Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَلَا تَنۡكِحُوۡا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ‌ ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقۡتًا ؕ وَسَآءَ سَبِيۡلًا‏ ﴿22﴾
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گُزر چکا ہے ، یہ بے حیائی کا کام اور بُغض کا سبب ہے اور بڑی بُری راہ ہے ۔
و لا تنكحوا ما نكح اباؤكم من النساء الا ما قد سلف انه كان فاحشة و مقتا و ساء سبيلا
And do not marry those [women] whom your fathers married, except what has already occurred. Indeed, it was an immorality and hateful [to Allah ] and was evil as a way.
Aur unn aurton say nikkah na kero jin say tumharay baapon ney nikkah kiya hai magar jo guzar chuka hai yeh bey hayaee ka kaam aur bughz ka sabab hai aur bari buri raah hai.
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ دادا ( کسی وقت ) نکاح کرچکے ہوں ، تم انہیں نکاح میں نہ لاؤ ، البتہ پہلے جو کچھ ہوچکا وہ ہوچکا ۔ ( ١٨ ) یہ بڑی بے حیائی ہے ، گھناؤنا عمل ہے ، اور بے راہ روی کی بات ہے ۔
اور باپ دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کرو ( ف٦۱ ) مگر جو ہو گزرا وہ بیشک بےحیائی ( ف٦۲ ) اور غضب کا کام ہے ، اور بہت بری راہ ( ف٦۳ )
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں ان سے ہرگز نکاح نہ کرو ، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا ۔ 32 درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے ، ناپسندیدہ ہے اور برا چلن ہے ۔ 33 ؏۳
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں مگر جو ( اس حکم سے پہلے ) گزر چکا ( وہ معاف ہے ) ، بیشک یہ بڑی بے حیائی اور غضب ( کا باعث ) ہے اور بہت بری روِش ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :32 تمدنی اور معاشرتی مسائل میں جاہلیت کے غلط طریقوں کو حرام قرار دیتے ہوئے بالعموم قرآن مجید میں یہ بات ضرور فرمائی جاتی ہے کہ ”جو ہو چکا سو ہو چکا“ ۔ اس کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ بے علمی اور نادانی کے زمانہ میں جو غلطیاں تم لوگ کرتے رہے ہو ان پر گرفت نہیں کی جائے گی ، بشرطیکہ اب حکم آجانے کے بعد اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لو اور جو غلط کام ہیں انہیں چھوڑ دو ۔ دوسرے یہ کہ زمانہ سابق کے کسی طریقے کو اب اگر حرام ٹھیرایا گیا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ پچھلے قانون یا رسم و رواج کے مطابق جو کام پہلے کیے جا چکے ہیں ان کو کالعدم ، اور ان سے پیدا شدہ نتائج کو ناجائز ، اور عائد شدہ ذمہ داریوں کو لازماً ساقط بھی کیا جا رہا ہے ۔ مثلاً اگر سوتیلی ماں سے نکاح کو آج حرام کیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اب تک جتنے لوگوں نے ایسے نکاح کیے تھے ان کی اولاد حرامی قرار دی جا رہی ہے اور اپنے باپوں کے مال میں ان کا حق وراثت ساقط کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح اگر لین دین کے کسی طریقے کو حرام کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے جتنے معاملات اس طریقے پر ہوئے ہیں انہیں بھی کالعدم ٹھیرا دیا گیا ہے اور اب وہ سب دولت جو اس طریقے سے کسی نے کمائی ہو اس سے واپس لی جائے گی یا مال حرام ٹھیرائی جائے گی ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :33 اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جرم ہے اور قابل دست اندازی پولیس ہے ۔ ابوداؤد ، نسائی اور مسند احمد میں یہ روایات ملتی ہیں کہ نبی صلی علیہ وسلم نے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو موت اور ضبطی جائداد کی سزا دی ہے ۔ اور ابن ماجہ نے ابن عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے یہ قاعدہ کلیہ ارشاد فرمایا تھا کہ من وقع علی ذات محرم فاقتلوہ ۔ ” جو شخص محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے اسے قتل کر دو ۔ “ فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے ۔ امام احمد تو اسی بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کو قتل کیا جائے اور اس کامال ضبط کر لیا جائے ۔ امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ اگر اس نے محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کیا ہو تو اس پر حد زنا جاری ہوگی ، اور اگر نکاح کیا ہو تو اسے سخت عبرتناک سزا دی جائے گی ۔