Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمۡ اُمَّهٰتُكُمۡ وَبَنٰتُكُمۡ وَاَخَوٰتُكُمۡ وَعَمّٰتُكُمۡ وَخٰلٰتُكُمۡ وَبَنٰتُ الۡاٰخِ وَبَنٰتُ الۡاُخۡتِ وَاُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِىۡۤ اَرۡضَعۡنَكُمۡ وَاَخَوٰتُكُمۡ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآٮِٕكُمۡ وَرَبَآٮِٕبُكُمُ الّٰتِىۡ فِىۡ حُجُوۡرِكُمۡ مِّنۡ نِّسَآٮِٕكُمُ الّٰتِىۡ دَخَلۡتُمۡ بِهِنَّ فَاِنۡ لَّمۡ تَكُوۡنُوۡا دَخَلۡتُمۡ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ وَحَلَاۤٮِٕلُ اَبۡنَآٮِٕكُمُ الَّذِيۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِكُمۡۙ وَاَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَيۡنَ الۡاُخۡتَيۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۙ‏ ﴿23﴾
حرام کی گئیں ہیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں ، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمہارےصلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ہاں جو گُزر چکا سو گُزر چکا یقیناً اللہ تعالٰی بخشنے والامہربان ہے ۔
حرمت عليكم امهتكم و بنتكم و اخوتكم و عمتكم و خلتكم و بنت الاخ و بنت الاخت و امهتكم التي ارضعنكم و اخوتكم من الرضاعة و امهت نساىكم و رباىبكم التي في حجوركم من نساىكم التي دخلتم بهن فان لم تكونوا دخلتم بهن فلا جناح عليكم و حلاىل ابناىكم الذين من اصلابكم و ان تجمعوا بين الاختين الا ما قد سلف ان الله كان غفورا رحيما
Prohibited to you [for marriage] are your mothers, your daughters, your sisters, your father's sisters, your mother's sisters, your brother's daughters, your sister's daughters, your [milk] mothers who nursed you, your sisters through nursing, your wives' mothers, and your step-daughters under your guardianship [born] of your wives unto whom you have gone in. But if you have not gone in unto them, there is no sin upon you. And [also prohibited are] the wives of your sons who are from your [own] loins, and that you take [in marriage] two sisters simultaneously, except for what has already occurred. Indeed, Allah is ever Forgiving and Merciful.
Haram ki gaeen tum per tumhari maayen aur tumhari larkiyan tumhari behnen tumhari phoopiyan aur tumhari khalaayen aur bhai ki larkiyan aur behan ki larkiyan aur tumhari woh maayen jinhon ney tumhen doodh pilaya ho aur tumhari doodh sharik behnen aur tumhari saas aur tumhari woh perwerish kerda larkiyan jo tumhari godd mein hain tumhari unn aurton say jin say tum dakhool ker chukay ho haan agar tum ney unn say jamaa na kiya ho to tum oer koi gunah nahi aur tumharay salbi sagay beton ki biwiyan aur tumhara do behnon ka jama kerna haan jo guzar chuka so guzar chuka yaqeenan Allah Taalaa bakshney wala meharban hai.
تم پر حرام کردی گئی ہیں تمہاری مائیں ، تمہاری بیٹیاں ، تمہاری بہنیں ، تمہاری پھوپھیاں ، تمہاری خالائیں ، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے ، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ، اور تمہاری بیویوں کی مائیں ، اور تمہارے زیر پرورش تمہاری سوتیلی بیٹیاں ( ١٩ ) جو تمہاری ان بیویوں ( کے پیٹ ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو ۔ ہاں اگر تم نے ان کے ساتھ خلوت نہ کی ہو ( اور انہیں طلاق دے دی ہو یا ان کا انتقال ہوگیا ہو ) تو تم پر ( ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں ) کوئی گناہ نہیں ہے ، نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں ، اور یہ بات بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرو ، البتہ جو کچھ پہلے ہوچکا وہ ہوچکا ۔ بیشک اللہ بہت معاف کرنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں ( ف٦٤ ) اور بیٹیاں ( ف٦۵ ) اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ( ف٦٦ ) اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا ( ف٦۷ ) اور دودھ کی بہنیں اور عورتوں کی مائیں ( ف٦۸ ) اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں ( ف٦۹ ) ان بیبیوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو تو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں سے حرج نہیں ( ف۷۰ ) اور تمہاری نسلی بیٹوں کی بیبیں ( ف۷۱ ) اور دو بہنیں اکٹھی کرنا ( ف۷۲ ) مگر جو ہو گزرا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں ، 34 بیٹیاں ، 35 بہنیں ، 36 پھوپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں ، 37 اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو ، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ، 38 اور تمہاری بیویوں کی مائیں ، 39 اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے ۔ 40 ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شوہر ہو چکا ہو ۔ ورنہ اگر ﴿صرف نکاح ہوا ہو اور﴾ تعلقِ زن و شوہر نہ ہوا ہو تو ﴿انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں﴾ تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں ۔ 41 اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ، 42 مگر جو پہلے ہوگیا سو ہو گیا ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ 43
تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری ( وہ ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں ( سب ) حرام کر دی گئی ہیں ، اور ( اسی طرح ) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں ( کے بطن ) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو ( بھی حرام ہیں ) ، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر ( ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں ) کوئی حرج نہیں ، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں ( بھی تم پر حرام ہیں ) جو تمہاری پشت سے ہیں ، اور یہ ( بھی حرام ہے ) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ ( نکاح میں ) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا ۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :34 ماں کا اطلاق سگی اور سوتیلی ، دونوں قسم کی ماؤں پر ہوتا ہے اس لیے دونوں حرام ہیں ۔ نیز اسی حکم میں باپ کی ماں اور ماں کی ماں بھی شامل ہے ۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ جس عورت سے باپ کا ناجائز تعلق ہو چکا ہو وہ بھی بیٹے پر حرام ہے یا نہیں ۔ سلف میں سے بعض اس کی حرمت کے قائل نہیں ہیں ، اور بعض اسے بھی حرام قرار دیتے ہیں ، بلکہ ان کے نزدیک جس عورت کو باپ نے شہوت سے ہاتھ لگایا ہو وہ بھی بیٹے پر حرام ہے ۔ اسی طرح سلف میں اس امر پر بھی اختلاف رہا ہے کہ جس عورت سے بیٹے کا ناجائز تعلق ہو چکا ہو ، وہ باپ پر حرام ہے یا نہیں ۔ اور جس مرد سے ماں یا بیٹی کا ناجائز تعلق رہا ہو یا بعد میں ہو جائے اس سے نکاح ماں اور بیٹی دونوں کے لیے حرام ہے یا نہیں ۔ اس باب میں فقیہانہ بحثیں بہت طویل ہیں ، مگر یہ بات بادنیٰ تامل سمجھ میں آسکتی ہے کہ کسی شخص کے نکاح میں ایسی عورت کا ہونا جس پر اس کا باپ یا اس کا بیٹا بھی نظر رکھتا ہو ، یا جس کی ماں یا بیٹی پر بھی اس کی نگاہ ہو ، ایک صالح معاشرت کے لیے کسی طرح مناسب نہیں ہو سکتا ۔ شریعت الہٰی کا مزاج اس معاملہ میں ان قانونی موشگافیوں کو قبول نہیں کرتا جن کی بنا پر نکاح اور غیر نکاح اور قبل نکاح اور بعد نکاح اور لمس اور نظر وغیرہ میں فرق کیا جاتا ہے ۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ خاندانی زندگی میں ایک ہی عورت کے ساتھ باپ اور بیٹے کے ، یا ایک ہی مرد کے ساتھ ماں اور بیٹی کے شہوانی جذبات کا وابستہ ہونا سخت مفاسد کا موجب ہے اور شریعت اسے ہرگز برداشت نہیں کر سکتی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ من نظر الیٰ فرج امرأة حرمت علیہ امھا و ابنتھا ۔ ”جس شخص نے کسی عورت کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالی ہو اس کی ماں اور بیٹی دونوں اس پر حرام ہیں ۔ “ اور لا ینظر اللہ الیٰ رجل نظر الیٰ فرج امرأة و ابنتھا ، ” خدا اس شخص کی صورت دیکھنا پسند نہیں کرتا جو بیک وقت ماں اور بیٹی دونوں کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالے ۔ “ ان روایات سے شریعت کا منشاء صاف واضح ہوجاتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :35 بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی شامل ہیں ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں جو لڑکی ہوئی ہو وہ بھی حرام ہے یا نہیں ۔ امام ابو حنیفہ ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک وہ بھی ناجائز بیٹی کی طرح محرمات میں سے ہے ، اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وہ محرمات میں سے نہیں ہے ۔ مگر درحقیقت یہ تصور بھی ذوق سلیم پر بار ہے کہ جس لڑکی کے متعلق آدمی یہ جانتا ہو کہ وہ اسی کے نطفہ سے پیدا ہوئی ہے اس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لیے جائز ہو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :36 سگی بہن اور ماں شریک بہن اور باپ شریک بہن تینوں اس حکم میں یکساں ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :37 ان سب رشتوں میں بھی سگے اور سوتیلے کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ باپ اور ماں کی بہن خواہ سگی ہو خواہ سوتیلی ، یا باپ شریک ، بہرحال وہ بیٹے پر حرام ہے ۔ اسی طرح بھائی اور بہن خواہ سگے ہوں یا سوتیلے یا باپ شریک ، ان کی بیٹیاں ایک شخص کے لیے اپنی بیٹی کی طرح حرام ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :38 اس امر پر امت میں اتفاق ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی نے جس عورت کا دودھ پیا ہو اس کے لیے وہ عورت ماں کے حکم میں اور اس کا شوہر باپ کے حکم میں ہے ، اور تمام وہ رشتے جو حقیقی ماں اور باپ کے تعلق سے حرام ہوجاتے ہیں ۔ اس حکم کا ماخذ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ یحرم من الرضاع مایحرم من النسب ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ حرمت رضاعت کس قدر دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک جتنی مقدار سے روزہ دار کا روزہ ٹوٹ سکتا ہے اتنی ہی مقدار میں اگر بچہ کسی کا دودھ پی لے تو حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ مگر امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک تین مرتبہ پینے سے اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک پانچ دفعہ پینے سے یہ حرمت ثابت ہوتی ہے ۔ نیز اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کس عمر میں پینے سے یہ رشتے حرام ہوتے ہیں ۔ اس باب میں فقہاء کے اقوال حسب ذیل ہیں: ( ١ ) اعتبار صرف اس زمانہ میں دودھ پینے کا ہے جبکہ بچہ کا دودھ چھڑایا نہ جا چکا ہو اور شیر خوارگی ہی پر اس کے تغذیہ کا انحصار ہو ۔ ورنہ دودھ چھٹائی کے بعد اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پی لیا ہو تو اس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے اس نے پانی پی لیا ۔ یہ رائے ام سلمہ اور ابن عباس کی ہے ۔ حضرت علی سے بھی ایک روایت اس معنی میں آئی ہے ۔ زہری ، حسن بصری ، قتادہ ، عکرمہ اور اوزاعی اسی کے قائل ہیں ۔ ( ۲ ) دوسال کی عمر کے اندر اندر جو دودھ پیا گیا ہو صرف اسی سے حرمت رضاعت ثابت ہوگی ۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور فقہاء میں سے امام شافعی ، امام احمد ، امام ابو یوسف ، امام محمد ، اور سفیان ثوری رحمہم اللہ نے اسے قبول کیا ہے ۔ امام ابو حنیفہ سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہے ۔ امام مالک بھی اسی حد کے قائل ہیں ، مگر وہ کہتے ہیں کہ دوسال سے اگر مہینہ دو مہینہ زائد عمر بھی ہو تو اس میں دودھ پینے کا وہی حکم ہے ۔ ( ۳ ) امام ابو حنیفہ اور امام زفر کا مشہور قول یہ ہے کہ زمانہ رضاعت ڈھائی سال ہے اور اس کے اندر پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے ۔ ( ٤ ) خواہ کسی عمر میں دودھ پیے ، حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ یعنی اس معاملہ میں اصل اعتبار دودھ کا ہے نہ کہ عمر کا ۔ پینے والا اگر بوڑھا بھی ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو شیر خوار بچے کا ہے ۔ یہی رائے ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی صحیح تر روایت اسی کی تائید میں منقول ہے ۔ اور فقہاء میں سے عروہ بن زبیر ، عطاء ، لیث بن سعد اور ابن حزم نے اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :39 اس امر میں اختلاف ہے کہ جس عورت سے محض نکاح ہوا ہو اس کی ماں حرام ہے یا نہیں ۔ امام ابو حنیفہ ، مالک ، احمد اور شافعی رحمہم اللہ اس کی حرمت کے قائل ہیں ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ ہے کہ جب تک کسی عورت سے خلوت نہ ہوئی ہو اس کی ماں حرام نہیں ہوتی ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :40 ایسی لڑکی کا حرام ہونا اس شرط پر موقوف نہیں ہے کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو ۔ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے محض اس رشتہ کی نزاکت ظاہر کرنے کے لیے استعمال فرمائے ہیں ۔ فقہائے امت کا اس بات پر تقریباً اجماع ہے کہ سوتیلی بیٹی آدمی پر بہرحال حرام ہے خواہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو یا نہ پائی ہو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :41 یہ قید اس غرض کے لیے بڑھائی گئی ہے کہ جسے آدمی نے بیٹا بنا لیا ہو اس کی بیوہ یا مطلقہ آدمی پر حرام نہیں ہے ۔ حرام صرف اس بیٹے کی بیوی ہے جو آدمی کی اپنی صلب سے ہو ۔ اور بیٹے ہی کی طرح پوتے اور نواسے کی بیوی بھی دادا اور نانا پر حرام ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :42 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام ہے ۔ اس معاملہ میں یہ اصول سمجھ لینا چاہیے کہ ایسی عورتوں کو جمع کرنا بہرحال حرام ہے جن میں سے کوئی ایک اگر مرد ہو تی تو اس کا نکاح دوسری سے حرام ہوتا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :43 یعنی جاہلیت کے زمانہ میں جو ظلم تم لوگ کرتے رہے ہو کہ دو دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کر لیتے تھے اس پر بازپرس نہ ہوگی بشرطیکہ اب اس سے باز رہو ( ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۳۲ ) ۔ اسی بنا پر یہ حکم ہے کہ جس شخص نے حالت کفر میں دو بہنوں کو نکاح میں جمع کر رکھا ہو اسے اسلام لانے کے بعد ایک کو رکھنا اور ایک کو چھوڑنا ہوگا ۔
