Surah

Information

Surah # 59 | Verses: 24 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 101 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَالَّذِيۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿10﴾
اور ( ان کے لئے ) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ ( اور دشمنی ) نہ ڈال اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے ۔
و الذين جاءو من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا و لاخواننا الذين سبقونا بالايمان و لا تجعل في قلوبنا غلا للذين امنوا ربنا انك رءوف رحيم
And [there is a share for] those who came after them, saying, "Our Lord, forgive us and our brothers who preceded us in faith and put not in our hearts [any] resentment toward those who have believed. Our Lord, indeed You are Kind and Merciful."
Aur ( unn kay liye ) jo inn kay baad aayen jo kahen gay kay aey huamray perwerdigar humen baksh dey aur humaray unn bhaiyon ko bhi jo hum say pehlay eman laa chukay hain aur eman daaron ki taraf say humaray dil mein keena ( aur dushmani ) naa daal aey humaray rab be-shak tu shafqat aur meharbani kerney wala hai.
اور ( یہ مال فیئ ) ان لوگوں کا بھی حق ہے جو ان ( مہاجرین اور انصار ) کے بعد آئے ۔ ( ٩ ) وہ یہ کہتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہماری بھی مغفرت فرمایئے ، اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں ، اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی بغض نہ رکھیے ۔ اے ہمارے پروردگار ! آپ بہت شفیق ، بہت مہربان ہیں ۔
اور وہ جو ان کے بعد آئے ( ف۳۸ ) عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ ( ف۳۹ ) اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے ،
۔ ( اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے ) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں ، 20 ۔ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ، ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیئے کوئی بغض نہ رکھ ، اے ہمارے رب ، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے 21 ۔ ع
اور وہ لوگ ( بھی ) جو اُن ( مہاجرین و انصار ) کے بعد آئے ( اور ) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی ، جو ایمان لانے میں ہم سے آگے بڑھ گئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کوئی کینہ اور بغض باقی نہ رکھ ۔ اے ہمارے رب! بیشک تو بہت شفقت فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :20 یہاں تک جو احکام ارشاد ہوئے ہیں ان میں یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ فَے میں اللہ اور رسول اور اقربائے رسول ، اور یتامیٰ اور مساکین اور ابن السبیل ، اور مہاجرین اور انصار ، اور قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں کے حقوق ہیں ۔ قرآن پاک کا یہی وہ اہم قانونی فیصلہ ہے جس کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق ، شام اور مصر کے مفتوحہ ممالک کی اراضی اور جائدادوں کا اور ان ممالک کی سابق حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کی املاک کا نیا بندوبست کیا ۔ یہ ممالک جب فتح ہوئے تو بعض ممتاز صحابہ کرام نے ، جن میں حضرت زبیر ، حضرت بلال ، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت سلمان فارسی ( رضی اللہ عنہم ) جیسے بزرگ شامل تھے ، اصرار کیا کہ ان کو ان افواج میں تقسیم کر دیا جائے جنہوں نے لڑ کر انہیں فتح کیا ہے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ اموال فَمَآ اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ کی تعریف میں نہیں آتے بلکہ ان پر تو مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر انہیں جیتا ہے ، اس لیے بجز ان شہروں اور علاقوں کے جنہوں نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کی ہے ، باقی تمام مفتوحہ ممالک غنیمت کی تعریف میں آتے ہیں اور ان کا شرعی حکم یہ ہے کہ ان کی اراضی اور ان کے باشندوں کا پانچواں حصہ بیت المال کی تحویل میں دے دیا جائے ، اور باقی چار حصے فوج میں تقسیم کر دیے جائیں ، لیکن یہ رائے اس بنا پر صحیح نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جو علاقے لڑ کر فتح کیے گئے تھے ان میں سے کسی کی اراضی اور باشندوں کو بھی حضور نے غنائم کیطرح خمس نکالنے کے بعد فوج میں تقسیم نہیں فرمایا تھا ۔ آپ کے زمانے کی دو نمایاں ترین مثالیں فتح مکہ اور فتح خیبر کی ہیں ۔ ان میں سے مکہ معظمہ کو تو آپ نے جوں کا توں اس کے باشندوں کے حوالہ فرما دیا ۔ رہا خیبر ، تو اس کے متعلق حضرت بشیر بن یسار کی روایت ہے کہ آپ نے اس کے 36 حصے کیے ، اور ان میں سے 18 حصے اجتماعی ضروریات کے لیے وقف کر کے باقی 18 حصے فوج میں تقسیم فرما دیے ( ابو داؤد ، بیہقی ، کتاب الاموال لابی عبید ، کتاب الخراج لیحیحیٰ بن آدم ، فتوح البلدان للبلاذری ، فتح القدیر لابن ہمام ) ۔ حضور کے اس عمل سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اراضی مفتوحہ کا حکم ، اگرچہ وہ لڑ کر ہی فتح ہوئی ہوں ، غنیمت کا نہیں ہے ، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ حضور مکہ کو تو بالکل ہی اہل مکہ کے حوالہ فرما دیتے ، اور خیبر میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بجائے اس کا پورا نصف حصہ اجتماعی ضروریات کے لیے بیت المال کی تحویل میں لے لیتے ۔ پس سنت سے جو بات ثابت تھی وہ یہ کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کے معاملہ میں امام وقت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں جو فیصلہ بھی مناسب ترین ہو کر ے ۔ وہ ان کو تقسیم بھی کر سکتا ہے ۔ اور اگر کوئی غیر معمولی نوعیت کسی علاقے کی ہو ، جیسی مکہ معظمہ کی تھی ، تو اس کے باشندوں کے ساتھ وہ احسان بھی کر سکتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے ساتھ کیا ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چونکہ فتوحات کی کثرت نہ ہوئی تھی ، اور مختلف اقسام کے مفتوحہ ممالک کا الگ الگ حکم کھل کر لوگوں کے سامنے نہ آیا تھا ، اس لیے حضرت عمر کے زمانے میں جب بڑے بڑے ممالک فتح ہوئے تو صحابہ کرام کو اس الجھن سے سابقہ پیش آیا کہ بزور شمشیر فتح ہونے والے علاقے آیا غنیمت ہیں یا فَے ۔ مصر کی فتح کے بعد حضرت زبیر نے مطالبہ کیا کہ : اقسمھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر ، اس پورے علاقے کو اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا ( ابوعبید ) ۔ شام اور عراق کے مفتوحہ علاقوں کے متعلق حضرت بلال نے اصرار کیا کہ اقسم الارَضِین بین الذین افتتحوھا کما تقسم غنیمۃ العسکر ۔ تمام اراضی کو فاتح فوجوں کے درمیان اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے ( کتاب الخراج ، ابو یوسف ) دوسری طرف حضرت علی کی رائے یہ تھی کہ دعھم یکونوا مادۃً للمسلمین ۔ ان زمینوں کو ان کے کاشتکاروں کے پاس رہنے دیجیے تاکہ یہ مسلمانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنے رہیں ( ابو یوسف ، ابو عبید ) ۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل کی رائے یہ تھی کہ اگر آپ نے تقسیم کیا تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے ۔ اس تقسیم کی بدولت بڑی بڑی جائدادیں ان چند لوگوں کے قبضے میں چلی جائیں گی جنہوں نے یہ علاقے فتح کیے ہیں ۔ پھر یہ لوگ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور ان کی جائدادیں ان کے وارثوں کے پاس رہ جائیں گی ، جن میں بسا اوقات کوئی ایک ہی عورت ہو گی یا کوئی ایک مرد ہو گا ، لیکن آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ رہے گا جس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے مصارف بھی پورے کیے جا سکیں ۔ لہٰذا آپ ایسا بندوبست کریں جس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفاد کا یکساں تحفظ ہو ( ابو عبید ص 59 ۔ فتح الباری ، ج 6 ، ص 138 ) ۔ حضرت عمر نے حساب لگا کر دیکھا کہ اگر سواد عراق کو تقسیم کیا جائے تو فی کس کیا حصہ پڑے گا ۔ معلوم ہوا کہ دو تین فلاح فی کس کا اوسط پڑتا ہے ( ابو یوسف ، ابو عبید ) ۔ اس کے بعد انہوں نے شرح صدر کے ساتھ یہ رائے قائم کر لی کہ ان علاقوں کو تقسیم نہ ہونا چاہیے ۔ چنانچہ انہوں نے تقسیم کا مطالبہ کر نے والے مختلف اصحاب کو جو جوابات دیے وہ یہ تھے : تریدون ان یاتی اٰخر الناس لیس لہم شئٍ ( ابو عبید ) کیا آپ چاہتے ہیں کہ بعد کے لوگ اس حالت میں آئیں کہ ان کے لیے کچھ نہ ہو؟ فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلوجھا قد اقتسمت و ورثت عن الابآء و حیزت؟ ما ھٰذا برائی ( ابو یوسف ) ۔ ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے اور حالت یہ پائیں گے کہ زمین اپنے کسانوں سمیت بٹ چکی ہے اور باپ دادا سے لوگوں نے وراثت میں سنبھال لی ہے؟ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے ۔ فما لمن جاء بعدکم من المسلمین واخاف ان قسمتہ ان تفاسدوا بینکم فی المیاہ ( ابو عبید ) تمہارے بعد آنے والے مسلمانوں کے لیے کیا رہے گا ؟ اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں اسے تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں لڑو گے ۔ لولا اٰخر الناس ما فتحت قریَۃ الا قسمتھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر ( بخاری ، موطّا ، ابو عبید ) ۔ اگر بعد میں آنے والوں کا خیال نہ ہوتا تو جو علاقہ بھی میں فتح کرتا اسے تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا ۔ لا: ھٰذا عین المال ، ولکنی احبسہ فیما یجری علیھم وعلی المسلمین ۔ ( ابو عبید ) ۔ نہیں ، یہ تو عین المال ( Real estate ) ہے ۔ میں اسے روک رکھوں گا تاکہ فاتح فوجوں اور عام مسلمانوں ، سب کی ضروریات اس سے پوری ہوتی رہیں ۔ لیکن ان جوابات سے لوگ مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ظلم کر رہے ہیں ۔ آخر کار حضرت عمر نے مجلس شوریٰ کا اجتماع منعقد کیا اور اس کے سامنے یہ معاملہ رکھا ۔ اس موقع پر جو تقریر آپ نے کی اس کے چند فقرے یہ ہیں : میں نے آپ لوگوں کو صرف اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ اس امانت کے اٹھانے میں میرے ساتھ شریک ہوں جس کا بار آپ کے معاملات کو چلانے کے لیے میرے اوپر رکھا گیا ہے ۔ میں آپ ہی لوگوں میں سے ایک فرد ہوں ، اور آپ وہ لوگ ہیں جو آج حق کا اقرار کرنے والے ہیں ۔ آپ میں سے جو چاہے میری رائے سے اتفاق کرے اور جو چاہے اختلاف کرے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں ۔ آپ کے پاس کتاب اللہ ہے جو ناطق بالحق ہے ۔ خدا کی قسم میں نے اگر کوئی بات کہی ہے جسے میں کرنا چاہتا ہوں تو اس سے میرا مقصد حق کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ …………… آپ ان لوگوں کی بات سن چکے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کروں ۔ میں بڑا شقی ہوں گا اگر ظلم کر کے کوئی ایسی چیز جو فی الواقع ان کی ہو ، انہیں نہ دوں اور کسی دوسرے کو دے دوں ۔ مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی اور علاقہ فتح ہونے والا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایرانیوں کے مال اور ان کی زمینیں اور ان کے کسان ، سب ہمارے قبضے میں دے دیے ہیں ۔ ہماری فوجوں نے جو غنائم حاصل کیے تھے وہ تو میں خمس نکال کر ان میں بانٹ چکا ہوں ، اور ابھی جو غنائم تقسیم نہیں ہوئے ہیں ، میں ان کو بانٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہوں ۔ البتہ زمینوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ انہیں اور ان کے کسانوں کو تقسیم نہ کروں ، بلکہ ان پر خراج اور کسانوں پر جزیہ لگا دوں جسے وہ ( ہمیشہ ادا کرتے رہیں اور یہ اس وقت کے عام مسلمانوں اور لڑنے والی فوجوں اور مسلمانوں کے بچوں کے لیے اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے فَے ہو ۔ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہماری ان سرحدوں کے لیے لازماً ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت کرتے رہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے ملک ، شام ، الجزیرہ ، کوفہ ، بصرہ ، مصر ، ان سب میں فوجیں رہنی چاہیں اور ان کو پابندی سے تنخواہیں ملنی چاہیں؟ اگر میں ان زمینوں کو ان کے کسانوں سمیت تقسیم کر دوں تو یہ مصارف کہاں سے آئیں گے؟ یہ بحث دو تین دن چلتی رہی ۔ حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت عبداللہ بن عمر ( رضی اللہ عنہم ) وغیرہ حضرات نے حضرت عمر کی رائے سے اتفاق کیا ، لیکن فیصلہ نہ ہوسکا ۔ آخر کار حضرت عمر اٹھے اور انہوں نے فرمایا کہ مجھے کتاب اللہ سے ایک حجت مل گئی ہے جو اس مسئلے کا فیصلہ کر دینے والی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے سورہ حشر کی یہی آیات مَآ اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مِنْھُمْ سے لے کر رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ تک پڑھیں ، اور ان سے یہ استدلال کیا کہ اللہ کی عطا کردہ ان املاک میں صرف اس زمانے کے لوگوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی اللہ نے ان کے ساتھ شریک کیا ہے ، پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اس فَے کو جو سب کے لیے ہے ، ہم ان فاتحین میں تقسیم کر دیں اور بعد والوں کے لیے کچھ نہ چھوڑیں؟ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ ، تاکہ یہ مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے ۔ لیکن اگر میں اسے فاتحین میں تقسیم کر دوں تو یہ تمہارے مالداروں ہی میں چکر لگاتا رہے گا اور دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے گا ۔ یہ دلیل تھی جس نے سب کو مطمئن کر دیا اور اس بات پر اجماع ہو گیا کہ ان تمام مفتوحہ علاقوں کو عامہ مسلمین کے لیے فَے قرار دیا جائے ، جو لوگ ان اراضی پر کام کر رہے ہیں انہیں کے ہاتھوں میں انہیں رہنے دیا جائے اور ان پر خراج اور جزیہ لگا دیا جائے ( کتاب الخراج لابی یوسف ، صفحہ 23 تا 27 و 35 احکام القرآن للجصاص ) ۔ اس فیصلے کے مطابق اراضی مفتوحہ کی اصل حیثیت یہ قرار پائی کہ مسلم ملت بحیثیت مجموعی ان کی مالک ہے ، جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر کام کر رہے تھے ان کو ملت نے اپنی طرف سے بطور کاشتکار بر قرار رکھا ہے ، وہ ان اراضی پر اسلامی حکومت کو ایک مقرر لگان ادا کرتے رہیں گے ، نسلاً بعد نسلٍ یہ کاشتکارانہ حقوق ان کی میراث میں منتقل ہوتے رہیں گے اور وہ ان حقوق کو فروخت بھی کر سکیں گے ، مگر زمین کے اصل مالک وہ نہ ہونگے بلکہ مسلم ملت ان کی مالک ہو گی ۔ امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں اس قانونی پوزیشن کو اس طرح بیان کیا ہے ۔ اقر اھل السواد فی ارضیھم و ضرب علی رؤسھم الجزیۃ و علیٰ اَرَضِیھم الطسق ( ص 57 ) ۔ حضرت عمر نے سواد عراق کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا ، اور ان کے افاد پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر ٹیکس لگا دیا ۔ اذا اقرّ الامام اھل العَنْوۃ فی ارضھم توارثوھا و تبایعوھا ( ص 84 ) ۔ امام ( یعنی اسلامی حکومت کا فرمانروا ) جب مفتوحہ ممالک کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھے تو وہ ان اراضی کو میراث میں بھی منتقل کر سکیں گے اور بیع بھی کر سکیں گے ۔ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں شعبی سے پوچھا گیا کیا سواد عراق کے لوگوں سے کوئی معاہدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ معاہدہ تو نہیں ہے ، مگر جب ان سے خراج لینا قبول کر لیا گیا تو یہ ان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ( ابوعبید ، ص49 ۔ ابویوسف ص 28 ) ۔ حضرت عمر کے زمانہ میں عتبہ بن فَرقَد نے فُرات کے کنارے ایک زمین خریدی ۔ حضرت عمر نے ان سے پوچھا تم نے یہ زمین کس سے خریدی ہے؟ انہوں نے کہا اس کے مالکوں سے ۔ حضرت عمر نے فرمایا اس کے مالک تو یہ لوگ ہیں ( یعنی مہاجرین و انصار ) ۔ رأیٰ عمران اصل الارض للمسلمین ، عمر کی رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کے اصل مالک مسلمان ہیں ( ابو عبید ، ص 74 ) ۔ اس فیصلے کی رو سے ممالک مفتوحہ کے جو اموال مسلمانوں کی اجتماعیہ ملکیت قرار دیے گئے وہ یہ تھے : وہ زمینیں اور علاقے جو کسی صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں ۔ وہ فدیہ یا خراج یا جزیہ جو کسی علاقے کے لوگوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں سے امان حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا قبول کیا ہو ۔ وہ اراضی اور جائدادیں جن کے مالک انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ وہ جائدادیں جن کے مالک مرے گئے اور کوئی مالک باقی نہ رہا ۔ وہ اراضی جو پہلے سے کسی کے قبضے میں نہ تھیں ۔ وہ اراضی جو پہلے سے لوگوں کے قبضے میں تھیں مگر ان کے سابق مالکوں کو برقرار رکھ کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا گیا ۔ سابق حکمراں خاندانوں کی جاگیریں ۔ سابق حکومتوں کی املاک ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو بدائع الصنائع ، ج7 ، ص 116 ۔ 118 ۔ کتاب الخراج ، یحیٰ بن آدم ، ص 22 ۔ 64 ۔ مغنی المحتاج ، ج 3 ص 93 ۔ حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر ، ج 2 ، ص 190 ۔ غانیۃ المنتبہیٰ ، ج 1 ، ص 467 ۔ 471 ) ۔ یہ چیزیں چونکہ صحابہ کرام کے اتفاق سے فَے قرار دی گئی تھیں ، اس لیے فقہائے اسلام کے درمیان بھی ان کے فَے قرار دیے جانے پر اصولاً اتفاق ہے ۔ البتہ اختلاف چند امور میں ہے جنہیں ہم مختصراً ذیل میں بیان کرتے ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کی اراضی کے معاملہ میں اسلامی حکومت ( فقہاء کی اصطلاح میں امام ) کو اختیار ہے ، چاہے تو ان میں سے خمس لے کر باقی فاتح فوج میں تقسیم کر دے ، اور چاہے تو ان کو سابق ملکوں کے قبضے میں رہنے دے اور ان کے مالکوں پر جزیہ اور زمینوں پر خراج عائد کر دے ۔ اس صورت میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف للمسلمین قرار پائیں گی ۔ ( بدائع الصنائع ۔ احکام القرآن للجصاص ۔ شرح العنایہ علی الہدایہ ۔ فتح القدیر ) ۔ یہی رائے عبداللہ بن مبارک نے امام سفیان ثوری سے بھی نقل کی ہے ( یحیٰ بن آدم ۔ کتاب الاموال لابی عبید ) مالکیہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے محض فتح کر لینے ہی سے یہ اراضی خود بخود وقف علی المسلمین ہو جاتی ہیں ۔ ان کو وقف کرنے کے لیے نہ امام کے فیصلے کی ضرورت ہے اور نہ مجاہدین کو راضی کرنے کی ۔ علاوہ بریں مالکیہ کے ہاں مشہور قول یہ ہے کہ صرف اراضی ہی نہیں ، مفتوحہ علاقوں کے مکان اور عمارات بھی حقیقۃً وقف علی المسلمین ہیں البتہ اسلامی حکومت ان پر کرایہ عائد نہیں کرے گی ( حاشیہ الدسوقی ) ۔ حنابلہ اس حد تک حنفیوں سے متفق ہیں کہ اراضی کو فاتحین میں تقسیم کرنا ، یا مسلمانوں پر وقف کر دینا امام کے اختیار میں ہے ۔ اور اس امر میں مالکیوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کے مکان بھی اگرچہ وقف میں شامل ہونگے مگر ان پر کرایہ عائد نہ کیا جائے گا ( غایۃ المنتہیٰ ۔ یہ مذہب حنبلی کے مفتیٰ بہ اقوال کا مجموعہ ہے اور دسویں صدی سے اس مذہب میں فتویٰ اسی کتاب کے مطابق دیا جاتا ہے ) ۔ شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کے تمام اموال منقولہ غنیمت ہیں ، اور تمام اموال غیر منقولہ ( اراضی اور مکانات ) کو فَے قرار دیا جائے گا ( مغنی المحتاج ) ۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کی اراضی کو اگر امام وقف علی المسلمین کرنا چاہے تو لازم ہے کہ وہ پہلے فاتح فوجوں کی رضا مندی حاصل کرے ۔ اس کے لیے وہ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے سواد عراق کی فتح سے پہلے جریر بن عبداللہ البجلی سے ، جن کے قبیلے کے لوگ جنگ قدسیہ میں شریک ہونے والی فوج کا چوتھائی حصہ تھے ، یہ وعدہ کیا تھا کہ مفتوحہ علاقے کا چوتھائی حصہ ان کو دیا جائے گا ۔ چنانچہ 2 ۔ 3 ۔ سال تک یہ حصہ انکے پاس رہا ۔ پھر حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ : لو لا انی قاسم مسئول لکنتم علیٰ ما جعل لکم ، واری الناس قد کثروا افادیٰ ان تردہ علیہم ، اگر میں تقسیم کے معاملہ میں ذمہ دار اور جوابدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تمہیں دیا جا چکا ہے وہ تمہارے پاس ہی رہنے دیا جاتا ۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی کثرت ہو گئی ہے ، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ تم اسے عام لوگوں کو واپس کر دو ۔ حضرت جریر نے اس بات کو قبول کر لیا اور حضرت عمر نے ان کو اس پر 80 دینار بطور انعام دیے ( کتاب الخراج لابی یوسف ۔ کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے فاتحین کو راضی کرنے کے بعد مفتوحہ علاقوں کو وقف علی المسلمین قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔ کیونکہ تمام ممالک مفتوحہ کے معاملہ میں تمام فاتحین سے اس طرح کی کوئی رضا مندی نہیں لی گئی تھی ، اور صرف حضرت جریر بن عبداللہ کے ساتھ یہ معاملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ فتح سے پہلے ، قبل اس کے کہ اراضی مفتوحہ کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ ہوتا ، حضرت عمر ان سے ایک وعدہ کر چکے تھے ، اس لیے وعدے کی پابندی سے برأت حاصل کرنے کے لیے آپ کو انہیں راضی کرنا پڑا ۔ اسے کوئی عام قانون قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ فقہاء کا ایک اور گروہ کہتا ہے کہ وقف قرار دے دینے کے بعد بھی کسی وقت حکومت کو یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ ان اراضی کو پھر سے فاتحین میں تقسیم کر دے ۔ اس کے لیے وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا لو لا ان یضرب بعضکم وجوہ بعض لقسمت السواد بینکم اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے سے لڑو گے تو میں سواد کا علاقہ تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا ، ( کتاب الخراج لابی یوسف ۔ کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس رائے کو بھی قبول نہیں کیا ہے اور وہ اس پر متفق ہیں کہ جب ایک مرتبہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر جزیہ و خراج عائد کر کے انہیں ان کی زمینوں پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہو تو اس کے بعد کبھی یہ فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا ۔ رہی وہ بات جو حضرت علی کی طرف منسوب کی جاتی ہے ، تو اس پر ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :21 اس آیت میں اگرچہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں ، بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے ۔ لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے ، اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہیں ، نہ یہ کہ وہ ان پر لعنت بھیجیں اور تبرا کریں ۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے وہ دراصل ایمان کا رشتہ ہے ۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیر خواہ ہو گا جو ایمان کے رشتہ سے اس کے بھائی ہیں ۔ ان کے لیے بد خواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں کسی وقت جگہ پا سکتی ہے جبکہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جائے اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے ۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو ۔ اس معاملہ میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انس سے روایت کی ہے ۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے ، اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے ۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے ۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں ۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیر معمولی چیز انہیں نظر نہ آئی ۔ ناچار انہوں نے خود ان ہی سے پوچھ لیا کہ بھائی ، آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سنی ہے؟ انہوں نے کہا میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں ۔ البتہ ایک بات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو ، اور وہ یہ ہے کہ لا اجد فی نفسی غلًّا لاحد من المسلمین ، ولا احسدہ علی خیرٍ اعطاہ اللہ تعالیٰ ایاہ ۔ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو ، اس سے حسد کرتا ہوں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے ۔ ایمان کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جائے ، یا اس کی غلط بات کو غلط نہ کہا جائے ۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اسے بیان کر دینا اور چیز ہے ، اور بغض و نفرت ، مَذَمّت و بد گوئی اور سب و شَتُم بالکل ہی ایک دوسری چیز ۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جائے تب بھی ایک بڑی برائی ہے ، لیکن مرے ہوئے اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی برائی ہے ، کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہو گا جو مرنے والوں کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید برائی یہ ہے کہ کوئی شخص ان لوگوں کے حق میں بد گوئی کرے جنہوں نے انتہائی سخت آزمائشوں کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور اپنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسر ہوئی ہے ۔ ان کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے ان میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسرے فریق کا موقف اس کی رائے میں صحیح نہ ہو تو وہ یہ رائے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کر سکتا ہے ۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بد گوئی کی تراوش ہونے لگے ، ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سر زد نہیں ہو سکتی ۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس فعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھے ۔ لیکن یہ الزام اس گناہ سے بھی بدتر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے ۔ قرآن مجید کی یہی آیات جن کے سلسلہ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہل ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے ، ان کے اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہیں ۔ ان آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے ۔ اول مہاجرین ، دوسرے انصار ، تیسرے ان کے بعد آنے والے مسلمان ۔ اور ان بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو ۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سورہ حشر کی آیات 11 تا 17 میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے ۔ اس سے یہ بات بالکل ہی کھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنہوں نے غزوہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی ، اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے ۔ اس کے بعد کیا ایک مسلمان ، جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو ، یہ جسارت کر سکتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟ امام مالک اور امام احمد نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ فَے میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابہ کرام کو برا کہتے ہیں ( احکام القرآن لابن العربی ۔ غایۃ المنتہیٰ ) ۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوئے ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے ، مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جائے ورنہ نہیں ۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جائے وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حقدار نہیں ہے ۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے ، خواہ وہ خود تنگ دست ہوں ۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کو کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ ان کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہشمند ہو ۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعائے مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بغض نہ ہو ، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہل ایمان کا رویہ دوسرے اہل ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوئے مومنین کے معاملہ میں کیا ہونا چاہیے ۔