Surah

Information

Surah # 60 | Verses: 13 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 91 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّمَا يَنۡهٰٮكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيۡنَ قَاتَلُوۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَاَخۡرَجُوۡكُمۡ مِّنۡ دِيَارِكُمۡ وَظَاهَرُوۡا عَلٰٓى اِخۡرَاجِكُمۡ اَنۡ تَوَلَّوۡهُمۡ‌ۚ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿9﴾
اللہ تعالٰی تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس سے نکالے دیئے اور دیس سے نکالا دینے والوں کی مدد کی جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ ( قطعًا ) ظالم ہیں ۔
انما ينهىكم الله عن الذين قتلوكم في الدين و اخرجوكم من دياركم و ظهروا على اخراجكم ان تولوهم و من يتولهم فاولىك هم الظلمون
Allah only forbids you from those who fight you because of religion and expel you from your homes and aid in your expulsion - [forbids] that you make allies of them. And whoever makes allies of them, then it is those who are the wrongdoers.
Allah Taalaa tumhen sirf unn logon ki mohabbat say rokta hai jinhon ney tum say deen kay baray mein laraiyan laren aur tumhen des nikalay diye aur des nikala denay walon ki madad ki jo log aisay kuffaar say mohabbat keren woh ( qata’an ) zalim hain.
اللہ تو تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں جنگ کی ہے ، اور تمہیں اپنے گھروں سے نکالا ہے ، اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے ، تم ان سے دوستی رکھو ۔ اور جو لوگ ان سے دوستی رکھیں گے ، وہ ظالم ہیں ۔
اللہ تمہیں انہی سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے یا تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر مدد کی کہ ان سے دوستی کرو ( ف۲۷ ) اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ستمگار ہیں ،
وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے ۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں 13 ۔
اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین ( کے بارے ) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں ( یعنی وطن ) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر ( تمہارے دشمنوں کی ) مدد کی ۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :13 سابقہ آیات میں کفار سے جس ترک تعلق کی ہدایت کی گئی تھی اس کے متعلق لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو سکتی تھی کہ یہ ان کے کافر ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس لیے ان آیات میں یہ سمجھا یا گیا ہے کہ اس کی اصل وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کافر میں فرق کرنا چاہیے ، اور ان کافروں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا چاہیے جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ کوئی برائی نہ کی ہو ۔ اس کی بہترین تشریح وہ واقعہ ہے جو حضرت اسماء بنت ابی بکر اور ان کی کافر ماں کے درمیان پیش آیا تھا ۔ حضرت ابوبکر کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبدالعزّٰی کافرہ تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں ۔ حضرت اسماء انہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں ۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکہ کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئی اور کچھ تحفہ تحائف بھی لائیں ۔ حضرت اسماء کی اپنی روایت یہ ہے کہ میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، اپنی ماں سے مل لوں؟ اور کیا میں ان سے صلہ رحمی بھی کر سکتی ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اس سے صلہ رحمی کرو ( مسند احمد ۔ بخاری ۔ مسلم ) ۔ حضرت اسماء کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر اس واقعہ کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماء نے ماں سے ملنے سے انکار کردیا تھا ۔ بعد میں جب اللہ اور اس کے رسول کی اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں ( مسند احمد ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ) ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے کافر ماں باپ کی خدمت کرنا اور اپنے کافر بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنا جائز ہے جبکہ وہ دشمن اسلام نہ ہوں ۔ اور اسی طرح ذمی مساکین پر صدقات بھی صرف کیے جا سکتے ہیں ( احکام القرآن للجصاص ۔ روح المعانی ) ۔