Surah

Information

Surah # 59 | Verses: 24 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 101 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَمَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ مِنۡهُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ خَيۡلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰڪِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿6﴾
اور ان کا جو مال اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالٰی اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔
و ما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل و لا ركاب و لكن الله يسلط رسله على من يشاء و الله على كل شيء قدير
And what Allah restored [of property] to His Messenger from them - you did not spur for it [in an expedition] any horses or camels, but Allah gives His messengers power over whom He wills, and Allah is over all things competent.
Aur inn ka jo maal Allah Taalaa ney apney rasool kay haath lagaya hai jiss per na to tum ney ghoray doraye hain aur na oont bulkay Allah Taalaa apney rasool ko jiss per chahaye ghalib ker deta hai aur Allah Taalaa her cheez per qadir hai.
اور اللہ نے اپنے رسول کو ان کا جو مال بھی فیئ کے طور پر دلوایا ۔ اس کے لیے تم نے نہ اپنے گھوڑے دوڑائے ، نہ اونٹ ، لیکن اللہ اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتا ہے ، تسلط عطا فرما دیتا ہے ۔ ( ٥ ) اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ۔
اور جو غنیمت دلائی اللہ نے اپنے رسول کو ان سے ( ف۱٦ ) تو تم نے ان پر نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ ( ف۱۷ ) ہاں اللہ اپنے رسولوں کے قابو میں دے دیتا ہے جسے چاہے ( ف۱۸ ) اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے ،
اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دئے11 ، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں ، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے ۔ تسلط عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے 12 ۔
اور جو ( اَموالِ فَے ) اللہ نے اُن سے ( نکال کر ) اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر لَوٹا دیئے تو تم نے نہ تو اُن ( کے حصول ) پر گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ ، ہاں! اللہ اپنے رسولوں کو جِس پر چاہتا ہے غلبہ و تسلّط عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :11 اب ان جائدادوں اور املاک کا ذکر ہو رہا ہے جو پہلے بنی نضیر کی ملک تھیں اور ان کی جلا وطنی کے بعد اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں ۔ ان کے متعلق یہاں سے آیت 10 تک اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک علاقہ فتح ہو کر اسلامی مقبوضات میں شامل ہوا ، اور آگے بہت سے علاقے فتح ہونے والے تھے ، اس لیے فتوحات کے آغاز ہی میں اراضی مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا گیا ۔ اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے : مَا اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مِنْھُمْ ( جو کچھ پلٹا دیا ان سے اللہ نے اپنے رسول کی طرف ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ یہ زمین اور وہ ساری چیزیں جو یہاں پائی جاتی ہیں ، دراصل ان لوگوں کا حق نہیں ہیں جو اللہ جل شانہ کے باغی ہیں ۔ وہ اگر ان پر قابض و متصرف ہیں تو یہ حقیقت میں اس طرح کا قبضہ و تصرف ہے جیسے کوئی خائن ملازم اپنے آقا کا مال دبا بیٹھے ۔ ان تمام اموال کا اصل حق یہ ہے کہ یہ ان کے حقیقی مالک ، اللہ رب العالمین کی اطاعت میں اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیے جائیں ، اور ان کا یہ استعمال صرف مومنین صالحین ہی کر سکتے ہیں ۔ اس لیے جو اموال بھی ایک جائز و برحق جنگ کے نتیجے میں کفار کے قبضے سے نکل کر اہل ایمان کے قبضے میں آئیں ان کی حقیقی حیثیت یہ ہے کہ ان کا مالک انہیں اپنے خائن ملازموں کے قبضے سے نکال کر اپنے فرمانبردار ملازموں کی طرف پلٹا لایا ہے ۔ اسی لیے ان املاک کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں فَے ( پلٹا کر لائے ہوئے اموال ) قرار دیا گیا ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :12 یعنی ان اموال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جو فوج میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوئی ہے اس نے لڑ کر ان کو جیتا ہو اور اس بنا پر اس فوج کا یہ حق ہو کہ یہ اموال اس میں تقسیم کر دیے جائیں ، بلکہ ان کی اصل نوعیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رسولوں کو ، اور اس نظام کو جس کی نمائندگی یہ رسول کرتے ہیں ، ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے ۔ بالفاظ دیگر ان کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا براہ راست لڑنے والی فوج کے زور بازو کا نتیجہ نہیں ہے ، بلکہ یہ اس مجموعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول اور اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے ۔ اس لیے یہ اموال مال غنیمت سے بالکل مختلف حیثیت رکھتے ہیں اور لڑنے والی فوج کا یہ حق نہیں ہے کہ غنیمت کی طرح ان کو بھی اس میں تقسیم کر دیا جائے ۔ اس طرح شریعت میں غنیمت اور فَے کا حکم الگ الگ کر دیا گیا ہے ۔ غنیمت کا حکم سورہ انفال آیت 41 میں ارشاد ہوا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں ، چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم کر دیے جائیں ، اور ایک حصہ بیت المال میں داخل کر کے ان مصارف میں صرف کیا جائے جو اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اور فَے کا حکم یہ ہے کہ اسے فوج میں تقسیم نہ کیا جائے ، بلکہ وہ پوری کی پوری ان مصارف کے لیے مخصوص کر دی جائے جو آگے کی آیات میں بیان ہو رہے ہیں ۔ ان دونوں قِسم کے اموال میں فرق فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَارِکَابِ ( تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ہیں ) کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے ۔ گھوڑے اور اونٹ دوڑانے سے مراد ہے جنگی کارروائی Warlike operations لہٰذا جو مال براہ راست اس کارروائی سے ہاتھ آئے ہوں وہ غنیمت ہیں ۔ اور جن اموال کے حصول کا اصل سبب یہ کارروائی نہ ہو وہ سب فَے ہیں ۔ یہ مجمل فرق جو غنیمت اور فَے کے درمیان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ، اس کو اور زیادہ کھول کر فقہائے اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو جنگی کارروائیوں کے دوران میں دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں ۔ ان کے ماسوا دشمن ملک کی زمینیں ، مکانات اور دوسرے اموال منقولہ وغیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں ۔ اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ خط ہے جو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وَقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ : فانضر ما اجلبوا بہ علیک فی العسکر من کراءٍ او مالٍ فاقسمہ بین من حضر من المسلمین و اترک الاَرَضِین والانھار لعُمّالھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین ۔ جو مال متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لائے ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کر دو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئے ( کتاب الخراج لابی یوسف صفحہ 24 ۔ کتاب الاموال لابی عبید صفحہ 59 ۔ کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم ، صفحات 27 ۔ 28 ۔ 148 ) اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آئے وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لیے ہے ( یحیٰ بن آدم ، صفحہ 27 ) ۔ اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ جو کچھ دشمن کے لشکروں سے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور جو متاع اور اسلحہ اور جانور وہ اپنے کیمپ میں سمیٹ لائیں وہ غنیمت ہے اور اسی میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کیے جائیں گے ( کتاب الخراج ، صفحہ 18 ) ۔ یہی رائے یحیٰ بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب الخراج میں بیان کی ہے ( صفحہ 27 ) ۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فَے کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوَنْد کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہو چکا تھا اور مفتوحہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا تھا ، ایک صاحب ، سائب بن اَقْرَع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں ۔ ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جائے ، یا اسکا شمار اب فَے میں ہے جسے بیت المال میں داخل ہونا چاہیے؟ آخر کار انہوں نے مدینہ حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمر کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کر دی جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنگ میں فوج کے ہاتھ آئیں ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فَے کے حکم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ امام ابو عبید اس واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں : مانیل من اھل الشرک عَنْوۃً قسر او الحرب قائمۃ فھو الغنیمۃ ، وما نیل منھم بعد ما تضع الحرب اوزارھا و تصیر الدار دار الاسلام فھو فیءُ یکون للناس عامّا ولا خمس فیہ ۔ جو مال دشمن سے بزور ہاتھ لگے ، جبکہ ابھی جنگ ہو رہی ہو ، وہ غنیمت ہے ، اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب ملک دار الاسلام بن گیا ہو ، اس وقت جو مال ہاتھ لگے وہ فَے ہے جسے عام باشندگان دار الاسلام کے لیے وقف ہونا چاہیے ۔ اس میں خمس نہیں ہے ۔ ( کتاب الاموال ، صفحہ 254 ) ۔ غنیمت کو اس طرح محدود کرنے کے بعد باقی جو اموال و املاک اور اراضی کفار سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو وہ دو بڑی اقسام پر تقسیم کیے جا سکتے ہیں ایک وہ جو لڑ کر فتح کیے جائیں ، جن کو اسلامی فقہ کی زبان میں حَنْوَۃً فتح ہونے والے ممالک کہا جاتا ہے ۔ دوسرے وہ جو صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں ، خواہ وہ صلح اپنی جگہ پر مسلمانوں کی فوجی طاقت کے دباؤ یا رعب اور ہیبت ہی کی وجہ سے ہوئی ہو ۔ اور اسی قسم میں وہ سب اموال بھی آ جاتے ہیں جو عَنْوَۃً فتح ہونے کے سوا کسی دوسری صورت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں ۔ فقہائے اسلام کے درمیان جو کچھ بحثیں پیدا ہوئی ہیں وہ صرف پہلی قسم کے اموال کے بارے میں پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی ٹھیک ٹھیک شرعی حیثیت کیا ہے کیونکہ وہ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لا رِکابٍ کی تعریف میں نہیں آتے ۔ رہے دوسری قسم کے اموال ، تو ان کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ فَے ہیں ، کیونکہ ان کا حکم صاف صاف قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے ۔ آگے چل کر ہم قسم اول کے اموال کی شرعی حیثیت پر تفصیلی کلام کریں گے ۔
مال فے کی تعریف وضاحت اور حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل ہی اصل ایمان ہے ۔ فے کس مال کو کہتے ہیں؟ اس کی صفت کیا ہے؟ اس کا حکم کیا ہے؟ یہ سب یہاں بیان ہو رہا ہے ۔ فے اس مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے ، جیسے بنو نضیر کا یہ مال تھا جس کا ذکر اوپر گذر چکا کہ مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ اس پر نہیں دوڑائے تھے یعنی ان کفار سے آمنے سامنے کوئی مقابلہ اور لڑائی نہیں ہوئی بلکہ انکے دل اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت سے بھر دیئے اور وہ اپنے قلعہ خالی کر کے قبضہ میں آ گئے ، اسے فے کہتے ہیں اور یہ مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گیا ، آپ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں ، پس آپ نے نیکی اور اصلاح کے کاموں میں اسے خرچ کیا جس کا بیان اس کے بعد والی اور دوسری روایت میں ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ بنو نضیر کا جو مال بطور فے کے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دلوایا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ دوڑائے نہ تھے بلکہ صرف اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر غلبہ دے دیا تھا اور اللہ پر یہ کیا مشکل ہے؟ وہ تو ہر اک چیز پر قدرت رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا غلبہ نہ اسے کوئی روکنے والا بلکہ سب پر غالب وہی ، سب اس کے تابع فرمان ۔ پھر فرمایا کہ جو شہر اس طرح فتح کئے جائیں ان کے مال کا یہی حکم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے قبضہ میں کریں گے پھر انہیں دیں گے جن کا بیان اس آیت میں ہے اور اس کے بعد والی آیت میں ہے ، یہ ہے فے کے مال کا مصرف اور اس کے خرچ کا حکم ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ بنو نضیر کے مال بطور فے کے خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوگئے تھے آپ اس میں سے اپنے گھر والوں کو سال بھر تک کا خرچ دیتے تھے اور جو بچ رہتا اسے آلات جنگ اور سامان حرب میں خرچ کرتے ( سنن و مسند وغیرہ ) ابو داؤد میں حضرت مالک بن اوس سے مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے مجھے دن چڑھے بلایا میں گھر گیا تو دیکھا کہ آپ ایک چوکی پر جس پر کوئی کپڑا وغیرہ نہ تھا بیٹھے ہوئے ہیں ، مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری قوم کے چند لوگ آئے ہیں میں نے انہیں کچھ دیا ہے تم اسے لے کر ان میں تقسیم کردو میں نے کہا اچھا ہوتا اگر جناب کسی اور کو یہ کام سونپتے آپ نے فرمایا نہیں تم ہی کرو میں نے کہا بہت بہتر ، اتنے میں آپ کا داروغہ یرفا آیا اور کہا اے امیر المومنین میرا اور ان کا فیصلہ کیجئے یعنی حضرت علی کا ، تو پہلے جو چاروں بزرگ آئے تھے ان میں سے بھی بعض نے کہا ہاں امیر المومنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور انہیں راحت پہنچایئے ، حضرت مالک فرماتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ ان چارں بزرگوں کو ان دونوں حضرات نے ہی اپنے سے پہلے یہاں بھیجا ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھہرو ، پھر ان چاروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا تمہیں اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ان چاروں نے اس کا اقرار کیا ، پھر آپ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی طرح قسم دے کر ان سے بھی یہی سوال کیا اور انہوں نے بھی اقرار کیا ، پھر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خاصہ کیا تھا جو اور کسی کے لئے نہ تھا پھر آپ نے یہی آیت ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ Č۝ ) 59- الحشر:6 ) ، پڑھی اور فرمایا بنو نضیر کے مال اللہ تعالیٰ نے بطور فے کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے تھے اللہ کی قسم نہ تو میں نے تم پر اس میں کسی کو ترجیح دی اور نہ ہی خود ہی اس میں سے کچھ لے لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا اور اپنی اہل کا سال بھر کا خرچ اس میں سے لے لیتے تھے اور باقی مثل بیت المال کے کر دیتے تھے پھر ان چاروں بزرگوں کو اسی طرح قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمہیں یہ معلوم ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ، پھر ان دونوں سے قسم دے کر پوچھا اور انہوں نے ہاں کہی ۔ پھر فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے بعد ابو بکر والی بنے اور تم دونوں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، اے عباس تم تو اپنی قرابت داری جتا کر اپنے چچا زاد بھائی کے مال میں سے اپنا ورثہ طلب کرتے تھے اور یہی یعنی حضرت علی اپنا حق جتا کر اپنی بیوی یعنی حضرت فاطمہ کی طرف سے ان کے والد کے مال سے ورثہ طلب کرتے تھے جس کے جواب میں تم دونوں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابو بکر یقیناً راست گو ، نیک کار ، رشد و ہدایت والے اور تابع حق تھے ، چنانچہ اس مال کی ولایت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کی ، آپ کے فوت ہو جانے کے بعد آپ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ میں بنا اور وہ مال میری ولایت میں رہا ، پھر آپ دونوں ایک صلاح سے میرے پاس آئے اور مجھ سے اسے مانگا ، جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اگر تم اس شرط سے اس مال کو اپنے قبضہ میں کرو کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خرچ کرتے تھے تم بھی کرتے رہو گے تو میں تمہیں سونپ دیتا ہوں ، تم نے اس بات کو قبول کیا اور اللہ کو بیچ میں دے کر تم نے اس مال کی ولایت لی ، پھر تم جو اب آئے ہو تو کیا اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہو؟ قسم اللہ کی قیامت تک اس کے سوا اس کا کوئی فیصلہ میں نہیں کر سکتا ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر تم اپنے وعدے کے مطابق اس مال کی نگرانی اور اس کا صرف نہیں کر سکتے تو تم اسے پھر لوٹا دو تاکہ میں آپ اسے اسی طرح خرچ کروں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جس طرح خلافت صدیقی میں اور آج تک ہوتا رہا ۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کھجوروں کے درخت وغیرہ دے دیا کرتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے اموال آپ کے قبضہ میں آئے تو اب آپ نے ان لوگوں کو ان کو دیئے ہوئے مال واپس دینے شروع کئے ، حضرت انس کو بھی ان کے گھر والوں نے آپ کی خدمت میں بھیجا کہ ہمارا دیا ہوا بھی سب یا جتنا چاہیں ہمیں واپس کر دیں میں نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا آپ نے وہ سب واپس کرنے کو فرمایا ، لیکن یہ سب حضرت ام ایمن کو اپنی طرف سے دے چکے تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ یہ سب میرے قبضے سے نکل جائے گا تو انہوں نے آ کر میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور مجھ سے فرمانے لگیں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تجھے یہ نہیں دیں گے آپ تو مجھے وہ سب کچھ دے چکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام ایمن تم نہ گھبراؤ ہم تمہیں اس کے بدلے اتنا اتنا دیں گے لیکن وہ نہ مانیں اور یہی کہے چلی گئیں ، آپ نے فرمایا اچھا اور اتنا اتنا ہم تمہیں دیں گے لیکن وہ اب بھی خوش نہ ہوئیں اور وہی فرماتی رہیں ، آپ نے فرمایا لو ہم تمہیں اتنا اتنا اور دیں گے یہاں تک کہ جتنا انہیں دے رکھا تھا اس سے جب تقریباً دس گنا زیادہ دینے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب آپ راضی ہو کر خاموش ہوگئیں اور ہمارا مال ہمیں مل گیا ، یہ فے کا مال جن پانچ جگہوں میں صرف ہو گا یہی جگہیں غنیمت کے مال کے صرف کرنے کی بھی ہیں اور سورہ انفال میں ان کی پوری تشریح و توضیح کے ساتھ کامل تفسیر الحمد اللہ گذر چکی ہے اس لئے ہم یہاں بیان نہیں کرتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ مال فے کے یہ مصارف ہم نے اس لئے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیئے کہ یہ مالداروں کے ہاتھ لگ کر کہیں ان کا لقمہ بن بن جائے اور اپنی من مانی خواہشوں کے مطابق وہ اسے اڑائیں اور مسکینوں کے ہاتھ نہ لگے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جس کام کے کرنے کو میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کہیں تم اسے کرو اور جس کام سے وہ تمہیں روکیں تم اس سے رک جاؤ ۔ یقین مانو کہ جس کا وہ حکم کرتے ہیں وہ بھلائی کا کام ہوتا ہے اور جس سے وہ روکتے ہیں وہ برائی کا کام ہوتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور کہا آپ گودنے سے ( یعنی چمڑے پر یا ہاتھوں پر عورتیں سوئی وغیرہ سے گدوا کر جو تلوں کی طرح نشان وغیرہ بنا لیتی ہیں ) اس سے اور بالوں میں بال ملا لینے سے ( جو عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں ) منع فرماتے ہیں تو کیا یہ ممانعت کتاب اللہ میں ہے یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں؟ آپ نے فرمایا کتاب اللہ میں بھی اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی دونوں میں اس ممانعت کو پاتا ہوں اس عورت نے کہا اللہ کی قسم دونوں لوحوں کے درمیان جس قدر قرآن شریف ہے میں نے سب پڑھا ہے اور خوب دیکھ بھال کی ہے لیکن میں نے تو کہیں اس ممانعت کو نہیں پایا آپ نے فرمایا کیا تم نے آیت ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا Ċ۝ۘ ) 59- الحشر:7 ) نہیں پڑھی؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے ۔ فرمایا ( قرآن سے ثابت ہوا کہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ممانعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قابل عمل ہیں اب سنو ) خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے گودنے سے اور بالوں میں بال ملانے سے اور پیشانی اور چہرے کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے ( یہ بھی عورتیں اپنی خوبصورتی ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں اور اس زمانے میں تو مرد بھی بکثرت کرتے ہیں ) اس عورت نے کہا حضرت یہ تو آپ کی گھر والیاں بھی کرتی ہیں آپ نے فرمایا جاؤ دیکھو ، وہ گئیں اور دیکھ کر آئیں اور کہنے لگیں حضرت معاف کیجئے غلطی ہوئی ان باتوں میں سے کوئی بات آپ کے گھرانے والیوں میں میں نے نہیں دیکھی ، آپ نے فرمایا کیا تم بھول گئیں کہ اللہ کے نیک بندے ( حضرت شعیب علیہ السلام ) نے کیا فرمایا تھا ( وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ 88؀ ) 11-ھود:88 ) یعنی میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں جس چیز سے روکوں خود میں اس کا خلاف کروں ، مسند احمد اور بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے اس عورت پر جو گدوائے اور جو گودے اور جو اپنی پیشانی کے بال لے اور جو خوبصورتی کے لئے اپنے سامنے کے دانتوں کی کشادگی کرے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی پیدائش کو بدلنا چاہے ، یہ سن کر بنواسد کی ایک عورت جن کا نام ام یعقوب تھا آپ کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس طرح فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے؟ اور جو قرآن میں موجود ہے ، اس نے کہا میں نے پورا قرآن جتنا بھی دونوں پٹھوں کے درمیان ہے اول سے آخر تک پڑھا ہے لیکن میں نے تو یہ حکم کہیں نہیں پایا ، آپ نے فرمایا اگر تم سوچ سمجھ کر پڑھتیں تو ضرور پاتیں کیا تم نے آیت ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا Ċ۝ۘ ) 59- الحشر:7 ) نہیں پڑھی؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے پھر آپ نے وہ حدیث سنائی ، اس نے آپ کے گھر والوں کی نسبت کہا پھر دیکھ کر آئیں اور عذر خواہی کی اس وقت آپ نے فرمایا اگر میری گھر والی ایسا کرتی تو میں اس سے ملنا چھوڑ دیتا ، بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ ، نسائی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کے برتن میں ، سبز ٹھلیا میں ، کھجور کی لکڑی کے کریدے ہوئے برتن میں اور رال کی رنگی ہوئی ٹھلیا میں نبیذ بنانے سے یعنی کھجوریا کشمش وغیرہ کے بھگو کر رکھنے سے منع فرمایا ہے پھر اسی آیت کی تلاوت کی ( یاد رہے کہ یہ حکم اب باقی نہیں ہے ۔ مترجم ) پھر فرماتا ہے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کے احکام کی ممنوعات سے بچتے رہو ، یاد رکھو کہ اس کی نافرمانی مخالفت انکار کرنے والوں کو اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں کے کرنے والوں کو وہ سخت سزا اور درد ناک عذاب دیتا ہے ۔