کون سی عورتیں مردوں پر حرام ہیں؟ نسبی ، رضاعی اور سسرالی رشتے سے جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان آیہ کریمہ میں ہو رہا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سات عورتیں بوجہ نسب حرام ہیں اور سات بوجہ سسرال کے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی جس میں بہن کی لڑکیوں تک نسبی رشتوں کا ذکر ہے جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زنا سے جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی ہے اور بیٹیاں حرام ہیں ، یہی مذہب ابو حنیفہ مالک اور احمد بن حنبل کا ہے ، امام شافعی سے کچھ اس کی اباحت میں بھی بحث کی گئی ہے اس لئے کہ شرعاً یہ بیٹی نہیں پس جیسے کہ ورثے کے حوالے سے یہ بیٹی کے حکم سے خارج ہے اور ورثہ نہیں پاتی اسی طرح اس آیت حرمت میں بھی وہ داخل نہیں ہے واللہ اعلم ، ( صحیح مذہب وہی ہے جس پر جمہور ہیں ۔ ( مترجم ) پھر فرماتا ہے کہ جس طرح تم پر تمہاری سگی ماں حرام ہے اسی طرح رضاعی ماں بھی حرام ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ رضاعت بھی اسے حرام کرتی ہے جسے ولادت حرام کرتی ہے صحیح مسلم میں ہے رضاعت سے بھی وہ حرام ہے جو نسب سے ہے ، بعض فقہاء نے اس میں سے چار صورتیں بعض نے چھ صورتیں مخصوص کی ہیں جو احکام کی فروع کی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس میں سے کچھ بھی مخصوص نہیں اس لئے کہ اسی کے مانند بعض صورتیں نسبت میں بھی پائی جاتی ہیں اور ان صورتوں میں سے بعض صرف سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہیں لہذا حدیث پر اعتراض خارج از بحث ہے والحمد للہ ۔ آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثبات ہوتی ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ تعداد معین نہیں دودھ پیتے ہی حرمت ثابت ہو گئی امام مالک یہی فرماتے ہیں ، ابن عمر سعید بن مسیب عروہ بن زبیر اور زہری کا قول بھی یہی ہے ، دلیل یہ ہے کہ رضاعت یہاں عام ہے بعض کہتے ہیں تین مرتبہ جب پئے تو حرمت ثابت ہو گئی ، جیسے کہ صحیح مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ کا چوسنا یا دو مرتبہ کا پی لینا حرام نہیں کرتا یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے ، امام احمد ، اسحاق بن راہویہ ، ابو عبیدہ ، ابو ثور بھی یہی فرماتے ہیں ، حضرت علی ، حضرت عائشہ ، حضرت ام الفضل ، حضرت ابن زبیر ، سلیمان بن یسار ، سعید بن جبیر رحمہم اللہ سے بھی یہی مروی ہے بعض کہتے ہیں پانچ مرتبہ کے دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے اس سے کم نہیں ، اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلے قرآن میں دس مرتبہ کی دودھ پلائی پر حرمت کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ رہ گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے تک وہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا دوسری دلیل سہلہ بنت سہیل کی روایت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابو حذیفہ کے مولی تھے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیں ، حضرت عائشہ اسی حدیث کے مطابق جس عورت کے گھر کسی کا آنا جانا دیکھتیں اسے یہی حکم دیتیں ، امام شافعی اور ان کے اصحاب کا فرمان بھی یہی ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینا معتبر ہے ( مترجم کی تحقیق میں بھی راجح قول یہی ہے واللہ اعلم ) یہ بھی یاد رہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ رضاعت دودھ چھٹنے سے پہلے یعنی دو سال کے اندر اندر کی عمر میں ہو ، اس کا مفصل بیان آیت ( حولین کاملین ) کی تفسیر میں سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے ، پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اس رضاعت کا اثر رضاعی ماں کے خاوند تک بھی پہنچے گا یا نہیں؟ تو جمہور کا اور آئمہ اربعہ کا فرمان تو یہ ہے کہ پہنچے گا اور بعض سلف کا قول ہے کہ صرف دودھ پلانے والی تک ہی رہے گا اور رضاعی باپ تک نہیں پہنچے گا اس کی تفصیل کی جگہ احکام کی بڑے بڑی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر ( صحیح قول جمہور کا ہے واللہ اعلم ۔ مترجم ) پھر فرماتا ہے ساس حرام ہے جس لڑکی سے نکاح ہوا مجرد نکاح ہونے کے سبب اس کی ماں اس پر حرام ہو گئی خواہ صحبت کرے یا نہ کرے ، ہاں جس عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور اس کی لڑکی اس کے اگلے خاوند سے اس کے ساتھ ہے تو اگر اس سے صحبت کی تو وہ لڑکی حرام ہو گی اگر مجامعت سے پہلے ہی اس عورت کو طلاق دے دی تو وہ لڑکی اس پر حرام نہیں ، اسی لئے اس آیت میں یہ قید لگائی بعض لوگوں نے ضمیر کو ساس اور اس کی پرورش کی ہوئی لڑکیوں دونوں کی طرف لوٹایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ساس بھی اس وقت حرام ہوتی ہے جب اس کی لڑکی سے اس کے داماد نے خلوت کی ورنہ نہیں ، صرف عقد سے نہ تو عورت کی ماں حرام ہوتی ہے نہ عورت کی بیٹی ، حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی لڑکی سے نکاح کیا پھر دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی تو وہ اس کی ماں سے نکاح کر سکتا ہے جیسے کہ ربیبہ لڑکی سے اس کی ماں کو اسی طرح کی طلاق دینے کے بعد نکاح کر سکتا ہے حضرت زید بن ثابت سے بھی یہی منقول ہے ایک اور روایت میں بھی آپ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے جب وہ عورت غیر مدخولہ مر جائے اور یہ خاوند اس کی میراث لے لے تو پھر اس کی ماں کو لانا مکروہ ہے ہاں اگر دخول سے پہلے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے نکاح کر سکتا ہے حضرت ابو بکر بن کنانہ فرماتے ہیں کہ میرا نکاح میرے باپ نے طائف کی ایک عورت سے کرایا ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ اس کا باپ میرا چچا فوت ہو گیا اس کی بیوی یعنی میری ساس بیوہ ہو گئی وہ بہت مالدار تھیں میرے باپ نے مجھے مشورہ دیا کہ اس لڑکی کو چھوڑ دوں اور اس کی ماں سے نکاح کر لوں میں نے حضرت ابن عباس سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے یہ جائز ہے پھر میں نے حضرت ابن عمر سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ جائز نہیں میں نے اپنے والد سے ذکر کیا انہوں نے تو امیر معاویہ کو ہی سوال کیا حضرت امیر معاویہ نے تحریر فرمایا کہ میں نہ تو حرام کو حلال کروں نہ حلال کر حرام تم جانو اور تمہارا کام تم حالت دیکھ رہے ہو معاملہ کے تمام پہلو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہیں ۔ عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں ۔ غرض نہ اجازت دی نہ انکار کیا چنانچہ میرے باپ نے اپنا خیال اس کی ماں کی طرف سے ہٹا لیا حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ عورت کی لڑکی اور عورت کی ماں کا حکم ایک ہی ہے اگر عورت سے دخول نہ کیا ہو تو یہ دونوں حلال ہیں ، لیکن اس کی اسناد میں مبہم راوی ہے ، حضرت مجاہد کا بھی یہی قول ہے ، ابن جبیر اور حضرت ابن عباس بھی اسی طرف گئے ہیں ، حضرت معاویہ نے اس میں توقف فرمایا ہے شافعیوں میں سے ابو الحسن احمد بن محمد بن صابونی سے بھی بقول رافعی یہی مروی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی اسی کے مثل مروی ہے لیکن پھر آپ نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ہے طبرانی میں ہے کہ قبیلہ فزارہ کی شاخ قبیلہ بنو کمخ کے ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر اس کی بیوہ ماں کے حسن پر فریفتہ ہوا تو حضرت ابن مسعود سے مسئلہ پوچھا کہ کیا مجھے اس کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے آپ نے فرمایا ہاں چنانچہ اس نے اس لڑکی کو طلاق دے کر اس کی ماں سے نکاح کر لیا اس سے اولاد بھی ہوئی پھر حضرت ابن مسعود مدینہ آئے اور اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ حلال نہیں چنانچہ آپ واپس کوفے گئے اور اس سے کہا کہ اس عورت کو الگ کر دے یہ تجھ پر حرام ہے اس نے اس فرمان کی تعمیل کی اور اسے الگ کر دیا جمہور علماء اس طرف ہیں لڑکی تو صرف عقد نکاح سے حرام نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس کی ماں سے مباشرت نہ کی ہو ہاں ماں صرف لڑکی کے عقد نکاح ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے گو مباشرت نہ ہوئی ہو ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے طلاق دے دے یا وہ عورت مر جائے تو اس کی ماں اس پر حلال نہیں چونکہ مبہم ہے اس لئے اسے ناپسند فرمایا ، حضرت ابن مسعود ، عمران بن حصین ، مسروق ، طاؤس ، عکرمہ ، عطا ، حسن ، مکحول ، ابن سیرین ، قتادہ اور زہری سے بھی اسی طرح مروی ہے ، چاروں اماموں ساتوں فقہاء اور جمہور علماء سلف و خلف کا یہی مذہب ہے والحمد للہ امام ابن جریج فرماتے ہیں ٹھیک قول انہی حضرات کا ہے جو ساس کو دونوں صورتوں میں حرام بتلاتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کے ساتھ دخول کی شرط نہیں لگائی جیسے کہ لڑکی کی ماں کے لئے یہ شرط لگائی ہے پھر اس پر اجماع ہے جو ایسی دلیل ہے کہ اس کا خلاف کرنا اس وقت جائز ہی نہیں جب کہ اس پر اتفاق ہو اور ایک غریب حدیث میں بھی یہ مروی ہے گو اس کی سند میں کلام ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے اگر اس نے اس کی ماں سے نکاح کیا ہے پھر ملنے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے اس کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے ، گو اس حدیث کی سند کمزور ہے لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہو چکا ہے جو اس کی صحت پر ایسا گواہ ہے جس کے بعد دوسری گواہی کی ضرورت نہیں ، ( ٹھیک مسئلہ یہی ہے واللہ اعلم ۔ مترجم ) پھر فرماتا ہے تمہاری پرورش کی ہوئی وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہوں وہ بھی تم پر حرام ہیں بشرطیکہ تم نے ان سوتیلی لڑکیوں کی ماں سے صحبت کی ہو جمہور کا فرمان ہے کہ خواہ گود میں پلی ہوں حرام ہیں چونکہ عموماً ایسی لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور اپنے سوتیلے باپوں کے ہاں ہی پرورش پاتی ہیں اس لئے یہ کہہ دیا گیا ہے یہ کوئی قید نہیں جیسے اس آیت میں ہے آیت ( ولا تکرہوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا ) یعنی تمہاری لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر بےبس نہ کرو ، یہاں بھی یہ قید کہ اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں صرف بااعتبار واقعہ کے غلبہ کے ہے یہ نہیں کہ اگر وہ خود ایسی نہ ہوں تو انہیں بدکاری پر آمادہ کرو ، اسی طرح اس آیت میں ہے کہ گود میں چاہے نہ ہوں پھر بھی حرام ہی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ام حبیبہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میری بہن ابو سفیان کی لڑکی عزہ سے نکاح کر لیجئے ۔ آپ نے فرمایا کیا تم یہ چاہتی ہو؟ ام المومنین نے کہا ہاں میں آپ کو خالی تو رکھ نہیں سکتی پھر میں اس بھلائی میں اپنی بہن کو ہی کیوں نہ شامل کروں؟ آپ نے فرمایا ان کی وہ بیٹی جو ام سلمہ سے ہے؟ کہا ہاں ۔ فرمایا اولاً تو وہ مجھ پر اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ میری ربیبہ ہے جو میرے ہاں پرورش پا رہی ہے دوسری یہ کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حرام تھیں اس لئے کہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی میری بھتیجی ہیں ۔ مجھے اور اس کے باپ ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے ۔ خبردار اپنی بیٹیاں اور اپنی بہنیں مجھ پر پیش نہ کرو ، بخاری کی روایت ہے یہ الفاظ ہیں کہ اگر میرا نکاح ام سلمہ جسے نہ ہوا ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حلال نہ تھیں ، یعنی صرف نکاح کو آپ نے حرمت کا اصل قرار دیا ، یہی مذہب چاروں اماموں ساتوں فقیہوں اور جمہور سلف و خلف کا ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس کے ہاں پر پرورش پاتی ہو تو بھی حرام ہے ورنہ نہیں ، حضرت مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں میری بیوی اولاد چھوڑ کر مر گئیں مجھے ان سے بہت محبت تھی اس وجہ سے ان کی موت کا مجھے بڑا صدمہ ہوا حضرت علی سے میری اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے مغموم پا کر دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ میں نے واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا تجھ سے پہلے خاوند سے بھی اس کی کوئی اولاد ہے؟ میں نے کہا ہاں ایک لڑکی ہے اور وہ طائف میں رہتی ہے فرمایا پھر اس سے نکاح کر لو میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی کہ پھر اس کا کیا مطلب ہوگا ؟ آپ نے فرمایا یہ تو اس وقت ہے جبکہ اس نے تیرے ہاں پرورش پائی ہو اور وہ بقول تمہارے طائف میں رہتی ہے تیرے پاس ہے ہی نہیں گو اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ قول بالکل غریب ہے ، حضرت امام مالک کا بھی یہی قول بتایا ہے ، ابن حزم نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ، ہمارے شیخ حافظ ابو عبداللہ نسبی نے ہم سے کہا کہ میں نے یہ بات شیخ امام تقی الدین ابن تیمیہ کے سامنے پیش کی تو آپ نے اسے بہت مشکل محسوس کیا اور توقف فرمایا واللہ اعلم ۔ حجور سے مراد گھر ہے جیسے کہ حضرت ابو عبیدہ سے مروی ہے کہ ہاں جو کنیز ملکیت میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی لڑکی ہو اس کے بارے میں حضرت عمر سے سوال ہوا کہ ایک کے بعد دوسری جائز ہو گی یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا اسے پسند نہیں کرتا ، اس کی سند منقطع ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا ہے ایک آیت سے یہ حلال معلوم ہوتی ہے دوسری آیت سے حرام اس لئے میں تو ایسا ہرگز نہ کروں ، شیخ ابو عمر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کو حلال نہیں کہ کسی عورت سے پھر اس کی لڑکی سے بھی اسی ملکیت کی بنا پر وطی کرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نکاح میں بھی حرام قرار دے دیا ہے یہ آیت ملاحظہ ہو اور علماء کے نزدیک ملکیت احکام نکاح کے تابع ہے مگر جو روایت حضرت عمر اور حضرت ابن عباس سے کی جاتی ہے لیکن آئمہ فتاویٰ اور ان کے تابعین میں سے کوئی بھی اس پر متفق نہیں ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ربیبہ کی لڑکی اور اس لڑکی کی لڑکی اس طرح جس قدر نیچے یہ رشتہ چلا جائے سب حرام ہیں ، حضرت ابو العالیہ سے بھی اسی طرح یہ روایت قتادہ مروی ہے آیت ( دخلتم بہن ) سے مراد حضرت ابن عباس تو فرماتے ہیں ان سے نکاح کرنا ہے حضرت عطا فرماتے ہیں کہ وہ رخصت کر دئے جائیں کپڑا ہٹا دیا جائے چھیڑ ہو جائے اور ارادے سے مرد بیٹھ جائے ابن جریج نے سوال کیا کہ اگر یہ کام عورت ہی کے گھر میں ہوا ہو فرمایا وہاں یہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے ایسا اگر ہو گیا تو اس کی لڑکی اس پر حرام ہو گئی ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ صرف خلوت اور تنہائی ہو جانے سے اس کی لڑکی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی اگر مباشرت کرنے اور ہاتھ لگانے سے اور شہوت سے اس کے عضو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو تمام کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکی اس پر حرام نہ ہو گی تاوقتیکہ جماع نہ ہوا ہو ۔ پھر فرمایا تمہاری بہوئیں بھی تم پر حرام ہیں جو تمہاری اولاد کی بیویاں ہوں یعنی لے پالک لڑکوں کی بیویاں حرام نہیں ، ہاں سگے لڑکے کی بیوی یعنی بہو اپنے کسر پر حرام ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( فلما قضی زید منہا وطرا زوجنکہا لکیلا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائہم الخ ، یعنی جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تا کہ مومنوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے ، حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کی بیوی سے نکاح کر لیا تو مکہ کے مشرکوں نے کائیں کائیں شروع کر دی اس پر یہ آیت اور آیت ( وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ ) 33 ۔ الاحزاب:4 ) اور آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا ) 33 ۔ الاحزاب:40 ) نازل ہوئیں یعنی بیشک صلبی لڑکے کی بیوی حرام ہے ۔ تمہارے لئے پالک لڑکے شرعاً تمہاری اولاد کے حکم میں نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ، حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں مبہم ہیں جیسے تمہارے لڑکوں کی بیویاں تمہاری ساسیں ، حضرت طاؤس ابراہیم زہری اور مکحول سے بھی اسی طرح مروی ہے میرے خیال میں مبہم سے مراد عام ہیں ۔ یعنی مدخول بہا اور غیر مدخول دونوں ہی شامل ہیں اور صرف نکاح کرتے ہی حرمت ثابت ہو جاتی ہے ۔ خواہ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس مسئلہ پر اتفاق ہے اگر کوئی شخص سوال کرے کہ رضاعی بیٹے کی حرمت کیسے ثابت ہو گی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے کا ذکر ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ حرمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا رضاعت سے وہ حرام ہے جو نسبت سے حرام ہے ۔ جمہور کا مذہب یہی ہے کہ رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے بعض لوگوں نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرنا بھی تم پر حرام ہے اسی طرح ملکیت کی لونڈیوں کا حکم ہے کہ دو بہنوں سے ایک ہی وقت وطی حرام ہے مگر جاہلیت کے زمانہ میں جو ہو چکا اس سے ہم درگزر کرتے ہیں پس معلوم ہوا کہ اب یہ کام آئندہ کسی وقت جائز نہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى ۚ وَوَقٰىهُمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ ) 44 ۔ الدخان:56 ) یعنی وہاں موت نہیں آئے گی ہاں پہلی موت جو آنی تھی سو آچکی تو معلوم ہوا کہ اب آئندہ کبھی موت نہیں آئے گی ، صحابہ تابعین ائمہ اور سلف و خلف کے علماء کرام کا اجماع ہے کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جو شخص مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ ایک کو رکھ لے اور دوسری کو طلاق دے دے اور یہ اسے کرنا ہی پڑے گا حضرت فیروز فرماتے ہیں میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو طلاق دے دو ( مسند احمد ) ابن ماجہ ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ترمذی میں بھی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے جسے چاہو ایک کو رکھ لو اور ایک کو طلاق دے دو ، امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ، ابن ماجہ میں ابو خراش کا ایسا واقعہ بھی مذکور ہے ممکن ہے کہ ضحاک بن فیروز کی کنیت ابو خراش ہو اور یہ واقعہ ایک ہی ہو اور اس کے خلاف بھی ممکن ہے حضرت دیلمی نے رسول مقبول صلعم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں آپ نے فرمایا ان سے جسے چاہو ایک کو طلاق دے دو ( ابن مردویہ ) پس دیلمی سے مراد ضحاک بن فیروز ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ یمن کے ان سرداروں میں سے تھے جنہوں نے اسود عنسی متنبی ملعون کو قتل کیا چنانچہ دو لونڈیوں کو جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ایک ساتھ جمع کرنا ان سے وطی کرنا بھی حرام ہے ، اس کی دلیل اس آیت کا عموم ہے جو بیویوں اور اور لونڈیوں پر مشتمل ہے حضرت ابن مسعود سے اس کا سوال ہوا تو آپ نے مکروہ بتایا سائل نے کہا قرآن میں جو ہے آیت ( اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ) 4 ۔ النسآء:24 ) یعنی وہ جو جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں اس پر حضرت ابن مسعود نے فرمایا تیرا اونٹ بھی تو تیرے داہنے ہاتھ کی ملکیت میں ہے جمہور کا قول بھی یہی مشہور ہے اور آئمہ اربعہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں گو بعض سلف نے اس مسئلہ میں توقف فرمایا ہے حضرت عثمان بن عفان سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ایک آیت اسے حلال کرتی ہے دوسری حرام میں تو اس سے منع کرتا سائل وہاں سے نکلا تو راستے میں ایک صحابی سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے بھی یہی سوال کیا انہوں نے فرمایا اگر مجھے کچھ اختیار ہوتا تو میں ایسا کرنے والے کو عبرت ناک سزا دیتا ، حضرت امام مالک فرماتے ہیں میرا گمان ہے کہ یہ فرمانے والے غالباً علی کا نام اس لئے نہیں لیا کہ وہ عبدالملک بن مروان کا مصاحب تھا اور ان لوگوں پر آپ کا نام بھاری پڑتا تھا حضرت الیاس بن عامر کہتے ہیں میں نے حضرت علی بن ابی طالب سے سوال کیا کہ میری ملکیت میں دو لونڈیاں ہیں دونوں آپس میں سگی بہنیں ہیں ایک سے میں نے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور میرے ہاں اس سے اولاد بھی ہوئی ہے اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس کی بہن سے جو میری لونڈی ہے اپنے تعلقات قائم کروں تو فرمائیے شریعت کا اس میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا پہلی لونڈی کو آزاد کر کے پھر اس کی بہن سے یہ تعلقات قائم کر سکتے ہو ، اس نے کہا اور لوگ تو کہتے ہیں کہ میں اس کا نکاح کرا دوں پھر اس کی بہن سے مل سکتا ہوں ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا دیکھو اس صورت میں بھی خرابی ہے وہ یہ کہ اگر اس کا خاوند اسے طلاق دے دے یا انتقال کر جائے تو وہ پھر لوٹ کر تمہاری طرف آجائے گی ، اسے تو آزاد کر دینے میں ہی سلامتی ہے ، پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا سنو آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے احکام حلت و حرمت کے لحاظ سے یکساں ہیں ہاں البتہ تعداد میں فرق ہے یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کر سکتے اور لونڈیوں میں کوئی تعداد کی قید نہیں اور دودھ پلائی کے رشتہ سے بھی اس رشتہ کی وہ تمام عورتیں حرام ہو جاتی ہیں جو نسل اور نسب کی وجہ سے حرام ہیں ( اس کے بعد تفسیر ابن کثیر کے اصل عربی نسخے میں کچھ عبارت چھوٹی ہوئی ہے بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبارت یوں ہو گی کہ یہ روایت ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص مشرق سے یا مغرب سے صرف اس روایت کو سننے کے لئے سفر کر کے آئے اور سن کے جائے تو بھی اس کا سفر اس کے لئے سود مند رہے گا اور اس نے گویا بہت سستے داموں بیش بہا چیز حاصل کی ۔ واللہ اعلم ۔ مترجم ) یہ یاد رہے کہ حصرت علی سے بھی اسی طرح مروی ہی جس طرح حصرت عثمان سے مروی ہے چنانچہ ابن مردونیہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا دو لونڈیوں کو جو آپس میں بہنیں ہوں ایک ہی وقت جمع کر کے ان سے مباشرت کرنا ایک آیت سے حرام ہوتا ہے اور دوسری سے حلال حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لونڈیاں مجھ پر میری قرابت کی وجہ سے جو ان سے ہے بعض اور لونڈیوں کو حرام کر دیتی ہیں لیکن انہیں خود آپس میں جو قرابت ہو اس سے مجھ پر حرام نہیں ہوتیں ، جاہلیت والے بھی ان عورتوں کو حرام سمجھتے تھے جنہیں تم حرام سمجھتے ہو مگر اپنے باپ کی بیوی کو جو ان کی سگی ماں نہ ہو اور دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا وہ حرام نہیں سمجھتے تھے لیکن اسلام نے آکر ان دونوں کو بھی حرام قرار دیا اس وجہ سے ان دونوں کی حرمت کے بیان کے ساتھ ہی فرما دیا کہ جو نکاح ہو چکے وہ ہو چکے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آزاد عورتیں حرام ہیں وہی لونڈیاں بھی حرام ہیں ہاں تعداد میں حکم ایک نہیں یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کر سکتے لونڈیوں کے لئے یہ حد نہیں ، حضرت شعی بھی یہی فرماتے ہیں ابو عمرو فرماتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بارے میں جو فرمایا ہے وہی سلف کی ایک جماعت بھی کہتی ہے جن میں سے حضرت ابن عباس بھی ہیں لیکن اولاً تو اس کی نقل میں خود انہی حضرات سے بہت کچھ اختلاف ہوا ہے دوسرے یہ کہ اس قول کی طرف سمجھدار پختہ کار علماء کرام نے مطلقاً توجہ نہیں فرمائی اور نہ اسے قبول کیا حجاز عراق شام بلکہ مشرق و مغرب کے تمام فقہاء اس کے خلاف ہیں سوائے ان چند کے جنہوں نے الفاظ کو دیکھ ، سوچ سمجھ اور غور و خوض کئے بغیر ان سے علیحدگی اختیار کی ہے اور اس اجماع کی مخالفت کی ہے کامل علم والوں اور سچی سمجھ بوجھ والوں کا تو اتفاق ہے کہ دو بہنوں کو جس طرح نکاح میں جمع نہیں کر سکتے دو لونڈیوں کو بھی جو آپس میں بہنیں ہوں بہ وجہ ملکیت کے ایک ساتھ نکاح میں نہیں لا سکتے اسی طرح مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں ماں بیٹی بہن وغیرہ حرام کی گئی ہیں ان سے جس طرح نکاح حرام ہے اسی طرح اگر یہ لونڈیاں بن کر ما تحتی میں ہوں تو بھی جنسی اختلاط حرام ہے غرض نکاح اور ملکیت کے بعد کی دونوں حالتوں میں یہ سب کی سب برابر ہیں ، نہ ان سے نکاح کر کے میل جول حلال نہ ملکیت کے بعد میل جول حلال اسی طرح ٹھیک یہی حکم ہے کہ دو بہنوں کے جمع کرنے ساس اور دوسرے خاوند سے اپنی عورت کی لڑکی ہو اس کے بارے میں خود ان کے جمہور کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی دلیل ان چند مخالفین پر پوری سند اور کامل حجت ہے الغرض دو بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام اور دو بہنوں کو بطور لونڈی کہہ کر ان سے ملنا جلنا بھی حرام ۔