Surah

Information

Surah # 60 | Verses: 13 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 91 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُوۡا بِمَا جَآءَكُمۡ مِّنَ الۡحَـقِّ‌ ۚ يُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَاِيَّاكُمۡ‌ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ رَبِّكُمۡ ؕ اِنۡ كُنۡـتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَادًا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِىۡ ‌ۖ  تُسِرُّوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ ‌ۖ  وَاَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَيۡتُمۡ وَمَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡ‌ؕ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡهُ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ‏ ﴿1﴾
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور ( خود ) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں ، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو اگر تم میری راہ میں جہاد کے لئے اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو ( تو ان سے دوستیاں نہ کرو ) ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا ، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا ۔
يايها الذين امنوا لا تتخذوا عدوي و عدوكم اولياء تلقون اليهم بالمودة و قد كفروا بما جاءكم من الحق يخرجون الرسول و اياكم ان تؤمنوا بالله ربكم ان كنتم خرجتم جهادا في سبيلي و ابتغاء مرضاتي تسرون اليهم بالمودة و انا اعلم بما اخفيتم و ما اعلنتم و من يفعله منكم فقد ضل سواء السبيل
O you who have believed, do not take My enemies and your enemies as allies, extending to them affection while they have disbelieved in what came to you of the truth, having driven out the Prophet and yourselves [only] because you believe in Allah , your Lord. If you have come out for jihad in My cause and seeking means to My approval, [take them not as friends]. You confide to them affection, but I am most knowing of what you have concealed and what you have declared. And whoever does it among you has certainly strayed from the soundness of the way.
Aey woh logo jo eman laye ho! Meray aur ( khud ) apney dushmanon ko apna dost na banao tum to dosti say unn ki taraf payghaam bhejtay ho aur woh iss haq kay sath jo tumharay pass aa chuka hai kufur kertay hain payghumbar ko aur khud tumhen bhi mehaz iss waja say jila watan kertay hain kay tum apney rab per eman rakhtay ho agar tum meri raah mein jihad kay liye aur meri raza mandi ki talab mein nikaltay ho ( to inn say dostiyan na kero ) tum inn kay pass mohabbat ka paygham posheeda posheeda bhejtay ho aur mujhay khoob maloom hai jo tum ney chupaya aur woh bhi jo tum ney zahir kiya tum mein say jo bhi iss kaam ko keray ga woh yaqeenan raah-e-raast say behak jaye ga.
اے ایمان والو ! اگر تم میرے راستے میں جہاد کرنے کی خاطر اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ( گھروں سے ) نکلے ہو تو میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ایسا دوست مت بناؤ کہ ان کو محبت کے پیغام بھیجنے لگو ، حالانکہ تمہارے پاس جو حق آیا ہے ، انہوں نے اس کو اتنا جھٹلایا ہے کہ وہ رسول کو بھی اور تمہیں بھی صرف اس وجہ سے ( مکے سے ) باہر نکالتے رہے ہیں کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو ۔ تم ان سے خفیہ طور پر دوستی کی بات کرتے ہو ، حالانکہ جو کچھ تم خفیہ طور پر کرتے ہو ، اور جو کچھ علانیہ کرتے ہو ، میں اس سب کو پوری طرح جانتا ہے ۔ اور تم میں سے کوئی بھی ایسا کرے ، وہ راہ راست سے بھٹک گیا ۔ ( ١ )
اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ( ف۲ ) تم انہیں خبریں پہنچاتے ہو دوستی سے حالانکہ وہ منکر ہیں اس حق کے جو تمہارے پاس آیا ( ف۳ ) گھر سے جدا کرتے ہیں ( ف٤ ) رسول کو اور تمہیں اس پر کہ تم اپنے رب پر ایمان لائے ، اگر تم نکلے ہو میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا چاہنے کو تو ان سے دوستی نہ کرو تم انہیں خفیہ پیامِ محبت بھیجتے ہو ، اور میں خوب جانتا ہوں جو تم چھپاؤ اور جو ظاہر کرو ، اور تم میں جو ایسا کرے بیشک وہ سیدھی راہ سے بہکا ،
1 اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اگر تم میری راہ جہاد کرنے کے لئے اور میری رضا جوئی کی خاطر ( وطن چھوڑ کر گھروں سے ) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو ، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب ، اللہ پر ایمان لائے ہو ۔ تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام بھجتے ہو ، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو ، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں ۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقینا راہ راست سے بھٹک گیا ۔
اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم ( اپنے ) دوستی کے باعث اُن تک خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ وہ اس حق کے ہی مُنکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے ، وہ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اور تم کو اس وجہ سے ( تمہارے وطن سے ) نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر جو تمہارا پروردگار ہے ، ایمان لے آئے ہو ۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا تلاش کرنے کے لئے نکلے ہو ( تو پھر اُن سے دوستی نہ رکھو ) تم اُن کی طرف دوستی کے خفیہ پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم آشکار کرتے ہو ، اور جو شخص بھی تم میں سے یہ ( حرکت ) کرے سو وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہے
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :1 مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز ہی میں اس واقعہ کی تفصیلات بیان کر دی جائیں جس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تاکہ آگے کا مضمون سمجھنے میں آسانی ہو ۔ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے اور ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ، غزوہ بن زبیر وغیرہ حضرات کی متفقہ روایت بھی یہی ہے کہ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا تھا جب مشرکین مکہ کے نام حضرت حاطب ابی بُلْتَعہ کا خط پکڑا گیا تھا ۔ قصہ یہ ہے کہ جب قریش کے لوگوں نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں ، مگر چند مخصوص صحابہ کے سوا کسی کو یہ نہ بتایا کہ آپ کس مہم پر جانا چاہتے ہیں ۔ اتفاق سے اسی زمانے میں مکہ معظمہ سے ایک عورت آئی جو پہلے بنی عبدالمطلب کی لونڈی تھی اور پھر آزاد ہو کر گانے بجانے کا کام کرتی تھی ۔ اس نے آ کر حضور سے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی اور کچھ مالی مدد مانگی ۔ آپ نے بنی عبدالمطلب اور بنی المطلب سے اپیل کر کے اس کی حاجت پوری کر دی ۔ جب وہ مکہ جانے لگی تو حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعہ اس سے ملے اور اس کو چپکے سے ایک خط بعض سرداران مکہ کے نام دیا اور دس دینار روپے دیے تاکہ وہ راز فاش نہ کرے اور چھپا کر یہ خط ان لوگوں تک پہنچا دے ۔ ابھی وہ مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر مطلع فرما دیا ۔ آپ نے فوراً حضرت علی ، حضرت زبیر اور حضرت مقداد بن اسود ( رضی اللہ عنہم ) کو اس کے پیچھے بھیجا اور حکم دیا کہ تیزی سے جاؤ ، روضہ خاخ کے مقام پر ( مدینہ سے 12 میل بجانب مکہ ) تم کو ایک عورت ملے گی جس کے پاس مشرکین کے نام حاطب کا ایک خط ہے ۔ جس طرح بھی ہو اس سے وہ خط حاصل کرو ۔ اگر وہ دے دے تو اسے چھوڑ دینا ۔ نہ دے تو اس کو قتل کر دینا ۔ یہ حضرات جب اس مقام پر پہنچے تو عورت وہاں موجود تھی ۔ انہوں نے اس سے خط مانگا ۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ۔ انہوں نے تلاشی لی ۔ مگر کوئی خط نہ ملا ۔ آخر کو انہوں نے کہا خط ہمارے حوالے کر ورنہ ہم برہنہ کر کے تیری تلاشی لیں گے ۔ جب اس نے دیکھا کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکال کر انہیں دے دیا اور یہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے ۔ کھول کر پڑھا گیا تو اس میں قریش کے لوگوں کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر چڑھائی کی تیاری کر رہے ہیں ۔ ( مختلف روایات میں خط کے الفاظ مختلف نقل ہوئے ہیں ۔ مگر مدعا سب کا یہی ہے ) ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب سے پوچھا ، یہ کیا حرکت ہے؟ انہوں نے عرض کیا آپ میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں ۔ میں نے جو کچھ کیا ہے اس بنا پر نہیں کیا ہے کہ میں کافر و مرتد ہو گیا ہوں اور اسلام کے بعد اب کفر کو پسند کرنے لگا ہوں ۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے اقرباء مکہ میں مقیم ہیں ۔ میں قریش کے قبیلہ کا آدمی نہیں ہوں ، بلکہ بعض قریشیوں کی سرپرستی میں وہاں آباد ہوا ہوں مہاجرین میں سے دوسرے جن لوگوں کے اہل و عیال مکہ میں ہیں ان کو تو ان کا قبیلہ بچا لے گا ۔ مگر میرا کوئی قبیلہ وہاں نہیں ہے جسے کوئی بچانے والا ہو ۔ اس لیے میں نے یہ خط اس خیال سے بھیجا تھا کہ قریش والوں پر میرا ایک احسان رہے جس کا لحاظ کر کے وہ میرے بال بچوں کو نہ چھیڑیں ۔ ( حضرت حاطب کے بیٹے عبدالرحمٰن کی روایت یہ ہے کہ اس وقت حضرت حاطب کے بچے اور بھائی مکہ میں تھے ، اور خود حضرت حاطب کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ماں بھی وہیں تھیں ) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کی یہ بات سن کر حاضرین سے فرمایا : قَدْ صدقکم ، حاطب نے تم سے سچی بات کہی ہے ، یعنی ان کے اس فعل کا اصل محرک یہی تھا ، اسلام سے انحراف اور کفر کی حمایت کا جذبہ اس کا محرک نہ تھا ۔ حضرت عمر نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن ماردوں ، اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس شخص نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے ۔ تمہیں کیا خبر ، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو ، میں نے تم کو معاف کیا ۔ ( اس آخری فقرے کے الفاظ مختلف روایات میں مختلف ہیں ۔ کسی میں ہے قد غفرت لکم ، میں نے تمہاری مغفرت کر دی ۔ کسی میں ہے انی غافر لکم ، میں تمہیں بخش دینے والا ہوں ۔ اور کسی میں ہے ساغفر لکم ۔ میں تمہیں بخش دوں گا ) ۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رو دیے اور انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔ یہ ان کثیر التعداد روایات کا خلاصہ ہے جو متعدد معتبر سندوں سے بخاری ، مسلم ، احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر طبری ، ابن ہشام ، ابن حبان اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ مستند روایت وہ ہے جو خود حضرت علی کی زبان سے ان کے کاتب ( سیکرٹری ) عبید اللہ بن ابی رافع نے سنی اور ان سے حضرت علی کے پوتے حسن بن محمد بن حنفیہ نے سن کر بعد میں راویوں تک پہنچائی ۔ ان میں سے کسی روایت میں بھی یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت حاطب کا یہ عذر قبول کر کے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔
################