Surah

Information

Surah # 59 | Verses: 24 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 101 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
هُوَ اللّٰهُ الۡخَـالِـقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ‌ لَـهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿24﴾
وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا صورت بنانے والا اسی کے لئے ( نہایت ) اچھے نام ہیں ہرچیز خواہ وہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے ۔
هو الله الخالق البار المصور له الاسماء الحسنى يسبح له ما في السموت و الارض و هو العزيز الحكيم
He is Allah , the Creator, the Inventor, the Fashioner; to Him belong the best names. Whatever is in the heavens and earth is exalting Him. And He is the Exalted in Might, the Wise.
Wohi Allah hai peda kerney wala wujood bakshney wala soorat bananey wala ussi kay liye ( nihayat ) achay naam hain her cheez khuwa woh aasman mein ho khuwa zamin mein ho uss ki paki biyan kerti hai aur wohi ghalib hikmat wala hai.
وہ اللہ وہی ہے جو پیدا کرنے والا ہے ، وجود میں لانے والا ہے صورت بنانے والا ہے ، ( ١٤ ) اسی کے سب سے اچھے نام ہیں ۔ آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ اس کی تسبیح کرتی ہیں ، اور وہی ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔
وہی ہے اللہ بنانے والا پیدا کرنے والا ( ف۷۳ ) ہر ایک کو صورت دینے والا ( ف۷٤ ) اسی کے ہیں سب اچھے نام ( ف۷۵ ) اس کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی عزت و حکمت والا ہے ،
وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے 45 ۔ اس کے لیئے بہترین نام ہیں 46 ۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی 47 ہے ، اور وہ زبردست اور حکیم 48 ہے ۔ ع
وہی اللہ ہے جو پیدا فرمانے والا ہے ، عدم سے وجود میں لانے والا ( یعنی ایجاد فرمانے والا ) ہے ، صورت عطا فرمانے والا ہے ۔ ( الغرض ) سب اچھے نام اسی کے ہیں ، اس کے لئے وہ ( سب ) چیزیں تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ، اور وہ بڑی عزت والا ہے بڑی حکمت والا ہے
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :45 یعنی پوری دنیا اور دنیا کی ہر چیز تخلیق کے ابتدائی منصوبے سے لے کر اپنی مخصوص صورت میں وجود پذیر ہونے تک بالکل اسی کی ساختہ پر داختہ ہے ۔ کوئی چیز بھی نہ خود وجود میں آئی ہے ، نہ اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے ، نہ اس کی ساخت و پرداخت میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر کوئی دخل ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے فعل تخلیق کو تین الگ مراتب میں بیان کیا گیا ہے جو یکے بعد دیگرے واقع ہوتے ہیں ۔ پہلا مرتبہ خَلُق ہے جس کے معنی تقدیر یا منصوبہ سازی کے ہیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی انجینیئر ایک عمارت بنانے سے پہلے یہ ارادہ کرتا ہے کہ اسے ایسی اور ایسی عمارت فلاں خاص مقصد کے لیے بنانی ہے اور اپنے ذہن میں اس کا نقشہ ( Design ) سوچتا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیر تجویز عمارت کی تفصیلی صورت اور مجموعی شکل یہ ہونی چاہیے ۔ دوسرا مرتبہ ہے برء ، جس کے اصل معنی ہیں جدا کرنا ، چاک کرنا ، پھاڑ کر الگ کرنا ۔ خالق کے لیے باری کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سوچے ہوئے نقشے کو نافذ کرتا اور اس چیز کو ، جس کا نقشہ اس نے سوچا ہے ، عدم سے نکال کر وجود میں لاتا ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے انجینیئر نے عمارت کا جو نقشہ ذہن میں بنایا تھا اس کے مطابق وہ ٹھیک ناپ تول کر کے زمین پر خط کشی کرتا ہے ، پھر بنیادیں کھودتا ہے ، دیواریں اٹھاتا ہے اور تعمیر کے سارے عملی مراحل طے کرتا ہے ۔ تیسرا مرتبہ تصویر ہے جس کے معنی ہیں صورت بنانا ، اور یہاں اس سے مراد ہے ایک شے کو اس کی آخری مکمل صورت میں بنا دینا ۔ ان تینوں مراتب میں اللہ تعالیٰ کے کام اور انسانی کاموں کے درمیان سے کوئی مشابہت نہیں ہے ۔ انسان کا کوئی منصوبہ بھی ایسا نہیں ہے جو سابق نمونوں سے ماخوذ نہ ہو ۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ہر منصوبہ بے مثال اور اس کی اپنی ایجاد ہے ۔ انسان جو کچھ بھی بناتا ہے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ مادوں کو جوڑ جاڑ کر بناتا ہے ۔ وہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لاتا بلکہ جو کچھ وجود میں لایا ہے اور وہ مادہ بھی بجائے خود اس کا پیدا کردہ ہے جس سے اس نے یہ دنیا بنائی ہے ۔ اسی طرح سورت گری کے معاملہ میں بھی انسان موجد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کا نقال اور بھونڈا نقال ہے ۔ اصل مصور اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہر جنس ، ہر نوع ، اور ہر فرد کی صورت لا جواب بنائی ہے اور کبھی ایک صورت کی ہو بہو تکرار نہیں کی ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :46 ناموں سے مراد اسمائے صفات ہیں ۔ اور اس کے لیے بہترین نام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے وہ اسمائے صفات موزوں نہیں ہیں جن سے کسی نوعیت کے نقص کا اظہار ہوتا ہو ، بلکہ اس کو ان ناموں سے یاد کرنا چاہیے جو اس کی صفات کمالیہ کا اظہار کرتے ہوں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کے یہ اسمائے حسنیٰ بیان کیے گئے ہیں ، اور حدیث میں اس ذات پاک کے 99 نام گنائے گئے ہیں ، جنہیں ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ کی رویت سے بالتفصیل نقل کیا ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اگر آدمی ان اسماء کو بغور پڑھے تو وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں اگر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہو تو کون سے الفاظ اس کے لیے موزوں ہوں گے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :47 یعنی زبان قال یا زبان حال سے یہ بیان کر رہی ہے کہ اس کا خالق ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :48 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ حدید ، حاشیہ 2 ۔