano! Jab tum rasool ( PBUH ) sau sirgoshi kerna chahao to apni sirgoshi say pehlay kuch sadqa dey diya kero yeh tumharay haq mein behtar hai haan agar na pao to be-shak Allah Taalaa bakshney wala meharban hai.
اے ایمان والو ! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات کرنا چاہو تو اپنی اس تنہائی کی بات سے پہلے کچھ صدقہ کردیا کرو ۔ ( ٨ ) یہ طریقہ تمہارے حق میں بہتر اور زیادہ ستھرا طریقہ ہے ۔ ہاں اگر تمہارے پاس ( صدقہ کرنے کے لیے ) کچھ نہ ہو تو اللہ بہت بخشنے والا ، بہت مہربان ہے ۔
اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو ( ف٤۲ ) یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور بہت ستھرا ہے ، پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم رسول سے تخلیہ میں بات کرو تو بات کرنے سے پہلے کچھ صدقہ 29 دو ۔ یہ تمہارے لیئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے ۔ البتہ اگر تم صدقہ دینے کے لئے کچھ نہ پاؤ تو اللہ غفور و رحیم ہے ۔
اے ایمان والو! جب تم رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کوئی راز کی بات تنہائی میں عرض کرنا چاہو تو اپنی رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کر لیا کرو ، یہ ( عمل ) تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے ، پھر اگر ( خیرات کے لئے ) کچھ نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :29 حضرت عبداللہ بن عباس اس حکم کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ باتیں ( یعنی تخلیہ کی درخواست کر کے ) پوچھنے لگے تھے حتیٰ کہ انہوں نے حضور کو تنگ کر دیا ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے نبی پر سے یہ بوجھ ہلکا کر دے ( ابن جریر ) ۔ زید بن اسلم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص بھی علیٰحدگی میں بات کرنے کی درخواست کرتا ، آپ اسے رد نہ فرماتے تھے ۔ جس کا جی چاہتا آ کر عرض کرتا کہ میں ذرا الگ بات کرنا چاہتا ہوں ، اور آپ اسے موقع دے دیتے ، یہاں تک کہ بہت سے لوگ ایسے معاملات میں بھی آپ کو تکلیف دینے لگے جن میں الگ بات کرنے کی کوئی حاجت نہ ہوتی ۔ زمانہ وہ تھا جس میں سارا عرب مدینہ کے خلاف برسر جنگ تھا ۔ بعض اوقات کسی شخص کی اس طرح کی سرگوشی کے بعد شیطان لوگوں کے کان میں یہ پھونک دیتا تھا کہ یہ فلاں قبیلے کے حملہ آور ہونے کی خبر لایا تھا اور اس سے مدینہ میں افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا تھا ۔ دوسری طرف لوگوں کی اس حرکت کی وجہ سے منافقین کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو کانوں کے کچے ہیں ، ہر ایک کی سن لیتے ہیں ۔ ان وجوہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے ( احکام القرآن الابن العربی ) ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دوسروں پر اپنی بڑائی جتانے کے لیے بھی بعض لوگ حضور سے خلوت میں بات کرتے تھے ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب یہ حکم آیا تو حضور نے مجھ سے پوچھا کتنا صدقہ مقرر کیا جائے؟ کیا ایک دینار؟ میں نے عرض کیا یہ لوگوں کی مقدرت سے زیادہ ہے ۔ آپ نے فرمایا نصف دینار؟ میں نے عرض کیا لوگ اس کی مقدرت بھی نہیں رکھتے ۔ فرمایا پھر کتنا ؟ میں نے عرض کیا بس ایک جَو برابر سونا ۔ فرمایا : انک لزھید ، یعنی تم نے تو بڑی کم مقدار کا مشورہ دیا ( ابن جریر ، ترمذی ، مسند ابو یعلیٰ ) ۔ ایک دوسری روایت میں حضرت علی فرماتے ہیں قرآن کی یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا ۔ اس حکم کے آتے ہی میں نے صدقہ پیش کیا اور ایک مسئلہ آپ سے پوچھ لیا ۔ ( ابن جریر ، حاکم ، ابنالمنذر ، عبد بن حمید ) ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی منسوخ شرط اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے نبی سے جب تم کوئی راز کی بات کرنا چاہو تو اس سے پہلے میری راہ میں خیرات کرو تاکہ تم پاک صاف ہو جاؤ اور اس قابل بن جاؤ کہ میرے پیغمبر سے مشورہ کرسکو ، ہاں اگر کوئی غریب مسکین شخص ہو تو خیر ۔ اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کے رحم پر نظریں رکھنی چاہئیں یعنی یہ حکم صرف انہیں ہے جو مالدار ہوں ۔ پھر فرمایا شاید تمہیں اس حکم کے باقی رہ جانے کا اندیشہ تھا اور خوف تھا کہ یہ صدقہ نہ جانے کب تک واجب رہے ۔ جب تم نے اسے ادا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرمایا اب تو اور مذکورہ بالا فرائض کا پوری طرح خیال رکھو ، کہا جاتا ہے کہ سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے کا شرف صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا پھر یہ حکم ہٹ گیا ، ایک دینار دے کر آپ نے حضور سے پوشیدہ باتیں کیں دس مسائل پوچھے ۔ پھر تو یہ حکم ہی ہٹ گیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خود بھی یہ واقعہ بہ تفصیل مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اس آیت پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا نہ میرے بعد کوئی عمل کرسکا ، میرے پاس ایک دینار تھا جسے بھناکر میں نے دس درہم لے لئے ایک درہم اللہ کے نام پر کسی مسکین کو دیدیا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے سرگوشی کی پھر تو یہ حکم اٹھ گیا تو مجھ سے پہلے بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کرسکتا ہے ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے پوچھا کیا صدقہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنی چاہئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت ہوئی ۔ فرمایا پھر آدھا دینار کہا ہر شخص کو اس کی بھی طاقت نہیں آپ نے فرمایا اچھا تم ہی بتاؤ کس قدر؟ فرمایا ایک جو برابر سونا آپ نے فرمایا واہ واہ تم تو بڑے ہی زاہد ہو ، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پس میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت پر تخفیف کردی ، ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مسلمان برابر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے راز داری کرنے سے پہلے صدقہ نکالا کرتے تھے لیکن زکوٰۃ کے حکم نے اسے اٹھا دیا ، آپ فرماتے ہیں صحابہ نے کثرت سے سوالات کرنے شروع کردیئے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے کر آپ پر تخفیف کردی کیونکہ اب لوگوں نے سوالات چھوڑ دیئے ، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کشادگی کردی اور اس حکم کو منسوخ کردیا ، عکرمہ اور حسن بصری کا بھی یہی قول ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے ، حضرت قتادہ اور حضرت مقاتل بھی یہی فرماتے ہیں ، حضرت قتادہ کا قول ہے کہ صرف دن کی چند ساعتوں تک یہ حکم رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ صرف میں ہی عمل کرسکا تھا اور دن کا تھوڑا ہی حصہ اس حکم کو نازل ہوئے تھا کہ منسوخ ہوگیا ۔