Surah

Information

Surah # 60 | Verses: 13 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 91 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَكُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡهُنَّ‌ ؕ اَللّٰهُ اَعۡلَمُ بِاِيۡمَانِهِنَّ‌ ۚ فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡهُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ فَلَا تَرۡجِعُوۡهُنَّ اِلَى الۡكُفَّارِ‌ ؕ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمۡ وَلَا هُمۡ يَحِلُّوۡنَ لَهُنَّ‌ ۚ وَاٰ تُوۡهُمۡ مَّاۤ اَنۡفَقُوۡا‌ ؕ وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ اَنۡ تَنۡكِحُوۡهُنَّ اِذَاۤ اٰ تَيۡتُمُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ‌ ؕ وَلَا تُمۡسِكُوۡا بِعِصَمِ الۡكَوَافِرِ وَسۡــَٔـلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ وَلۡيَسۡــَٔـلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقُوۡا‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ حُكۡمُ اللّٰهِ‌ ؕ يَحۡكُمُ بَيۡنَكُمۡ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿10﴾
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو ، یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں اور جو خرچ ان کافروں کا ہوا ہو وہ انہیں ادا کردو ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہو ، مانگ لوا ور جو کچھ ان کافروں نے خرچ کیا ہو وہ بھی مانگ لیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان کر رہا ہے اللہ تعالٰی بڑے علم ( اور ) حکمت والا ہے ۔
يايها الذين امنوا اذا جاءكم المؤمنت مهجرت فامتحنوهن الله اعلم بايمانهن فان علمتموهن مؤمنت فلا ترجعوهن الى الكفار لا هن حل لهم و لا هم يحلون لهن و اتوهم ما انفقوا و لا جناح عليكم ان تنكحوهن اذا اتيتموهن اجورهن و لا تمسكوا بعصم الكوافر و سلوا ما انفقتم و ليسلوا ما انفقوا ذلكم حكم الله يحكم بينكم و الله عليم حكيم
O you who have believed, when the believing women come to you as emigrants, examine them. Allah is most knowing as to their faith. And if you know them to be believers, then do not return them to the disbelievers; they are not lawful [wives] for them, nor are they lawful [husbands] for them. But give the disbelievers what they have spent. And there is no blame upon you if you marry them when you have given them their due compensation. And hold not to marriage bonds with disbelieving women, but ask for what you have spent and let them ask for what they have spent. That is the judgement of Allah ; He judges between you. And Allah is Knowing and Wise.
Aey eman walo! Jab tumharay pass momin aurten hijrat ker kay aayen to tum unn ka imtehan lo. Dar asal unn kay eman ko ba khoobi janney wala to Allah hi hai lekin agar woh tumhen eman waliyan maloom hon to abb tum enhen kafiron ki taraf wapis na kero yeh unn kay liye halal nahi na woh inn kay liye halal hain aur jo kharach inn kafiron ka hua ho woh unhen ada kerdo inn aurton ko unn kay mehar dey ker inn say nikkah ker lenay mein tum per koi gunah nahi aur kafir aurton ki namoos apney qabzay mein na rakho aur jo kuch tum ney kharach kiya ho maang lo aur jo kuch inn kafiron ney kharach kiya ho woh bhi maang len yeh Allah ka faisla hai jo tumharay darmiyan ker raha hai Allah Taalaa baray ilm ( aur ) hikmat wala hai.
اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کو جانچ لیا کرو ۔ اللہ ہی ان کے ایمان کے بارے میں بہتر جانتا ہے ۔ پھر جب تمہیں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ مومن عورتیں ہیں تو تم انہیں کافروں کے پاس واپس نہ بھیجنا ۔ وہ ان کافروں کے لیے حلال نہیں ہیں ، اور وہ کافر ان کے لیے حلال نہیں ہیں ۔ ( ٥ ) اور ان کافروں نے جو کچھ ( ان عورتوں پر مہر کی صورت میں ) خرچ کیا ہو ، وہ انہیں ادا کرو ۔ ( ٦ ) اور تم پر ان عورتوں سے نکاح کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ، جبکہ تم نے ان کے مہر ادا نہیں کردیے ہوں ۔ اور تم کافر عورتوں کی عصمتیں اپنے قبضے میں باقی نہ رکھو ، اور جو کچھ تم نے ( ان کافر بیویوں پر مہر کی صورت میں ) خرچ کیا تھا ، وہ تم ( ان کے نئے شوہروں سے ) مانگ لو ۔ ( ٧ ) اور انہوں نے جو کچھ ( اپنی مسلمان ہوجانے والی بیویوں پر ) خرچ کیا تھا ، وہ ( ان کے نئے مسلمان شوہروں سے ) مانگ لیں ۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے ، وہی تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے ، اور اللہ بڑے علم والا ، بڑی حکمت والا ہے ۔
اے ایمان والو جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں کفرستان سے اپنے گھر چھوڑ کر آئیں تو ان کا امتحان کرو ( ف۲۸ ) اللہ ان کے ایمان کا حال بہتر جانتا ہے ، پھر اگر تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو انہیں کافروں کو واپس نہ دو ، نہ یہ ( ف۲۹ ) انہیں حلال ( ف۳۰ ) نہ وہ انہیں حلال ( ف۳۱ ) اور ان کے کافر شوہروں کو دے دو جو ان کا خرچ ہوا ( ف۳۲ ) اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان سے نکاح کرلو ( ف۳۳ ) جب ان کے مہر انہیں دو ( ف۳٤ ) اور کافرنیوں کے نکاح پر جمے نہ رہو ( ف۳۵ ) اور مانگ لو جو تمہارا خرچ ہوا ( ف۳٦ ) اور کافر مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا ( ف۳۷ ) یہ اللہ کا حکم ہے ، وہ تم میں فیصلہ فرماتا ہے ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے ،
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو ( ان کے مومن ہونے کی ) جانچ پڑ تال کر لو ، اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ پھر جب تمھیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو 14 ۔ نہ وہ کفار کے لیئے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیئے حلال ۔ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دئیے تھے وہ انہیں پھیر دو ۔ اور ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم ان کے مہر ان کو ادا کر دو 15 ۔ اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رو کے رہو ۔ جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیئے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیئے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں 16 ۔ یہ اللہ کا حکم ہے ، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے ۔
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو انہیں اچھی طرح جانچ لیا کرو ، اللہ اُن کے ایمان ( کی حقیقت ) سے خوب آگاہ ہے ، پھر اگر تمہیں اُن کے مومن ہونے کا یقین ہو جائے تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو ، نہ یہ ( مومنات ) اُن ( کافروں ) کے لئے حلال ہیں اور نہ وہ ( کفّار ) اِن ( مومن عورتوں ) کے لئے حلال ہیں ، اور اُن ( کافروں ) نے جو ( مال بصورتِ مَہر اِن پر ) خرچ کیا ہو وہ اُن کو ادا کر دو ، اور تم پر اس ( بات ) میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اِن سے نکاح کر لو جبکہ تم اُن ( عورتوں ) کا مَہر انہیں ادا کر دو ، اور ( اے