Surah

Information

Surah # 59 | Verses: 24 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 101 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
هُوَ اللّٰهُ الَّذِىۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ۚ اَلۡمَلِكُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُهَيۡمِنُ الۡعَزِيۡزُ الۡجَـبَّارُ الۡمُتَكَبِّرُ‌ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿23﴾
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں بادشاہ نہایت پاک سب عیبوں سے صاف امن دینے والا نگہبان غالب زورآور اور بڑائی والا پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں ۔
هو الله الذي لا اله الا هو الملك القدوس السلم المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر سبحن الله عما يشركون
He is Allah , other than whom there is no deity, the Sovereign, the Pure, the Perfection, the Bestower of Faith, the Overseer, the Exalted in Might, the Compeller, the Superior. Exalted is Allah above whatever they associate with Him.
Wohi Allah hai jiss kay siwa koi mabood nahi badshah nihayat pak sab aeybon say saaf aman denay wala nighehbaan ghalib zor aawar aur baraee wala pak hai Allah unn cheezon say jinhen yeh uss ka shareek banatay hain.
وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، جو بادشاہ ہے ، تقدس کا مالک ہے ، سلامتی دینے والا ہے ، امن بخشنے والا ہے ، سب کا نگہبان ہے ، بڑے اقتدار والا ہے ، ہر خرابی کی اصلاح کرنے والا ہے ، بڑائی کا مالک ہے ۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔
وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں بادشاہ ( ف٦۸ ) نہایت پاک ( ف٦۹ ) سلامتی دینے والا ( ف۷۰ ) امان بخشنے والا ( ف۷۱ ) حفاظت فرمانے والا عزت والا عظمت والا تکبر والا ( ف۷۲ ) اللہ کو پاکی ہے ان کے شرک سے ،
وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ بادشاہ 36 ہے نہایت مقدس37 ، سراسر سلامتی ، امن دینے والا 38 ، نگہبان 40 ، سب پر غالب 41 ، اپنا حکم بزورنافذ کرنے والا 42 ، اور بڑا ہی ہو کر 43 رہنے والا ۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں 44 ۔
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ( حقیقی ) بادشاہ ہے ، ہر عیب سے پاک ہے ، ہر نقص سے سالم ( اور سلامتی دینے والا ) ہے ، امن و امان دینے والا ( اور معجزات کے ذریعے رسولوں کی تصدیق فرمانے والا ) ہے ، محافظ و نگہبان ہے ، غلبہ و عزّت والا ہے ، زبردست عظمت والا ہے ، سلطنت و کبریائی والا ہے ، اللہ ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :36 اصل میں لفظ اَلْمَلِکْ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے ۔ نیز مطلقاً الملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے ۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے ۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے ۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے ۔ اور اس کی حاکمیت ( Sovereignty ) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے ان سارے پہلوؤں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : وَلَہ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہ قٰنِتُوْنَ ( الروم: 26 ) زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں ، سب اس کے تابع فرمان ہیں ۔ یُدَ بِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْض ، ( السجدہ 5 ) ۔ آسمان سے زمین تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے ۔ لَہ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۔ ( الحدید: 5 ) ۔ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ ( الفرقان : 2 ) بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔ بِیَدِہ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ ( یٰس : 83 ) ۔ ہر چیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔ ( البروج : 16 ) ۔ جس چیز کا ارادہ کرے اسے کر گزرنے والا ۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ ( الانبیاء : 23 ) جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے ، اور سب جواب دہ ہیں ۔ وَاللہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ۔ ( الرعد:41 ) اور اللہ فیصلہ کرتا ہے ، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے ۔ وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَیْہِ ۔ ( المؤمنون : 88 ) ۔ اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا ۔ قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکَ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ ( آل عمران : 26 ) ۔ کہو ، خدایا ، ملک کے مالک ، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے ۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ ان توضیحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حاکمیت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں ، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے ۔ بلکہ درحقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے ۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو ، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو ، یا کوئی قوم ہو ، اسے فی الواقع کوئی حاکمیت حاصل نہیں ہے ، کیونکہ حاکمیت سرے سے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو ، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہو جاتی ہو ، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہو ، جس کا قیام و بقاء عارضی و وقتی ہو ، اور جس کے دائرہ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں ۔ لیکن قرآن مجید صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا بادشاہ ہے ، بلکہ بعد کے فقروں میں تصریح کرتا ہے کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو قدوس ہے ، سلام ہے ، مومن ہے ، مہیمن ہے ، عزیز ہے ، جبار ہے ، متکبر ہے ، خالق ہے ، باری ہے اور مصور ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :37 اصل میں لفظ قُدُّوس استعمال ہوا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ اس کا مادہ قدس ہے ۔ قدس کے معنی ہیں تمام بری صفات سے پاکیزہ اور منزہ ہونا ۔ اور قُدُّوس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بدرجہا بالا و برتر ہے کہ اس کی ذات میں کوئی عیب ، یا نقص ، یا کوئی قبیح صفت پائی جائے ۔ بلکہ وہ ایک پاکیزہ ترین ہستی ہے جس کے بارے میں کسی برائی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قدوسیت در حقیقت حاکمیت کے اولین لوازم میں سے ہے ۔ انسان کی عقل اور فطرت یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ حاکمیت کی حامل کوئی ایسی ہستی ہو جو شریر اور بد خلق اور بد نیت ہو ۔ جس میں قبیح صفات پائی جاتی ہوں ۔ جس کے اقتدار سے اس کے محکوموں کو بھلائی نصیب ہونے کے بجائے برائی کا خطرہ لاحق ہو ۔ اسی بنا پر انسان جہاں بھی حاکمیت کو مرکوز قرار دیتا ہے وہاں قدوسیت نہیں بھی ہوتی تو اسے موجود فرض کر لیتا ہے ، کیونکہ قدوسیت کے بغیر اقتدار مطلق ناقابل تصور ہے ۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا در حقیقت کوئی مقتدر اعلیٰ بھی قدوس نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا ۔ شخصی بادشاہی ہو یا جمہور کی حاکمیت ، یا اشتراکی نظام کی فرمانروائی ، یا انسانی حکومت کی کوئی دوسری صورت ، بہرحال اس کے حق میں قدوسیت کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :38 اصل میں لفظ السلام استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں سلامتی ۔ کسی کو سلیم ، یا سام کہنے کے بجائے سلامتی کہنے سے خود بخود مبالغہ کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ مثلاً کسی کو حسین کہنے کے بجائے حسن کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سراپا حسن ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو السلام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سراسر سلامتی ہے ۔ اس کی ذات اس سے بالا تر ہے کہ کوئی آفت ، یا کمزوری یا خامی اس کو لاحق ہو ، یا کبھی اس کے کمال پر زوال آئے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :39 اصل میں لفظ اَلْمُؤْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ امن ہے ۔ امن کے معنی ہیں خوف سے محفوظ ہونا ۔ اور مؤْمِن وہ ہے جو دوسرے کو امن دے ۔ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں مؤمِن کہا گیا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے ۔ اس کی خلق اس خوف سے بالکل محفوظ ہے کہ وہ کبھی اس پر ظلم کرے گا ، یا اس کا حق مارے گا ، یا اس کا اجر ضائع کرے گا ، یا اس کے ساتھ اپنے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا ۔ پھر چونکہ اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ وہ کس کو امن دینے والا ہے ، بلکہ مطلقاً المؤمن کہا گیا ہے ، اس لیے اس سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ اس کا امن ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کے لیے ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :40 اصل میں لفظ اَلْمُھَیْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنی ہیں ۔ ایک نگہبانی اور حفاظت کرنے والا ۔ دوسرے ، شاہد ، جو دیکھ رہا ہو کہ کون کیا کرتا ہے ۔ تیسرے ، قائم بامور الخلق ، یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو ۔ یہاں بھی چونکہ مطلقاً لفظ المہیمن استعمال کیا گیا ہے ، اور اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کس کا نگہبان و محافظ ، کس کا شاہد ، اور کس کی خبر گیری کی ذمہ داری اٹھانے والا ہے ، اس لیے اس اطلاق سے خود بخود مفہوم نکلتا ہے کہ وہ تمام مخلوقات کی نگہبانی و حفاظت کر رہا ہے ، سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے ، اور کائنات کی ہر مخلوق کی خبر گیری ، اور پرورش ، اور ضروریات کی فراہمی کا اس نے ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :41 اصل میں لفظ العزیز استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے ایسی زبردست ہستی جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو ، جس کے فیصلوں کی مزاحمت کرنا کسی کے بس میں نہ ہو ، جس کے آگے سب بے بس اور بے زور ہوں ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :42 اصل میں لفظ الجبار استعمال ہوا ہے جس کا مادہ جبر ہے ۔ جبر کے معنی ہیں کسی شے کو طاقت سے درست کرنا ، کسی چیز کی بزور اصلاح کرنا ۔ اگرچہ عربی زبان میں کبھی جبر محض اصلاح کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، اور کبھی صرف زبردستی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن اس کا حقیقی مفہوم اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ کو جبار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کائنات کا نظم بزور درست رکھنے والا اور اپنے ارادے کو ، جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے ، جبراً نافذ کرنے والا ہے ۔ علاوہ بریں لفظ جبار میں عظمت کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ عربی زبان میں کھجور کے اس درخت کو جبار کہتے ہیں جو اتنا بلند و بالا ہو کہ اس کے پھل توڑنا کسی کے لیے آسان نہ ہو ۔ اسی طرح کوئی کام جو بڑا عظیم الشان ہو عمل جبار کہلاتا ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :43 اصل میں لفظ الْمُتَکَبِّر استعمال ہوا ہے جس کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک وہ جو فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر خواہ مخواہ بڑا بنے ۔ دوسرے وہ جو حقیقت میں بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے ۔ انسان ہو یا شیطان ، یا کوئی اور مخلوق ، چونکہ بڑائی فی الواقع اس کے لیے نہیں ہے ، اس لیے اس کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ایک جھوٹا ادعا اور بدترین عیب ہے ۔ اس کے برعکس ، اللہ تعالیٰ حقیقت میں بڑا ہے اور بڑائی فی الواقع اسی کے لیے ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے مقابلے میں حقیر و ذلیل ہے ، اس لیے اس کا بڑا ہونا اور بڑا ہی ہو کر رہنا کوئی ادعا اور تصنع نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے ، ایک بری صفت نہیں بلکہ ایک خوبی ہے جو اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :44 یعنی اس کے اقتدار اور اختیارات اور صفات میں ، یا اس کی ذات میں ، جو لوگ بھی کسی مخلوق کو اس کا شریک قرار دے رہے ہیں ۔ وہ در حقیقت ایک بہت بڑا جھوٹ بول رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ کسی معنی میں بھی کوئی اس کا شریک ہو ۔