Surah

Information

Surah # 59 | Verses: 24 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 101 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَالَّذِيۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالۡاِيۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ يُحِبُّوۡنَ مَنۡ هَاجَرَ اِلَيۡهِمۡ وَلَا يَجِدُوۡنَ فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَيُـؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٌ ؕ وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿9﴾
اور ( ان کے لئے ) جنہوں نے اس گھر میں ( یعنی مدینہ ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو ( بات یہ ہے ) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب ( اور با مراد ) ہے ۔
و الذين تبوؤ الدار و الايمان من قبلهم يحبون من هاجر اليهم و لا يجدون في صدورهم حاجة مما اوتوا و يؤثرون على انفسهم و لو كان بهم خصاصة و من يوق شح نفسه فاولىك هم المفلحون
And [also for] those who were settled in al-Madinah and [adopted] the faith before them. They love those who emigrated to them and find not any want in their breasts of what the emigrants were given but give [them] preference over themselves, even though they are in privation. And whoever is protected from the stinginess of his soul - it is those who will be the successful.
Aur ( unn kay liye ) jinhon ney iss ghar mein ( yani madina ) aur eman mein inn say pehlay jagah bana li hai aur apni taraf hijrat ker kay aaney walon say mohabbat kertay hain aur mohajireen ko jo kuch dey diya jaye iss say woh apney dilon mein koi tangi nahi rakhtay bulkay khud apney upper enhen tarjeeh detay hain go khud ko kitni hi sakht haajat ho ( baat yeh hai ) kay jo bhi apney nafs kay bukhul say bachaya gaya wohi kaamyaab ( aur baa murad ) hai.
۔ ( اور یہ مال فیئ ) ان لوگوں کا حق ہے جو پہلے ہی سے اس جگہ ( یعنی مدینہ میں ) ایمان کے ساتھ مقیم ہیں ۔ ( ٧ ) جو کوئی ان کے پاس ہجرت کے آتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں ، اور جو کچھ ان ( مہاجرین ) کو دیا جاتا ہے ، یہ اپنے سینوں میں اس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے ، اور ان کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں ، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گذر رہی ہو ۔ ( ٨ ) اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں ، وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں ۔
اور جنہوں نے پہلے سے ( ف۲۹ ) اس شہر ( ف۳۰ ) اور ایمان میں گھر بنالیا ( ف۳۱ ) دوست رکھتے ہیں انہیں جو ان کی طرف ہجرت کرکے گئے ( ف۳۲ ) اور اپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے ( ف۳۳ ) اس چیز کو جو دیے گئے ( ف۳٤ ) اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں ( ف۳۵ ) اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو ( ف۳٦ ) اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا ( ف۳۷ ) تو وہی کامیاب ہیں ،
۔ ( اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے ) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم تھے 17 ۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں 18 ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں 19 ۔
۔ ( یہ مال اُن انصار کے لئے بھی ہے ) جنہوں نے اُن ( مہاجرین ) سے پہلے ہی شہرِ ( مدینہ ) اور ایمان کو گھر بنا لیا تھا ۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں ۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس ( مال ) کی نسبت کوئی طلب ( یا تنگی ) نہیں پاتے جو اُن ( مہاجرین ) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو ، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :17 مراد ہیں انصار ۔ یعنی فَے میں صرف مہاجرین ہی کا حق نہیں ہے ، بلکہ پہلے سے جو مسلمان دار الاسلام میں آباد ہیں وہ بھی اس میں سے حصہ پانے کے حق دار ہیں ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :18 یہ تعریف ہے مدینہ طیبہ کے انصار کی ۔ مہاجر جب مکہ اور دوسرے مقامات سے ہجرت کر کے ان کے شہر میں آئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پیش کش کی کہ ہمارے باغ اور نخلستان حاضر ہیں ، آپ انہیں ہمارے اور ان مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ تو باغبانی نہیں جانتے ، یہ اس علاقے سے آئے ہیں جہاں باغات نہیں ہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنے ان باغوں اور نخلستانوں میں کام تم کرو اور پیداوار میں سے حصہ ان کو دو؟ انہوں کہا سمعنا و اطعنا ( بخاری ، ابن جریر ) ۔ اس پر مہاجرین نے عرض کیا ہم نے کبھی ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اس درجہ ایثار کرنے والے ہوں ۔ یہ کام خود کریں گے اور حصہ ہم کو دیں گے ۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ سارا اجر یہی لوٹ لے گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتے رہو گے ، تم کو بھی اجر ملتا رہے گا ( مسند احمد ) ۔ پھر جب بنی النضیر کا علاقہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب بندوبست کی ایک شکل یہ ہے کہ تمہاری املاک اور یہودیوں کے چھوڑے ہوئے باغات اور نخلستانوں کو ملا کر ایک کر دیا جائے اور پھر اس پورے مجموعے کو تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دیا جائے ۔ اور دوسری شکل یہ ہے کہ تم اپنی جائدادیں اپنے پاس رکھو اور یہ متروکہ اراضی مہاجرین میں بانٹ دی جائیں ۔ انصار نے عرض کیا یہ جائدادیں آپ ان میں بانٹ دیں ، اور ہماری جائدادوں میں سے بھی جو کچھ آپ چاہیں ان کو دے سکتے ہیں ۔ اس پر حضرت ابوبکر پکار اٹھے جزاکم اللہ یا معشر الانصار خیراً ( یحیٰ بن آدم ۔ بَلَاذری ) ۔ اس طرح انصار کی رضا مندی سے یہودیوں کے چھوڑے ہوئے اموال مہاجرین ہی میں تقسیم کیے گئے اور انصار میں سے صرف حضرت ابو دجانہ ، حضرت سہل بن حنیف اور ( بروایت بعض ) حضرت حارث بن الصمہ کو حصہ دیا گیا ، کیونکہ یہ حضرات بہت غریب تھے ( بلاذری ۔ ابن ہشام ۔ روح المعانی ) ۔ اسی ایثار کا ثبوت انصار نے اس وقت دیا جب بحرین کا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اس علاقے کی مفتوحہ اراضی انصار کو دی جائیں ، مگر انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس میں سے کوئی حصہ نہ لیں گے جب تک اتنا ہی ہمارے مہاجر بھائیوں کو نہ دیا جائے ( یحیٰ بن آدم ) ۔ انصار کا یہی وہ ایثار ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :19 بچ گئے نہیں فرمایا گیا بلکہ بچا لیے گئے ارشاد ہوا ہے ، کیونکہ اللہ کی توفیق اور اس کی مدد کے بغیر کوئی شخص خود اپنے زور بازو سے دل کی تونگری نہیں پا سکتا ۔ یہ خدا کی وہ نعمت ہے جو خدا ہی کے فضل سے کسی کو نصیب ہوتی ہے ۔ شُح کا لفظ عربی زبان میں کنجوسی اور بخل کے لیے استعمال ہوتا ہے ، مگر جب اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کر کے شح نفس کہا جائے تو یہ تنگ نظری ، تنگ دلی ، کم حوصلگی ، اور دل کے چھوٹے پن کا ہم معنی ہو جاتا ہے جو بخل سے وسیع تر چیز ہے ، بلکہ خود بخل کی بھی اصل جڑ وہی ہے ۔ اسی صفت کی وجہ سے آدمی دوسرے کا حق ماننا اور ادا کرنا تو درکنار اس کی خوبی کا اعتراف تک کرنے سے جی چراتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ اسی کو مل جائے اور کسی کو کچھ نہ ملے ۔ دوسروں کو خود دینا تو کجا ، کوئی دوسرا بھی اگر کسی کو کچھ دے تو اس کا دل دکھتا ہے ۔ اس کی حرص کبھی اپنے حق پر قانع نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے ، یا کم از کم دل سے یہ چاہتا ہے کہ اس کے گرد و پیش دنیا میں جو اچھی چیز بھی ہے اسے پنے لیے سمیٹ لے اور کسی کے لیے کچھ نہ چھوڑے ۔ اسی بنا پر قرآن میں اس برائی سے بچ جانے کو فلاح کی ضمانت قرار دیا گیا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ان بد ترین انسانی اوصاف میں شمار کیا ہے جو فساد کی جڑ ہیں ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتقوا الشح فان الشح اھلک من قبلکم ، حملھم علیٰ ان سفکوا دماء ھم واستحلوا محارمھم ( مسلم ، مسند احمد ، بیہقی ، بخاری فی الادب ) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں الفاظ یہ ہیں : امرھم بالظلم فظلموا وامرھم بالفجور ففجروا ، وامرھم بالقطیعۃ فقطعوا ( مسند احمد ، ابو داؤد ، نسائی ) ۔ یعنی شُح سے بچو کیونکہ شُح ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ۔ اسی نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لیے حلال کر لینے پر اکسایا ۔ اس نے ان کو ظلم پر آمادہ کیا اور انہوں نے ظلم کیا ، فجور کا حکم دیا اور انہوں نے فجور کیا ، قطع رحمی کرنے کے لیے کہا اور انہوں نے قطع رحمی کی ۔ حضرت ابوہُریرہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان اور شح نفس کسی کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے ( ابن ابی شیبہ ، نسائی ، بیہقی فی شعبِ الایمان ، حاکم ) ۔ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دو خصلتیں ہیں جو کسی مسلمان کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں ، بخل اور بد خلقی ( ابوداؤد ، ترمذی ، بخاری فی الادب ) ۔ اسلام کی اسی تعلیم کا ثمرہ ہے کہ افراد سے قطع نظر ، مسلمان بحیثیت قوم دنیا میں آج بھی سب سے بڑھ کر فیاض اور فراخ دل ہیں ۔ جو قومیں ساری دنیا میں تنگ دلی اور بخیلی کے اعتبار سے اپنی نظیر نہیں رکھتیں ، خود انہی میں سے نکلے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں مسلمان اپنے ہم نسل غیر مسلموں کے سایہ بسایہ رہتے ہیں ۔ دونوں کے درمیان دل کی فراخی و تنگی کے اعتبار سے جو صریح فرق پایا جاتا ہے اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ یہ اسلام کی اخلاقی تعلیم کا فیض ہے جس نے مسلمانوں کے دل بڑے کر دیے ہیں ۔