Surah

Information

Surah # 59 | Verses: 24 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 101 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ نَافَقُوۡا يَقُوۡلُوۡنَ لِاِخۡوَانِهِمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ لَٮِٕنۡ اُخۡرِجۡتُمۡ لَنَخۡرُجَنَّ مَعَكُمۡ وَلَا نُطِيۡعُ فِيۡكُمۡ اَحَدًا اَبَدًاۙ وَّاِنۡ قُوۡتِلۡتُمۡ لَـنَـنۡصُرَنَّكُمۡ ؕ وَاللّٰهُ يَشۡهَدُ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿11﴾
کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور بالضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہونگے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے ، لیکن اللہ تعالٰی گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعًا جھوٹے ہیں ۔
الم تر الى الذين نافقوا يقولون لاخوانهم الذين كفروا من اهل الكتب لىن اخرجتم لنخرجن معكم و لا نطيع فيكم احدا ابدا و ان قوتلتم لننصرنكم و الله يشهد انهم لكذبون
Have you not considered those who practice hypocrisy, saying to their brothers who have disbelieved among the People of the Scripture, "If you are expelled, we will surely leave with you, and we will not obey, in regard to you, anyone - ever; and if you are fought, we will surely aid you." But Allah testifies that they are liars.
Kiya tu ney munfiqon ko na dekha? Kay apney ehal-e-kitab kafir bhaiyon say kehtay hain kay agar tum jila watan kiye gaye to zaroor bil zaroor hum bhi tumharay sath nikal kharay hongay aur tumharay baray mein hum kabhi bhi kissi ki baat na maanen gay aur agar tum say jang ki jaye gi to ba khuda hum tumhari madad keren gay lekin Allah Taalaa gawahi deta hai kay yeh qata’an jhootay hain.
کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جنہوں نے منافقت سے کام لیا ہے کہ وہ اپنے ان بھائیوں سے جو کافر اہل کتاب میں سے ہیں یہ کہتے ہیں کہ : اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی اور کا کہنا نہیں مانیں گے ، اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے ، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں ۔
کیا تم نے منافقوں کو نہ دیکھا ( ف٤۰ ) کہ اپنے بھائیوں کافر کتابیوں ( ف٤۱ ) سے کہتے ہیں کہ اگر تم نکالے گئے ( ف٤۲ ) تو ضرور ہم تمہارے ساتھ جائیں گے اور ہرگز تمہارے بارے میں کسی کی نہ مانیں گے ( ف٤۳ ) اور اگر تم سے لڑائی ہوئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے ، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ( ف٤٤ )
تم 22 نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے؟ یہ اپنے کافر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تمھیں نکالا گیا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے ، اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات ہرگز نہ مانیں گے ، اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے ۔ ” مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ قطعی جھوٹے ہیں ۔
کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے اُن بھائیوں سے کہتے ہیں جو اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے ہیں کہ اگر تم ( یہاں سے ) نکالے گئے توہم بھی ضرور تمہارے ساتھ ہی نکل چلیں گے اور ہم تمہارے معاملے میں کبھی بھی کسی ایک کی بھی اطاعت نہیں کریں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور بالضرور تمہاری مدد کریں گے ، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :22 اس پورے رکوع کے انداز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کو مدینے سے نکل جانے کے لیے دس دن کا نوٹس دیا تھا اور ان کا محاصرہ شروع ہونے میں کئی دن باقی تھے ۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنی نضیر کو یہ نوٹس دیا تو عبداللہ بن ابی اور مدینہ کے دوسرے منافق لیڈروں نے انکو یہ کہلا بھیجا کہ ہم دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری مدد کو آئیں گے ، اور بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تمہاری حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے ، لہٰذا تم مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹ جاؤ اور ہرگز ان کے آگے ہتھیار نہ ڈالو ۔ یہ تم سے لڑیں گے تو ہم تمہارے ساتھ لڑیں گے ، اور تم یہاں سے نکالے گئے تو ہم بھی نکل جائیں گے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ۔ پس ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ رکوع پہلے کا نازل شدہ ہے اور پہلا رکوع اس کے بعد نازل ہوا ہے جب بنی نضیر مدینہ سے نکالے جا چکے تھے ۔ لیکن قرآن مجید کی ترتیب میں پہلے رکوع کو مقدم اور دوسرے کو مؤخر اس لیے کیا گیا ہے کہ اہم تر مضمون پہلے رکوع ہی میں بیان ہوا ہے ۔
کفر بز دلی کی گود ہے تلبیس ابلیس کا ایک انداز: ۔ عبداللہ بن ابی اور اسی جیسے منافقین کی چالبازی اور عیاری کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے یہودیان بنو نضیر کو سبز باغ دکھا کر جھوٹا دلاسا دلا کر غلط وعدہ کر کے مسلمانوں سے لڑوا دیا ، ان سے وعدہ کیا کہ ہم تمہارے ساتھی ہیں لڑنے میں تمہاری مدد کریں گے اور اگر تم ہار گئے اور مدینہ سے دیس نکالا ملا تو ہم بھی تمہارے ساتھ اس شہر کو چھوڑ دیں گے ، لیکن بوقت وعدہ ہی ایفا کرنے کی نیت نہ تھی اور یہ بھی کہ ان میں اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ ایسا کر سکیں نہ لڑائی میں ان کی مدد کر سکیں نہ برے وقت ان کا ساتھ دیں ، اگر بدنامی کے خیال سے میدان میں آ بھی جائیں تو یہاں آتے ہی تیز و تلوار کی صورت دیکھتے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور نامردی کے ساتھ بھاگتے ہی بن پڑے ، پھر مستقل طور پر پیش گوئی فرماتا ہے کہ ان کی تمہارے مقابلہ میں امداد نہ کی جائے گی ، یہ اللہ سے بھی اتنا نہیں ڈرتے جتنا تم سے خوف کھاتے ہیں ، جیسے اور جگہ بھی ہے ۔ ( اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً 77؀ ) 4- النسآء:77 ) یعنی ان کا ایک فریق لوگوں سے اتنا ڈرتا ہے جتنا اللہ سے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ بات یہ ہے کہ یہ بےسمجھ لوگ ہیں ، ان کی نامردی اور بزدلی کی یہ حالت ہے کہ یہ میدان کی لڑائی کبھی لڑ نہیں سکتے ہاں اگر مضبوط اور محفوظ قلعوں میں بیٹھے ہوئے ہوں یا مورچوں کی آڑ میں چھپ کر کچھ کاروائی کرنے کا موقعہ ہو تو خیر بہ سبب ضرورت کر گذریں گے لیکن میدان میں آ کر بہادری کے جوہر دکھانا یہ ان سے کوسوں دور ہے ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ، جیسے اور جگہ ہے ( وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ 65؀ ) 6- الانعام:65 ) بعض کو بعض سے لڑائی کا مزہ چکھاتا ہے ، تم انہیں مجتمع اور متفق و متحد سمجھ رہے ہو لیکن دراصل یہ متفرق و مختلف ہیں ایک کا دل دوسرے سے نہیں ملتا ، منافق اپنی جگہ اور اہل کتاب اپنی جگہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں ، وجہ یہ ہے کہ بےعقل لوگ ہیں ، پھر فرمایا ان کی مثال ان سے کچھ ہی پہلے کے کافروں جیسی ہے جنہوں نے یہاں بھی اپنے کئے کا بدلہ بھگتا اور وہاں کا بھگتنا ابھی باقی ہے ، اس سے مراد یا تو کفار قریش ہیں کہ بدر والے دن ان کی کمر کبڑی ہو گئی اور سخت نقصان اٹھا کر کشتوں کے پشتے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ، یا بنو قینقاع کے یہود ہیں کہ وہ بھی شرارت پر اتر آئے اللہ نے ان پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا اور آپ نے انہیں مدینہ سے خارج البلد کرا دیا یہ دونوں واقعے ابھی ابھی کے ہیں اور تمہاری عبرت کا صحیح سبق ہیں لیکن اس وقت کہ کوئی عبرت حاصل کرنے والا انجام کو سوچنے والا ہو بھی ، زیادہ مناسب مقام بنو قینقاع کے یہود کا واقعہ ہی ہے واللہ اعلم ، منافقین کے وعدوں پر ان یہودیوں کا شرارت پر آمادہ ہونا اور ان کے بھرے میں آ کر معاہدہ توڑ ڈالنا پھر ان منافقین کا انہیں موقعہ پر کام نہ آنا نہ لڑائی کے وقت مدد پہنچانا نہ جلا وطنی میں ساتھ دینا ، ایک مثال سے سمجھایا جاتا ہے کہ دیکھو شیطان بھی اسی طرح انسان کو کفر پر آمادہ کرتا ہے اور جب یہ کفر کر چکتا ہے تو خود بھی اسے ملامت کرنے لگتا ہے اور اپنا اللہ والا ہونا ظاہر کرنے لگتا ہے ، اسی مثال کا ایک واقعہ بھی سن لیجئے ، بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا ساٹھ سال اسے عبادت الٰہی میں گذر چکے تھے شیطان نے اسے ورغلانا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا اس نے ایک عورت پر اپنا اثر ڈالا اور یہ ظاہر کیا کہ گویا اسے جنات ستا رہے ہیں ادھر اس عورت کے بھائیوں کو یہ وسوسہ ڈالا کہ اس کا علاج اسی عابد سے ہو سکتا ہے یہ اس عورت کو اس عابد کے پاس لائے اس نے علاج معالجہ یعنی دم کرنا شروع کیا اور یہ عورت یہیں رہنے لگی ، ایک دن عابد اس کے پاس ہی تھا جو شیطان نے اس کے خیالات خراب کرنے شروع کئے یہاں تک کہ وہ زنا کر بیٹھا اور وہ عورت حاملہ ہو گئی ۔ اب رسوائی کے خوف سے شیطان نے چھٹکارے کی یہ صورت بتائی کہ اس عورت کو مار ڈال ورنہ راز کھل جائے گا ۔ چنانچہ اس نے اسے قتل کر ڈالا ، ادھر اس نے جا کر عورت کے بھائیوں کو شک دلوایا وہ دوڑے آئے ، شیطان راہب کے پاس آیا اور کہا وہ لوگ آ رہے ہیں اب عزت بھی جائے گی اور جان بھی جائے گی ۔ اگر مجھے خوش کر لے اور میرا کہا مان لے تو عزت اور جان دونوں بچ سکتی ہیں ۔ شیطان نے کہا مجھے سجدہ کر ، عابد نے اسے سجدہ کر لیا ، یہ کہنے لگا تف ہے تجھ پر کم بخت میں تو اب تجھ سے بیزار ہوں میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ، جو رب العالمین ہے ( ابن جریر ) ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ ایک عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اور ایک راہب کی خانقاہ تلے رات گذارا کرتی تھی اس کے چار بھائی تھے ایک دن شیطان نے راہب کو گدگدایا اور اس سے زنا کر بیٹھا اسے حمل رہ گیا شیطان نے راہب کے دل میں ڈالا کہ اب بڑی رسوائی ہو گی اس سے بہتر یہ ہے کہ اسے مار ڈال اور کہیں دفن کر دے تیرے تقدس کو دیکھتے ہوئے تیری طرف تو کسی کا خیال بھی نہ جائے گا اور اگر بالفرض پھر بھی کچھ پوچھ گچھ ہو تو جھوٹ موٹ کہ دینا ، بھلا کون ہے جو تیری بات کو غلط جانے؟ اس کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی ، ایک روز رات کے وقت موقعہ پا کر اس عورت کو جان سے مار ڈالا اور کسی اجاڑ جگہ زمین میں دبا دیا ۔ اب شیطان اس کے چاروں بھائیوں کے پاس پہنچا اور ہر ایک کے خواب میں اسے سارا واقعہ کہہ سنایا اور اس کے دفن کی جگہ بھی بتا دی ، صبح جب یہ جاگے تو ایک نے کہا آج کی رات تو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے ہمت نہیں پڑتی کہ آپ سے بیان کروں دوسروں نے کہا نہیں کہو تو سہی چنانچہ اس نے اپنا پورا خواب بیان کیا کہ اس طرح فلاں عابد نے اس سے بدکاری کی پھر جب حمل ٹھہر گیا تو اسے قتل کر دیا اور فلاں جگہ اس کی لاش دبا آیا ہے ، ان تینوں میں سے ہر ایک نے کہا مجھے بھی یہی خواب آیا ہے اب تو انہیں یقین ہو گیا کہ سچا خواب ہے ، چنانچہ انہوں نے جا کر اطلاع دی اور بادشاہ کے حکم سے اس راہب کو اس خانقاہ سے ساتھ لیا اور اس جگہ پہنچ کر زمین کھود کر اس کی لاش برآمد کی ، کامل ثبوت کے بعد اب اسے شاہی دربار میں لے چلے اس وقت شیطان اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ سب میرے کرتوت ہیں اب بھی اگر تو مجھے راضی کر لے تو جان بچا دوں گا اس نے کہا جو تو کہے کروں گا ، کہا مجھے سجدہ کر لے اس نے یہ بھی کر دیا ، پس پورا بے ایمان بنا کر شیطان کہتا ہے میں تو تجھ سے بری ہوں میں تو اللہ تعالیٰ سے جو تمام جہانوں کا رب ہے ڈرتا ہوں ، چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا اور پادری صاحب کو قتل کر دیا گیا ، مشہور ہے کہ اس پادری کا نام برصیصا تھا ۔ حضرت علی حضرت عبداللہ بن مسعود ، طاؤس ، مقاتل بن حیان وغیرہ سے یہ قصہ مختلف الفاظ سے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے ، واللہ اعلم ، اس کے بالکل برعکس جریج عابد کا قصہ ہے کہ ایک بدکار عورت نے اس پر تہمت لگا دی کہ اس نے میرے ساتھ زنا کیا ہے اور یہ بچہ جو مجھے ہوا ہے وہ اسی کا ہے چنانچہ لوگوں نے حضرت جریج کے عبادت خانے کو گھیر لیا اور انہیں نہایت بے ادبی سے زد و کوب کرتے ہوئے گالیاں دیتے ہوئے باہر لے آئے اور عبادت خانے کو ڈھا دیا یہ بیچارے گھبرائے ہوئے ہر چند پوچھتے ہیں کہ آخر واقعہ کیا ہے؟ لیکن مجمع آپے سے باہر ہے آخر کسی نے کہا کہ اللہ کے دشمن اولیاء اللہ کے لباس میں یہ شیطانی حرکت؟ اس عورت سے تو نے بدکاری کی ۔ حضرت جریج نے فرمایا اچھا ٹھہرو صبر کرو اس بچے کو لاؤ چنانچہ وہ دودھ پیتا چھوٹا سا بچہ لایا گیا حضرت جریج نے اپنی عزت کی بقا کی اللہ سے دعا کی پھر اس بچے سے پوچھا اے بچے بتا تیرا باپ کون ہے؟ اس بچے کو اللہ نے اپنے ولی کی عزت بچانے کے لئے اپنی قدرت سے گویائی کی قوت عطا فرما دی اور اس نے اس صاف فصیح زبان میں اونچی آواز سے کہا میرا باپ ایک چرواہا ہے ۔ یہ سنتے ہی بنی اسرائیل کے ہوش جاتے رہے یہ اس بزرگ کے سامنے عذر معذرت کرنے لگے معافی مانگنے لگے انہوں نے کہا بس اب مجھے چھوڑ دو لوگوں نے کہا ہم آپ کی عابدت گاہ سونے کی بنا دیتے ہیں آپ نے فرمایا بس اسے جیسی وہ تھی ویسے ہی رہنے دو ۔ پھر فرماتا ہے کہ آخر انجام کفر کے کرنے اور حکم دینے والے کا یہی ہوا کہ دونوں ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوئے ، ہر ظالم کئے کی سزا پا ہی لیتا ہے ۔