Surah

Information

Surah # 59 | Verses: 24 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 101 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
هُوَ الَّذِىۡۤ اَخۡرَجَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ مِنۡ دِيَارِهِمۡ لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ‌ؔؕ مَا ظَنَنۡـتُمۡ اَنۡ يَّخۡرُجُوۡا‌ وَظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ مَّانِعَتُهُمۡ حُصُوۡنُهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ حَيۡثُ لَمۡ يَحۡتَسِبُوۡا وَقَذَفَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الرُّعۡبَ يُخۡرِبُوۡنَ بُيُوۡتَهُمۡ بِاَيۡدِيۡهِمۡ وَاَيۡدِى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ فَاعۡتَبِـرُوۡا يٰۤاُولِى الۡاَبۡصَارِ‌‏ ﴿2﴾
وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا تمہارا گمان ( بھی ) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے ( سنگین ) قلعے انہیں ‌اللہ ( كے ‌عذاب ) ‌سے ‌بچا ‌لیں ‌گے ‌پس ‌ان ‌پر ‌اللہ ‌ ( كا ‌عذاب ) ‌ایسی ‌جگہ ‌سے ‌آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے اور مسلمان کے ہاتھوں ( برباد کروا رہے تھے ) پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو ۔
هو الذي اخرج الذين كفروا من اهل الكتب من ديارهم لاول الحشر ما ظننتم ان يخرجوا و ظنوا انهم مانعتهم حصونهم من الله فاتىهم الله من حيث لم يحتسبوا و قذف في قلوبهم الرعب يخربون بيوتهم بايديهم و ايدي المؤمنين فاعتبروا ياولي الابصار
It is He who expelled the ones who disbelieved among the People of the Scripture from their homes at the first gathering. You did not think they would leave, and they thought that their fortresses would protect them from Allah ; but [the decree of] Allah came upon them from where they had not expected, and He cast terror into their hearts [so] they destroyed their houses by their [own] hands and the hands of the believers. So take warning, O people of vision.
Wohi hai jiss ney ehal-e-kitab mein say kafiron ko unn kay gharon say pehlay hashar kay waqt nikala tumhara gumaan ( bhi ) na tha kay woh niklen gay aur woh khud ( bhi ) samajh rahey thay kay unn kay ( sangeen ) qilay unhen Allah ( kay azab ) say bacha len gay pus unn per Allah ( ka azab ) aisi jagah say aa para kay unhen gumaan bhi na tha aur unn kay dilon mein Allah ney rob daal diya aur apney gharon ko apney hi haathon ujaar rahey thay aur musalmanon kay haathon ( barbad kerwa rahey thay ) pus aey aankhon walo! Ibrat hasil kero.
وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر لوگوں کو ان کے گھروں سے پہلے اجتماع کے موقع پر نکال دیا ۔ ( ١ ) ( مسلمانو ) تمہیں یہ خیال بھی نہیں تھا کہ وہ نکلیں گے ، او وہ بھی یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچا لیں گے ۔ پھر اللہ ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں ان کا گمان بھی نہیں تھا ، اور اللہ نے ان کے د لوں میں رعب ڈال دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور مسلمانوں کے ہاتھ سے بھی اجاڑ رہے تھے ۔ ( ٢ ) لہذا اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو ۔
وہی ہے جس نے ان کافر کتابیوں کو ( ف۳ ) ان کے گھروں سے نکالا ( ف٤ ) ان کے پہلے حشر کے لیے ( ف۵ ) تمہیں گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے ( ف٦ ) اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچالیں گے تو اللہ کا حکم ان کے پاس آیا جہاں سے ان کا گمان بھی نہ تھا ( ف۷ ) اور اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا ( ف۸ ) کہ اپنے گھر ویران کرتے ہیں اپنے ہاتھوں ( ف۹ ) اور مسلمانوں کے ہاتھوں ( ف۱۰ ) تو عبرت لو اے نگاہ والو ،
وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے 2 میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا 3 ۔ تمھیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے ، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں 4 گی ۔ مگر اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا 5 ۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے 6 تھے ۔ پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو 7 !
