Surah

Information

Surah # 60 | Verses: 13 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 91 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( ف۱ )
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْمُمْتَحِنَة نام : اس سورہ کی آیت نمبر 10 میں حکم دیا گیا ہے کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کریں ان کا امتحان لیا جائے ۔ اسی مناسبت سے اس کا نام الممتحنہ رکھا گیا ہے ۔ اس کا تلفظ ممتَحَنَہ بھی کیا جاتا ہے اور ممتَحِنَہ بھی ۔ پہلے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں وہ عورت جس کا امتحان لیا جائے ۔ اور دوسرے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں امتحان لینے والی سورۃ ۔ زمانہ نزول : اس میں دو ایسے معاملات پر کلام فرمایا گیا ہے جن کا زمانہ تاریخی طور پر معلوم ہے ۔ پہلا معاملہ حضرت حاطب بن ابی بلْتَعَہ کا ہے جنہوں نے فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے ایک خفیہ خط کے ذریعہ سے قریش کے سرداروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے کی اطلاع بھیجی تھی کہ آپ ان پر حملہ کرنے والے ہیں ۔ اور دوسرا معاملہ ان مسلمان عورتوں کا ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے لگی تھیں اور ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ شرائط صلح کی رو سے مسلمان مردوں کی طرح کیا ان عورتوں کو بھی کفار کے حوالہ کر دیا جائے؟ ان دو معاملات کے ذکر سے یہ بات قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ یہ سورہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے ان کے علاوہ ایک تیسرا معاملہ بھی ہے جس کا ذکر سورۃ کے آخر میں آیا ہے ، اور وہ یہ کہ جب عورتیں ایمان لا کر بیعت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان سے کن باتوں کا عہد لیں ۔ اس حصے کے متعلق بھی قیاس یہی ہے کہ یہ بھی فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوا ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد قریش کے مردوں کی طرح ان کی عورتیں بھی بہت بڑی تعداد میں بیک وقت داخل اسلام ہونے والی تھیں اور اسی موقع پر یہ ضرورت پیش آئی تھی کہ اجتماعی طور پر ان سے عہد لیا جائے ۔ موضوع اور مباحث : اس سورۃ کے تین حصے ہیں : پہلا حصہ آغاز سورہ سے آیت 9 تک چلتا ہے اور سورۃ کے خاتمہ پر آیت 13 بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے محض اپنے اہل و عیال کو بچانے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت اہم جنگی راز سے دشمنوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی تھی جسے اگر بر وقت ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر بڑا کشت و خون ہوتا ، مسلمانوں کی بھی بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوتیں ، قریش کے بھی بہت سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمات انجام دینے والے تھے ، وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پر امن طریقہ سے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے ، اور اتنے عظیم نقصانات صرف اس وجہ سے ہوتے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے بال بچوں کو جنگ کے خطرات سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا ۔ اس شدید غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ کسی مومن کو کسی حال میں اور کسی غرض کے لیے بھی اسلام کے دشمن کافروں کے ساتھ محبت اور دوستی کا تعلق نہ رکھنا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہ کرنا چاہیے جو کفر و اسلام کی کشمکش میں کفار کے لیے مفید ہو ۔ البتہ جو کافر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عملاً دشمنی اور ایذا رسانی کا برتاؤ نہ کر رہے ہوں ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ دوسرا حصہ آیات 10 ۔ 11 پر مشتمل ہے ۔ اس میں ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت بڑی پیچیدگی پیدا کر رہا تھا ۔ مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتی تھیں ۔ اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان مرد ایسے تھے جن کی بیویاں کافر تھیں اور وہ مکہ ہی میں رہ گئی تھیں ۔ ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج باقی ہے یا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ فیصلہ فرما دیا کہ مسلمان عورت کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہے ، اور مسلمان مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مشرک بیوی کو اپنے نکاح میں رکھے ۔ یہ فیصلہ بڑے اہم قانونی نتائج رکھتا ہے جن کی تفصیل ہم آگے اپنے حواشی میں بیان کریں گے ۔ تیسرا حصہ آیت 12 پر مشتمل ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کریں ان سے آپ ان بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیں جو جاہلیت عرب کے معاشرے میں عورتوں کے اندر پھیلی ہوئی تھیں اور اس بات کا اقرار کرائیں کہ آئندہ وہ بھلائی کے ان تمام طریقوں کی پیروی کریں گی جن کا حکم اللہ کے رسول کی طرف سے ان کو دیا جائے ۔