Surah

Information

Surah # 59 | Verses: 24 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 101 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ مِنۡ اَهۡلِ الۡقُرٰى فَلِلّٰهِ وَلِلرَّسُوۡلِ وَلِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِۙ كَىۡ لَا يَكُوۡنَ دُوۡلَةًۢ بَيۡنَ الۡاَغۡنِيَآءِ مِنۡكُمۡ‌ ؕ وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا َنَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‌ۘ‏ ﴿7﴾
بستیوں والوں کا جو ( مال ) اللہ تعالٰی تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو ، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو ، یقیناً اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے ۔
ما افاء الله على رسوله من اهل القرى فلله و للرسول و لذي القربى و اليتمى و المسكين و ابن السبيل كي لا يكون دولة بين الاغنياء منكم و ما اتىكم الرسول فخذوه و ما نهىكم عنه فانتهوا و اتقوا الله ان الله شديد العقاب
And what Allah restored to His Messenger from the people of the towns - it is for Allah and for the Messenger and for [his] near relatives and orphans and the [stranded] traveler - so that it will not be a perpetual distribution among the rich from among you. And whatever the Messenger has given you - take; and what he has forbidden you - refrain from. And fear Allah ; indeed, Allah is severe in penalty.
Bastiyon walon ka jo ( maal ) Allah Taalaa tumharay laray bhiray baghair apney rasool kay haath lagaye woh Allah ka hai aur rasool ka aur qarabat walon ka aur yateemon miskeenon ka aur musafiron ka hai takay tumharay dolat mandon kay haath mein hi yeh maal gardish kerta na reh jaye aur tumhen jo kuch rasool dey ley lo aur jiss say rokay ruk jao aur Allah Taalaa say dartay raha kero yaqeenan Allah Taalaa sakht azab wala hai.
اللہ اپنے رسول کو ( دوسری ) بستیوں سے جو مال بھی فیئ کے طور پر دلوا دے ، تو وہ اللہ کا حق ہے اور اس کے رسول کا ، اور قرابت داروں کا ، اور یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا ، تاکہ وہ مال صرف انہی کے درمیان گردش کرتا نہ رہ جائے جو تم میں دولت مند لوگ ہیں ۔ اور رسول تمہیں جو کچھ دیں ، وہ لے لو ، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اللہ سخت سزا دینے و الا ہے ۔
جو غنیمت دلائی اللہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے ( ف۱۹ ) وہ اللہ اور رسول کی ہے اور رشتہ داروں ( ف۲۰ ) اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے کہ تمہارے اغنیا کا مال نہ جائے ( ف۹۲۱ اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو ( ف۲۲ ) اور جس سے منع فرمائیں باز رہو ، اور اللہ سے ڈرو ( ف۲۳ ) بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے ( ف۲٤ )
جو کچھ بھی اللہ ان بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کے لیئے 13 ہے تا کہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے 14 ۔ جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو ، اللہ سخت سزا دینے والا 15ہے ۔
جو ( اَموالِ فَے ) اللہ نے ( قُرَیظہ ، نَضِیر ، فِدَک ، خَیبر ، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ ) بستیوں والوں سے ( نکال کر ) اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لئے ہیں اور ( رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ) قرابت داروں ( یعنی بنو ہاشم اور بنو المطّلب ) کے لئے اور ( معاشرے کے عام ) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں ، ( یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے ) تاکہ ( سارا مال صرف ) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے ( بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے ) ۔ اور جو کچھ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو ( اُس سے ) رُک جایا کرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ( یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو ) ، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :13 پچھلی آیت میں صرف اتنی بات ارشاد ہوئی تھی کہ ان اموال کو حملہ آور فوج میں غنائم کی طرح تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے ، اور کیوں ان کا شرعی حکم غنائم سے الگ ہے ۔ اب اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اموال کے حقدار کون ہیں ۔ ان میں سب سے پہلا حصہ اللہ اور رسول کا ہے ۔ اس حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح عمل کیا اس کی تفصیل مالک بن اوس بن الحدثان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حصہ میں سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر خرچ فرمائے تھے ( بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی وغیرہ ) ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حصہ مسلمانوں کے بیت المال کی طرف منتقل ہو گیا تاکہ یہ اس مشن کی خدمت پر صرف ہو جو اللہ نے اپنے رسول کے سپرد کیا تھا ۔ امام شافعی سے یہ رائے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ خاص کے لیے جو حصہ تھا وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کے لیے ہے ، کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب امامت کی بنا پر تھے نہ کہ منصب رسالت کی بنا پر ۔ مگر فقہائے شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملہ میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے ، کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے ۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے ، اور ان سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں ، یعنی بنی ہاشم اور بنی المُطلّب ۔ یہ حصہ اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا فرما سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہوں ، یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا ، بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین ، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطّلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہو گئے ، البتہ اس بنا پر ان کا حق دوسروں پر فائق سمجھا گیا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پہلے دو حصہ ساقط کر کے صرف باقی تین حصے ( یتامیٰ ، مساکین و ابن السبیل ) فَے کے حقداروں میں شامل رہنے دیے گئے ، پھر اسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے زمانہ میں عمل کیا ۔ محمد بن اسحاق نے امام محمد باقر کا قول نقل کیا ہے کہ اگرچہ حضرت علی کی ذاتی رائے وہی تھی جو ان کے اہل بیت کی رائے تھی ( کہ یہ حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ) لیکن انہوں نے ابوبکر و عمر کی رائے کے خلاف عمل کرنا پسند نہ فرمایا ۔ حسن بن محمد بن حَنَفِیہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان دونوں حصوں ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے اور ذوی القربیٰ کے حصے ) کے متعلق اختلاف رائے تھی کہ دوسرا حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ دوسرا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کو دیا جانا چاہئے ۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہو گیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کی ضروریات پر صرف کیے جائیں ۔ عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کر دیا تھا ۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہی عمل صحیح ہے جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں جاری تھا ( کتاب الخراج 11 ، لابی یوسف ، صفحہ 19تا21 ) امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہاشمی و مُطلبی ہونا ثابت ہو یا عام طور پر معلوم و معروف ہو ان کے غنی و فقیر ، دونوں طرح کے اشخاص کو فَے میں سے مال دیا جا سکتا ہے ۔ ( مغنی المحتاج ) ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ صرف ان کے محتاج لوگوں کی اس مال سے مدد کی جا سکتی ہے ، البتہ ان کا حق دوسروں پر فائق ہے ۔ ( روح المعانی ) ۔ امام مالک کے نزدیک اس معاملہ میں حکومت پر کوئی پابندی نہیں ہے ، جس مد میں جس طرح مناسب سمجھے صرف کرے ۔ مگر اَدنیٰ یہ ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مقدم رکھے ۔ ( حاشیہ الدّسوقی علی الشرح الکبیر ) ۔ باقی تین حصوں کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی بحث نہیں ہے ۔ البتہ امام شافعی اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فَے کے جملہ اموال کو پانچ برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک حصہ مذکورہ بالا مصارف پر اس طرح صرف کیا جانا چاہیے کہ اس کا 5/1مصالح مسلمین پر ، 5/1 بنی ہاشم و بنی المطلب پر ، 5/1 مساکین پر اور 5/1 مسافروں پر صرف کیا جائے ۔ بخلاف اس کے امام مالک ، امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں ، اور ان کی رائے یہ ہے کہ فَے کا پورا مال مصالح مسلمین کے لیے ہے ۔ ( مغنی المحتاج ) ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :14 یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہے ، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے ، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں ۔ قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان ہی کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اسی مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا ہے ، زکوٰۃ فرض کی گئی ہے ، اموال غنیمت میں خمس نکالنے کا حکم دیا گیا ، صدقات نافلہ کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے ، مختلف قسم کے کفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھیر دیا جائے ، میراث کا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے ، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے ، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ہی انہیں ادا کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کی آمدنی کے ایک بہت بڑے ذریعہ ، یعنی فَے کے متعلق یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اس کا ایک حصہ لازماً معاشرے کے غریب طبقات کو سہارا دینے کے لیے صرف کیا جائے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدات دو ہیں ۔ ایک زکوٰۃ ، دوسرے فَے ۔ زکوٰۃ مسلمانوں کو پورے زائد از نصاب سرمائے ، مواشی ، اموال تجارت اور زرعی پیداوار سے وصول کی جاتی ہے اور وہ زیادہ تر غریبوں ہی کے لیے مخصوص ہے ۔ اور فَے میں جزیہ و خراج سیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوں ، اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے ۔ یہ کھلا ہوا اشارہ اس طرف ہے کہ ایک اسلامی حکومت کو اپنی آمدنی و خرچ کا نظام ، اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو ، اور دولت کا بہاؤ نہ غریبوں سے امیروں کی طرف ہونے پائے نہ وہ امیروں ہی میں چکر لگاتی رہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :15 سلسلہ بیان کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اموال بنی نضیر کے انتظام اور اسی طرح بعد کے اموال فَے کی تقسیم کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو فیصلہ فرمائیں اسے بے چوں و چرا تسلیم کر لو ، جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو دیں وہ اسے لے لے ، اور جو کسی کو نہ دیں وہ اس پر کوئی احتجاج یا مطالبہ نہ کرے ۔ لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں ، اس لیے یہ صرف اموال فَے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے ، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں ۔ اس منشا کو یہ بات اور زیادہ واضح کر دیتی ہے کہ جو کچھ رسول تمہیں دے کے مقابلہ میں جو کچھ نہ دے کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئے ہیں ، بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ جس چیز سے وہ تمہیں روک دے ( یا منع کر دے ) اس سے رک جاؤ ۔ اگر حکم کا مقصد صرف اموال فَے کی تقسیم کے معاملہ تک اطاعت کو محدود کرنا ہوتا تو جو کچھ دے کے مقابلہ میں جو کچھ نہ دے فرمایا جاتا ۔ منع کرنے یا روک دینے کے الفاظ اس موقع پر لانا خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکم کا مقصود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کی اطاعت ہے ۔ یہی بات ہے جو خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اذا امرتکم بامر فائتوا منہ ما استطعتم وما نھیتم عنہ فاجتنبوہ جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو ۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو ۔ ( بخاری ۔ مسلم ) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اس تقریر کو سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا یہ بات آپ نے کہاں سے اخذ کی ہے؟ کتاب اللہ میں تو یہ مضمون کہیں میری نظر سے نہیں گزرا ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو نے اگر اللہ کی کتاب پڑھی ہوتی تو یہ بات ضرور تجھے اس میں مل جاتی ۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ مَآ اٰتکُمُ الرَّسُولُ فخذوہُ ومَا نھٰکم عنہ فانتھوا ؟ اس نے عرض کیا ، ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ایسا فعل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ عورت نے عرض کیا اب میں سمجھ گئی ۔ ( بخاری ۔ مسلم ۔ مسند احمد ۔ مسُند ابن ابی حاتم )