وہی ہے جس نے اُن کافر کتابیوں کو ( یعنی بنو نضیر کو ) پہلی جلاوطنی میں گھروں سے ( جمع کر کے مدینہ سے شام کی طرف ) نکال دیا ۔ تمہیں یہ گمان ( بھی ) نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور انہیں یہ گمان تھا کہ اُن کے مضبوط قلعے انہیں اللہ ( کی گرفت ) سے بچا لیں گے پھر اللہ ( کے عذاب ) نے اُن کو وہاں سے آلیا جہاں سے وہ گمان ( بھی ) نہ کرسکتے تھے اور اس ( اللہ ) نے اُن کے دلوں میں رعب و دبدبہ ڈال دیا وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور اہلِ ایمان کے ہاتھوں ویران کر رہے تھے ۔ پس اے دیدۂ بینا والو! ( اس سے ) عبرت حاصل کرو
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ۔ حشر کے معنی ہیں منتشر افراد کو اکٹھا کرنا ، یا بکھرے ہوئے اشخاص کو جمع کر کے نکالنا ۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی ہیں پہلے حشر کے ساتھ یا پہلے حشر کے موقع پر ۔ اب رہا یہ سوال کہ اس جگہ اول حشر سے مراد کیا ہے ، تو اس میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کے نزدیک اس سے مراد بنی نضیر کا مدینہ سے اخراج ہے ، اور اس کو ان کا پہلا حشر اس معنی میں کہا گیا ہے کہ ان کا دوسرا حشر حضرت عمر کے زمانے میں ہوا جب یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالا گیا ، اور آخری حشر قیامت کے روز ہو گا ۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے مراد مسلمانوں کی فوج کا اجتماع ہے جو بنی نضیر سے جنگ کرنے کے لیے ہوا تھا ۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی یہ ہیں کہ ابھی مسلمان ان سے لڑنے کے لیے جمع ہی ہوئے تھے اور کشت و خون کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ جلا وطنی کے لیے تیار ہو گئے ۔ بالفاظ دیگر یہاں یہ الفاظ باوّل وَھلہ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے ۔ در اوّل جمع کردنِ لشکر ۔ اور شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے پہلے ہی بھیڑ ہوتے ۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا مفہوم ہی ان الفاظ کا متبادر مفہوم ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :3 اس مقام پر ایک بات آغاز ہی میں سمجھ لینی چاہیے تاکہ بنی نضیر کے اخراج کے معاملہ میں کوئی ذہنی الجھن پیدا نہ ہو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی نضیر کا باقاعدہ تحریری معاہدہ تھا ۔ اس معاہدے کو انہوں نے رد نہیں کیا تھا کہ معاہدہ ختم ہو جاتا ۔ لیکن جس وجہ سے ان پر چڑھائی کی گئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بہت سی چھوٹی بڑی خلاف ورزیاں کرنے کے بعد آخر کار ایک صریح فعل ایسا کیا تھا جو نقض عہد کا ہم معنی تھا ۔ وہ یہ کہ انہوں نے دوسرے فریق معاہدہ ، یعنی مدینہ کی اسلامی ریاست کے صدر کو قتل کرنے کی سازش کی تھی کہ جب ان کو نقص معاہدہ کا الزام دیا گیا تو وہ اس کا انکار نہ کر سکے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دس دن کا نوٹس دے دیا کہ اس مدت میں مدینہ چھوڑ کر نکل جاؤ ، ورنہ تمہارے خلاف جنگ کی جائے گی ۔ یہ نوٹس قرآن مجید کے اس حکم کے ٹھیک مطابق تھا کہ اگر تم کو کسی قوم سے خیانت ( بد عہدی ) کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو ( انفال ۔ 58 ) ۔ اسی لیے ان کے اخراج کو اللہ تعالیٰ اپنا فعل قرار دے رہا ہے ، کیونکہ یہ ٹھیک قانون الہیٰ کے مطابق تھا ۔ گویا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے نہیں بلکہ اللہ نے نکالا ۔ دوسری وجہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اخراج کو اپنا فعل قرار دیا ہے آگے کی آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :4 اس ارشاد کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ بنی نضیر صدیوں سے یہاں جمے ہوئے تھے ۔ مدینہ کے باہر ان کی پوری آبادی یکجا تھی جس میں ان کے اپنے قبیلے کے سوا کوئی دوسرا عنصر موجود نہ تھا ۔ انہوں نے پوری بستی کو قلعہ بند کر رکھا تھا ، اور ان کے مکانات بھی گڑھیوں کی شکل میں بنے ہوئے تھے جس طرح عموماً قبائلی علاقوں میں ، جہاں ہر طرف بد امنی پھیلی ہوئی ہو ، بنائے جاتے ہیں ۔ پھر ان کی تعداد بھی اس وقت کے مسلمانوں سے کچھ کم نہ تھی ۔ اور خود مدینے کے اندر بہت سے منافقین ان کی پشت پر تھے ۔ اس لیے مسلمانوں کو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ یہ لوگ لڑے بغیر صرف محاصرے ہی سے بد حواس ہو کر یوں اپنی جگہ چھوڑ دیں گے ۔ اسی طرح خود بنی نضیر کے بھی وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ کوئی طاقت ان سے چھ دن کے اندر یہ جگہ چھڑا لے گی ۔ اگرچہ بنی قینقاع ان سے پہلے نکالے جا چکے تھے اور اپنی شجاعت پر ان کا سارا زعم دھرا کا دھرا رہ گیا تھا ، لیکن وہ مدینہ کے ایک محلہ میں آباد تھے اور انکی اپنی کوئی الگ قلعہ بند بستی نہ تھی ، اس لیے بنی نضیر یہ سمجھتے تھے کہ ان کا مسلمانوں کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکنا بعید از قیاس نہ تھا ۔ بخلاف اس کے وہ اپنی محفوظ بستی اور اپنی مضبوط گڑھیوں کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہ کر سکتے تھے کہ کوئی انہیں یہاں سے نکال سکتا ہے ۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جانے کا نوٹس دیا تو انہوں نے بڑے دھڑلے کے ساتھ جواب دے دیا کہ ہم نہیں نکلیں گے ، آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہے کر لیجیے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر یہ بات کس بنا پر فرمائی کہ وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی؟ کیا واقعی بنی نضیر یہ جانتے تھے کہ ان کا مقابلہ محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے؟ اور کیا جانتے ہوئے بھی ان کا یہ خیال تھا کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر اس شخص کے ذہن میں الجھن پیدا کرے گا جو یہودی قوم کے نفسیات اور ان کی صدہا برس کی روایات کو نہ جانتا ہو ۔ عام انسانوں کے متعلق کوئی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ وہ شعوری طور پر یہ جانتے بھی ہوں کہ مقابلہ اللہ سے ہے اور پھر بھی ان کو یہ زعم لاحق ہو جائے کہ ان کے قلعے اور ہتھیار انہیں اللہ سے بچا لیں گے ۔ اس لیے ایک ناواقف آدمی اس جگہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی یہ تاویل کرے گا کہ بنی نضیر بظاہر اپنے قلعوں کا استحکام دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حملہ سے بچ جائیں گے ، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کا مقابلہ اللہ سے تھا اور اس سے ان کے قلعے انہیں نہ بچا سکتے تھے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہودی اس دنیا میں ایک ایسی عجیب قوم ہے جو جانتے بوجھتے اللہ کا مقابلہ کرتی رہی ہے ، اللہ کے رسولوں کو یہ جانتے ہوئے اس نے قتل کیا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور فخر کے ساتھ سینہ ٹھونک کر اس نے کہا ہے کہ ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کیا ہے ۔ اس قوم کی روایات یہ ہیں کہ ان کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب سے اللہ تعالیٰ کی رات بھر کشتی ہوتی رہی اور صبح تک لڑ کر بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہ پچھاڑ سکا ۔ پھر جب صبح ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اب مجھے جانے دے تو انہوں نے کہا میں تجھے نہ جانے دوں گا جب تک تو مجھے برکت نہ دے ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا یعقوب ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آئندہ تیرا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کیونکہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا ۔ ملاحظہ ہو یہودیوں کا جدید ترین ترجمہ کتب مقدسہ ( The Holy Scriptures ) شائع کردہ جیوش پبلکیشن سوسائٹی آف امریکہ 1954 کتاب پیدائش ، باب 32 ۔ آیات 25 تا 29 ۔ عیسائیوں کے ترجمہ بائیبل میں بھی یہ مضمون اسی طرح بیان ہوا ہے ۔ یہودی ترجمہ کے حاشیہ میں اسرائیل کے معنی لکھے گئے ہیں ۔ He who striveth with God ، یعنی جو خدا سے زور آزمائی کرے ۔ اور سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر میں عیسائی علماء نے اسرائیل کے معنی کی تشریح یہ کی ہے : Wrestler with God خدا سے کشتی لڑنے والا پھر بائیبل کی کتاب ہوسیع میں حضرت یعقوب کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی توانائی کے ایام میں خدا سے کشتی لڑا ۔ وہ فرشتے سے کشتی لڑا اور غالب آیا ( باب12 آیت 4 ) ۔ اب ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل آخر ان حضرات اسرائیل کے صاحبزادے ہی تو ہیں جنہوں نے ان کے عقیدے کے مطابق خدا سے زور آزمائی کی تھی اور اس سے کشتی لڑی تھی ۔ ان کے لیے آخر کیا مشکل ہے کہ خدا کے مقابلے میں یہ جانتے ہوئے بھی ڈٹ جائیں کہ مقابلہ خدا سے ہے ۔ اسی بنا پر تو انہوں نے خود اپنے اعترافات کے مطابق خدا کے نبیوں کو قتل کیا اور اسی بنا پر انہوں نے حضرت عیسیٰ کو اپنے زعم میں صلیب پر چڑھایا اور خم ٹھونک کر کہا اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مُرْیَمَ رَسْوْلَ اللہ ( ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کیا ) لہٰذا یہ بات ان کی روایات کے خلاف نہ تھی کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول جانتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کی ۔ اگر ان کے عوام نہیں تو ان کے ربی اور احبار تو خوب جانتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ اس کے متعدد شواہد خود قرآن میں موجود ہیں ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 79 ۔ 95 ۔ النساء ، حاشیہ 190 ۔ 191 ۔ جلد چہارم ، الصافات ، حاشیہ 70 ۔ 73 ) ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :5 اللہ کا ان پر آنا اس معنی میں نہیں ہے کہ اللہ کسی اور جگہ تھا اور پھر وہاں سے ان پر حملہ آور ہوا ۔ بلکہ یہ مجازی کلام ہے ۔ اصل مدعا یہ تصور دلانا ہے کہ اللہ سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس خیال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر صرف اسی شکل میں بَلا لے کر آ سکتا ہے کہ ایک لشکر کو سامنے سے ان پر چڑھا کر لائے ، اور وہ سمجھتے تھے کہ اس بَلا کو تو ہم اپنی قلعہ بندیوں سے روک لیں گے ۔ لیکن اس نے ایسے راستہ سے ان پر حملہ کیا جدھر سے کسی بلا کے آنے کی وہ کوئی توقع نہ رکھتے تھے ۔ اور وہ راستہ یہ تھا کہ اس نے اندر سے ان کی ہمت اور قوت مقابلہ کو کھوکھلا کر دیا جس کے بعد نہ ان کے ہتھیار کسی کام آ سکتے تھے نہ ان کے مضبوط گڑھ ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :6 یعنی تباہی دو طرح سے ہوئی ۔ باہر سے مسلمانوں نے محاصرہ کر کے ان کی قلعہ بندیوں کو توڑنا شروع کیا ۔ اور اندر سے خود انہوں نے پہلے تو مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لیے جگہ جگہ پتھروں اور لکڑیوں کی رکاوٹیں کھڑی کیں اور اس غرض کے لیے اپنے گھروں کو توڑ توڑ کر ملبہ جمع کیا ۔ پھر جب ان کو یقین ہو گیا کہ انہیں یہاں سے نکلنا ہی پڑے گا تو انہوں نے اپنے گھروں کو ، جنہیں کبھی بڑے شوق سے بنایا اور سجایا تھا ، اپنے ہی ہاتھوں برباد کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مسلمانوں کے کام نہ آ سکیں ۔ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس شرط پر صلح کی کہ ہماری جانیں بخش دی جائیں اور ہمیں اجازت دی جائے کہ ہتھیاروں کے سوا جو کچھ بھی ہم یہاں سے اٹھا کر لے جا سکتے ہیں لے جائیں تو چلتے ہوئے وہ اپنے دروازے اور کھڑکیاں اور کھونٹیاں تک اکھاڑ لے گئے ، حتیٰ کہ بعض لوگوں نے شہتیر اور لکڑی کی چھتیں تک اپنے اونٹوں پر لاد لیں ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :7 اس واقعہ میں عبرت کے کئی پہلو ہیں جن کی طرف اس مختصر سے بلیغ فقرے میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ یہودی آخر پچھلے انبیاء کی امت ہی تو تھے ۔ خدا کو مانتے تھے ۔ کتاب کو مانتے تھے پچھلے انبیاء کو مانتے تھے ۔ آخرت کو مانتے تھے ۔ اس لحاظ سے دراصل وہ سابق مسلمان تھے ۔ لیکن جب انہوں نے دین اور اخلاق کو پس پشت ڈال کر محض اپنی خواہشات نفس اور دنیوی اغراض و مفاد کی خاطر کھلی کھلی حق دشمنی اختیار کی اور خود اپنے عہد و پیمان کا بھی کوئی پاس نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ التفات ان سے پھر گئی ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کو ان سے کوئی ذاتی عداوت نہ تھی ۔ اس لیے سب سے پہلے تو خود مسلمانوں کو ان کے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے آپ کو یہودیوں کی طرح خدا کی چہیتی اولاد نہ سمجھ بیٹھیں اور اس خیال خام میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ خدا کے آخری نبی کی امت میں ہونا ہی بجائے خود ان کے لیے اللہ کے فضل اور اس کی تائید کی ضمانت ہے جس کے بعد دین و اخلاق کے کسی تقاضے کی پابندی ان کی لیے ضروری نہیں رہتی ۔ اس کے ساتھ دنیا بھر کے ان لوگوں کو بھی اس واقعہ سے عبرت دلائی گئی ہے جو جان بوجھ کر حق کی مخالفت کرتے ہیں اور پھر اپنی دولت و طاقت اور اپنے ذرائع و وسائل پر یہ اعتماد کرتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گی ۔ مدینہ کے یہودی اس سے ناواقف نہ تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم یا قبیلے کی سر بلندی کے لیے نہیں اٹھے ہیں بلکہ ایک اصولی دعوت پیش کر رہے ہیں جس کے مخاطب سارے انسان ہیں اور ہر انسان ، قطع نظر اس سے کہ وہ کسی نسل یا ملک سے تعلق رکھتا ہو ، اس دعوت کو قبول کر کے ان کی امت میں بلا امتیاز شامل ہو سکتا ہے ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے حبش کے بلال ، روم کے صہیب اور فارس کے سلمان کو امت مسلمہ میں وہی حیثیت حاصل تھی جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اہل خاندان کو حاصل تھی ۔ اس لیے ان کے سامنے یہ کوئی خطرہ نہ تھا کہ قریش اور اوس اور خزرج ان پر مسلط ہو جائیں گے ۔ وہ اس سے بھی ناواقف نہ تھے کہ آپ جو اصولی دعوت پیش فرما رہے ہیں وہ بعینہ وہی ہے جو خود ان کے اپنے ابنیاء پیش کرتے رہے ہیں ۔ آپ کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ میں ایک نیا دین لے کر آیا ہوں جو پہلے کبھی کوئی نہ لایا تھا اور تم اپنا دین چھوڑ کر میرا یہ دین مان لو ۔ بلکہ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ وہی دین ہے جو ابتدائے آفرینش سے خدا کے تمام ابنیاء لاتے رہے ہیں ، اور اپنی توراۃ سے وہ خود اس کی تصدیق کر سکتے تھے کہ فی الواقع یہ وہی دین ہے ، اس کے اصولوں میں دین انبیاء کے اصولوں سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ اسی بنا پر تو قرآن مجید میں ان سے کہا گیا تھا کہ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہ ( ایمان لاؤ میری نازل کردہ اس تعلیم پر جو تصدیق کرتی ہے اس تعلیم کی جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے ، اور سب سے پہلے تم ہی اس کے کافر نہ بن جاؤ ) ۔ پھر ان کی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس سیرت و اخلاق کے انسان ہیں ، اور آپ کی دعوت قبول کر کے لوگوں کی زندگیوں میں کیسا عظیم انقلاب برپا ہوا ہے ۔ انصار تو مدت دراز سے ان کے قریب ترین پڑوسی تھے ۔ اسلام لانے سے پہلے ان کی جو حالت تھی اسے بھی یہ لوگ دیکھ چکے تھے اور اسلام لانے کے بعد ان کی جو حالت ہو گئی وہ بھی ان کے سامنے موجود تھی ۔ پس دعوت اور داعی اور دعوت قبول کرنے کے نتائج ، سب کچھ ان پر عیاں تھے ۔ لیکن یہ ساری باتیں دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی انہوں نے محض اپنے نسلی تعصبات اور اپنے دنیوی مفاد کی خاطر اس چیز کے خلاف اپنی ساری طاقت لگا دی جس کے حق ہونے میں کم از کم ان کے لیے شک کی گنجائش نہ تھی ۔ اس دانستہ حق دشمنی کے بعد وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے ۔ حالانکہ پوری انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کی طاقت جس کے مقابلے میں آ جائے وہ پھر کسی ہتھیار سے نہیں بچ سکتا ۔