مسلمانو! ) تم بھی کافر عورتوں کو ( اپنے ) عقدِ نکاح میں نہ روکے رکھو اور تم ( کفّار سے ) وہ ( مال ) طلب کر لو جو تم نے ( اُن عورتوں پر بصورتِ مَہر ) خرچ کیا تھا اور وہ ( کفّار تم سے ) وہ ( مال ) مانگ لیں جو انہوں نے ( اِن عورتوں پر بصورتِ مَہر ) خرچ کیا تھا ، یہی اللہ کا حکم ہے ، اور وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرما رہا ہے ، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :14 اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اول اول تو مسلمان مرد مکہ سے بھاگ بھاگ کر مدینہ آتے رہے اور انہیں معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کیا جاتا رہا ۔ پھر مسلمان عورتوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سب سے پہلے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کر کے مدینے پہنچیں ۔ کفار نے معاہدے کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا اور ام کلثوم کے دو بھائی ولید بن عقبہ اور عمارہ بن عقبہ انہیں واپس لے جانے کے لیے مدینے پہنچ گئے ۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ مسلمان ہوں اور یہ اطمینان کر لیا جائے کہ واقعی وہ ایمان ہی کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں ، کوئی اور چیز انہیں نہیں لائی ہے ، تو انہیں واپس نہ کیا جائے ۔ اس مقام پر احادیث کی روایت بالمعنیٰ سے ایک بڑی پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے جسے حل کرنا ضروری ہے ۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کے متعلق احادیث میں جو روایتیں ہمیں ملتی ہیں وہ اکثر و بیشتر بالمعنیٰ روایات ہیں ۔ زیر بحث شرط کے متعلق ان میں سے کسی روایت کے الفاظ یہ ہیں : من جاء منکم لم نردہ علیکم ومن جاء کم منا رددتموہ علینا ۔ تم میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو تمہارے پاس جائے گا اسے تم واپس کرو گے ۔ کسی میں یہ الفاظ ہیں ، من اتٰی رسول اللہ من اصحابہ بغیر اذن ولیہ ردہ علیہ ۔ رسول اللہ کے پاس ان کے اصحاب میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا اسے وہ واپس کر دیں گے ۔ اور کسی میں ہے من اتٰی محمداً من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیہم ۔ قریش میں سے جو شخص محمد کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جائے گا اسے وہ قریش کو واپس کر دیں گے ۔ ان روایات کا طرز بیان خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان میں معاہدے کی اس شرط کو ان الفاظ میں نقل نہیں کیا گیا ہے جو اصل معاہدے میں لکھے گئے تھے ، بلکہ راویوں نے ان کا مفہوم خود اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے ۔ لیکن چونکہ بکثرت روایات اسی نوعیت کی ہیں اس لیے عام طور پر مفسرین و محدثین نے اس سے یہی سمجھا کہ معاہدہ عام تھا جس میں عورت مرد سب داخل تھے اور عورتوں کو بھی اس کی رو سے واپس ہونا چاہیے تھا ۔ اس کے بعد جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آیا کہ مومن عورتیں واپس نہ جائیں تو ان حضرات نے اس کی یہ تاویل کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومن عورتوں کی حد تک معاہدہ توڑ دینے کا فیصلہ فرما دیا ۔ مگر یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جس کو اس آسانی کے ساتھ قبول کر لیا جائے ۔ اگر معاہدہ فی الواقع بلا تخصیص مرد و زن سب کے لیے عام تھا تو آخر یہ کیسے جائز ہو سکتا تھا کہ ایک فریق اس میں یک طرفہ ترمیم کر دے یا اس کے کسی جز کو بطور خود بدل ڈالے؟ اور بالفرض ایسا کیا بھی گیا تھا تو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قریش کے لوگوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا ۔ قریش والے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ایک ایک بات پر گرفت کرنے کے لیے خار کھائے بیٹھے تھے ۔ انہیں اگر یہ بات ہاتھ آ جاتی کہ آپ شرائط معاہدہ کی صریح خلاف ورزی کر گزرے ہیں تو وہ زمین و آسمان سر پر اٹھا لیتے ۔ لیکن ہمیں کسی روایت میں اس کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ انہوں نے قرآن کے اس فیصلے پر ذرہ برابر بھی چون و چرا کی ہو ۔ یہ ایسا سوال تھا جس پر غور کیا جاتا تو معاہدے کے اصل الفاظ کی جستجو کر کے اس پیچیدگی کا حل تلاش کیا جاتا ، مگر بہت سے لوگوں نے تو اس کی طرف توجہ نہ کی ، اور بعض حضرات ( مثلاً قاضی ابو بکر ابن عربی ) نے توجہ کی بھی تو انہوں نے قریش کے اعتراض نہ کرنے کی یہ توجیہ تک کرنے میں تامل نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس معاملہ میں قریش کی زبان بند کر دی تھی ۔ تعجب ہے کہ اس توجیہ پر ان حضرات کا ذہن کیسے مطمئن ہوا ۔ اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ کفار قریش کی طرف سے تھی ، اور ان کی جانب سے ان کے نمائندے سہیل بن عمرو نے جو الفاظ معاہدے میں لکھوائے تھے وہ یہ تھے : علیٰ ان لا یاتیک منا رجل و ان کان علی دینک الا رددتہ الینا ۔ اور یہ کہ تمہارے پاس ہم میں سے کوئی مرد بھی آئے ، اگرچہ وہ تمہارے دین ہی پر ہو ، تم اسے ہماری طرف واپس کرو گے ۔ معاہدے کے یہ الفاظ بخاری ، کتاب الشروط ، باب الشروط فی الجہاد و المصالحہ میں قوی سند کے ساتھ نقل ہوئے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ سہیل نے رجل کا لفظ شخص کے معنی میں استعمال کیا ہو ، لیکن یہ اس کی ذہنی مراد ہوگی ۔ معاہدے میں جو لفظ لکھا گیا تھا وہ رجل ہی تھا جو عربی زبان میں مرد کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی بنا پر جب ام کلثوم بنت عقبہ کی واپسی کا مطالبہ لے کر ان کے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ( امام زہری کی روایت کے مطابق ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ کان الشرط فی الرجال دون النساء ۔ شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں ۔ ( احکام القرآن ، ابن عربی ۔ تفسیر کبیر ، امام رازی ) ۔ اس وقت تک خود قریش کے لوگ بھی اس غلط فہمی میں تھے کہ معاہدے کا اطلاق ہر طرح کے مہاجرین پر ہوتا ہے ، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ۔ مگر جب حضور نے ان کو معاہدے کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی تو وہ دم بخود رہ گئے اور انہیں ناچار اس فیصلے کو ماننا پڑا ۔ معاہدے کی اس شرط کے لحاظ سے مسلمانوں کو حق تھا کہ جو عورت بھی مکہ چھوڑ کر مدینے آتی ، خواہ وہ کسی غرض سے آتی ، اسے واپس دینے سے انکار کر دیتے ۔ لیکن اسلام کی صرف مومن عورتوں کی حفاظت سے دلچسپی تھی ، ہر طرح کی بھاگنے والی عورتوں کے لیے مدینہ طیبہ کو پناہ گاہ بنانا مقصود نہ تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور اپنے مومن ہونے کا اظہار کریں ، ان سے پوچھ گچھ کر کے اطمینان کر لو کہ وہ واقعی ایمان لے کر آئی ہیں ، اور جب اس کا اطمینان ہو جائے تو انکو واپس نہ کرو ۔ چنانچہ اس ارشاد الٰہی پر عمل درآمد کرنے کے لیے جو قاعدہ بنایا گیا وہ یہ تھا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آتی تھیں ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا وہ اللہ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتی ہیں اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر نکل کر آئی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ شوہر سے بگڑ کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہوں؟ یا ہمارے ہاں کے کسی مرد کی محبت ان کو لے آئی ہو؟ یا کوئی اور دنیوی غرض ان کے اس فعل کی محرک ہوئی ہو؟ ان سوالات کا اطمینان بخش جواب جو عورتیں دے دیتی تھیں صرف ان کو روک لیا جاتا تھا ، باقی سب کو واپس کر دیا جاتا تھا ( ابن جریر بحوالہ ابن عباس ، قتادہ ، مجاہد ، عکرمہ ، ابن زید ) ۔ اس آیت میں قانون شہادت کا بھی ایک اصولی ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے اور اس کی مزید توضیح اس طریق کار سے ہو گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل درآمد کے لیے مقرر فرمایا تھا ۔ آیت میں تین باتیں فرمائی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ ہجرت کرنے والی جو عورتیں اپنے آپ کو مومن ہونے کی حیثیت سے پیش کریں ان کے ایمان کی جانچ کرو ۔ دوسرے یہ کہ ان کے ایمان کی حقیقت کو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ، تمہارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں ایمان لائی ہیں ۔ تیسرے یہ کہ جانچ پڑتال سے جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں واپس نہ کرو ۔ پھر اس حکم کے مطابق ان عورتوں کے ایمان کی جانچ کرنے کے لیے جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا وہ یہ تھا کہ ان عورتوں کے حلفیہ بیان پر اعتماد کیا جائے اور ضروری جرح کر کے یہ اطمینان کر لیا جائے کہ ان کی ہجرت کا محرک ایمان کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔ اس سے اول تو یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت کو حقیقت کا علم حاصل ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف وہ علم کافی ہے جو شہادتوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ہم ایک شخص کے حلفیہ بیان پر اعتماد کریں گے ۔ تاوقتیکہ کوئی صریح قرینہ اس کے کاذب ہونے پر دلالت نہ کر رہا ہو ۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آدمی اپنے عقیدے اور ایمان کے متعلق خود جو خبر دے رہا ہو ہم اسے قبول کریں گے اور اس بات کی کھوج میں نہ پڑیں گے کہ فی الواقع اس کا وہی عقیدہ ہے جو وہ بیان کر رہا ہے ، الا یہ کہ کوئی صریح علامت ہمارے سامنے ایسی ظاہر ہو جائے جو اس کی تردید کر رہی ہو ۔ اور چوتھی بات یہ کہ ایک شخص کے جن ذاتی حالات کو دوسرا کوئی نہیں جان سکتا ان میں اسی کے بیان پر بھروسہ کیا جائے گا ، مثلاً طلاق اور عدت کے معاملات میں عورت کے حیض اور طہر کے متعلق اس کا اپنا بیان ہی معتبر ہوگا ، خواہ وہ جھوٹ بولے یا سچ ۔ انہی قواعد کے مطابق علم حدیث میں بھی ان روایات کو قبول کیا جائے گا جن کے راویوں کا ظاہر حال ان کے راستباز ہونے کی شہادت دے رہا ہو ، الا یہ کہ کچھ دوسرے قرائن ایسے موجود ہوں جو کسی روایت کے قبول میں مانع ہوں ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :15 مطلب یہ ہے کہ ان کے کافر شوہروں کو ان کے جو مہر واپس کیے جائیں گے وہی ان عورتوں کے مہر شمار نہ ہوں گے ، بلکہ جو مسلمان بھی ان میں سے کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے وہ اس کا مہر ادا کرے اور اس سے نکاح کر لے ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :16 ان آیات میں چار بڑے اہم حکم بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق اسلام کے عائلی قانون سے بھی ہے اور بین الا قوامی قانون سے بھی : اول یہ کہ جو عورت مسلمان ہو جائے وہ اپنے کافر شوہر کے لیے حلال نہیں رہتی اور نہ کافر شوہر اس کے لیے حلال رہتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ جو منکوحہ عورت مسلمان ہو کر دار الکفر سے دار الاسلام میں ہجرت کر آئے اس کا نکاح آپ سے آپ ٹوٹ جاتا ہے اور جو مسلمان بھی چاہے اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر سکتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ جو مرد مسلمان ہو جائے اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کی بیوی اگر کافر رہے تو وہ اسے اپنے نکاح میں روکے رکھے ۔ چوتھے یہ کہ اگر دار الکفر اور دار الاسلام کے درمیان صلح کے تعلقات موجود ہوں تو اسلامی حکومت کو دار الکفر کی حکومت سے یہ معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کفار کی جو منکوحہ عورتیں مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر آئی ہوں ان کے مہر مسلمانوں کی طرف سے واپس دے دیے جائیں ، اور مسلمانوں کی منکوحہ کافر عورتیں جو دار الکفر میں رہ گئی ہوں ان کے مہر کفار کی طرف سے واپس مل جائیں ۔ ان احکام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ آغاز اسلام میں بکثرت مرد ایسے تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا مگر ان کی بیویاں مسلمان نہ ہوئیں ۔ اور بہت سی عورتیں ایسی تھیں جو مسلمان ہو گئیں مگر ان کے شوہروں نے اسلام قبول نہ کیا ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت زینب کے شوہر ابو العاص غیر مسلم تھے اور کئی سال تک غیر مسلم رہے ۔ ابتدائی دور میں ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ مسلمان عورت کے لیے اس کا کافر شوہر اور مسلمان مرد کے لیے اس کی مشرک بیوی حلال نہیں ہے ۔ اس لیے ان کے درمیان ازدواجی رشتے برقرار رہے ۔ ہجرت کے بعد بھی کئی سال تک یہ صورت حال رہی کہ بہت سی عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر آئیں اور ان کے کافر شوہر دار الکفر میں رہے ۔ اور بہت سے مسلمان مرد ہجرت کر کے آ گئے اور ان کی کافر بیویاں دار الکفر میں رہ گئیں ۔ مگر اس کے باوجود ان کے درمیان رشتہ ازدواج قائم رہا ۔ اس سے خاص طور پر عورتوں کے لیے بڑی پیچیدگی پیدا ہو رہی تھی ، کیونکہ مرد تو دوسرے نکاح بھی کر سکتے تھے ، مگر عورتوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ جب تک سابق شوہروں سے ان کا نکاح فسخ نہ ہو جائے وہ کسی اور شخص سے نکاح کر سکیں ۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب یہ آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے مسلمانوں اور کفار و مشرکین کے درمیان سابق کے ازدواجی رشتوں کو ختم کر دیا اور آئندہ کے لیے ان کے بارے میں ایک قطعی اور واضح قانون بنا دیا ۔ فقہائے اسلام نے اس قانون کو چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے : ایک: وہ حالت جس میں زوجین دار الاسلام میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا کافر رہے ۔ دوسرے: وہ حالت جس میں زوجین دار الکفر میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا کافر رہے ۔ تیسرے: وہ حالت جس میں زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر کے آجائے اور دوسرا دار الکفر میں کافر رہے ۔ چوتھے: وہ حالت جس میں مسلم زوجین میں سے کوئی ایک مرتد ہو جائے ۔ ذیل میں ہم ان چاروں حالتوں کے متعلق فقہاء کے مسالک الگ الگ بیان کرتے ہیں : پہلی صورت میں اگر اسلام شوہر نے قبول کیا ہو اور اس کی بیوی عیسائی یا یہودی ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے تو دونوں کے درمیان نکاح باقی رہے گا ، کیونکہ مسلمان مرد کے لیے اہل کتاب بیوی جائز ہے ۔ یہ امر تمام فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہے ۔ اور اگر اسلام قبول کرنے والے مرد کی بیوی غیر اہل کتاب میں سے ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے ، تو حنفیہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا ، قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ، نہ قبول کرے تو ان کے درمیان تفریق کر دی جائے گی ۔ اس صورت میں اگر زوجین کے درمیان خلوت ہو چکی ہو تو عورت مہر کی مستحق ہوگی ، اور خلوت نہ ہوئی ہو تو اس کو مہر پانے کا حق نہ ہوگا ، کیونکہ فرقت اس کے انکار کی وجہ سے واقع ہوئی ہے ( المبسوط ، ہدایہ ، فتح القدیر ) ۔ امام شافعی اور احمد کہتے ہیں کہ اگر زوجین کے درمیان خلوت نہ ہوئی ہو تو مرد کے اسلام قبول کرتے ہی عورت اس کے نکاح سے باہر ہو جائے گی ، اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اس کے نکاح میں رہے گی ، اس دوران میں وہ خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ، ورنہ تیسری بار ایام سے فارغ ہوتے ہی آپ سے آپ فسخ ہو جائے گا ۔ امام شافعی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ذمیوں کو ان کے مذہب سے تعرض نہ کرنے کی جو ضمانت ہماری طرف سے دی گئی ہے اس کی بنا پر یہ درست نہیں ہے کہ عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے ۔ لیکن در حقیقت یہ ایک کمزور بات ہے ، کیونکہ ایک ذمی عورت کے مذہب سے تعرض تو اس صورت میں ہوگا جبکہ اس کو اسلام قبول کرنے پر مجور کیا جائے ۔ اس سے صرف یہ کہنا کوئی بے جا تعرض نہیں ہے کہ تو اسلام قبول کر لے تو اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکے گی ورنہ تجھے اس سے الگ کر دیا جائے گا ۔ حضرت علی کے زمانے میں اس کی نظیر پیش بھی آ چکی ہے ۔ عراق کے ایک مجوسی زمیندار نے اسلام قبول کیا اور اس کی بیوی کافر رہی ۔ حضرت علی نے اس کے سامنے اسلام پیش فرمایا ۔ اور جب اس نے انکار کیا تب آپ نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی ( المبسوط ) ۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اگر خلوت نہ ہو چکی ہو تو مرد کے اسلام لاتے ہی اس کی کافر بیوی اس سے فوراً جدا ہو جائے گی اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا اور اس کے انکار کی صورت میں جدائی واقع ہو جائے گی ( المغنی لابن قدامہ ) ۔ اور اگر اسلام عورت نے قبول کیا ہو اور مرد کافر رہے ، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب میں سے ، تو حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں میں خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو ، ہر صورت میں شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا ، قبول کر لے تو عورت اس کے نکاح میں رہے گی ، انکار کر دے تو قاضی دونوں میں تفریق کرا دے گا ۔ اس دوران میں جب تک مرد اسلام سے انکار نہ کرے ، عورت اس کی بیوی تو رہے گی مگر اس کو مقاربت کا حق نہ ہوگا ۔ شوہر کے انکار کی صورت میں تفریق طلاق بائن کے حکم میں ہوگی ۔ اگر اس سے پہلے خلوت نہ ہوئی ہو تو عورت نصف مہر پانے کی حق دار ہوگی ، اور خلوت ہو چکی ہو تو عورت پورا مہر بھی پائے گی اور عدت کا نفقہ بھی ( المبسوط ۔ ہدایہ ۔ فتح القدیر ) ۔ امام شافعی کے نزدیک خلوت نہ ہونے کی صورت میں عورت کے اسلام قبول کرتے ہی نکاح فسخ ہو جائے گا ، اور خلوت ہونے کی صورت میں عدت ختم ہونے تک عورت اس مرد کے نکاح میں رہے گی ۔ اس مدت کے اندر وہ اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ورنہ عدت گزرتے ہی جدائی واقع ہو جائے گی ۔ لیکن مرد کے معاملہ میں بھی امام شافعی نے وہی رائے ظاہر کی ہے جو عورت کے معاملہ میں اوپر منقول ہوئی کہ اس کے سامنے اسلام پیش کرنا جائز نہیں ہے ، اور یہ مسلک بہت کمزور ہے ۔ حضرت عمر کے زمانے میں متعدد واقعات ایسے پیش آئے ہیں کہ عورت نے اسلام قبول کر لیا اور مرد سے اسلام لانے کے لیے کہا گیا اور جب اس نے انکار کر دیا تو دونوں کے درمیان تفریق کرا دی گئی ۔ مثلاً بنی تغلِب کے ایک عیسائی کی بیوی کا معاملہ ان کے سامنے پیش ہوا ۔ انہوں نے مرد سے کہا یا تو تو اسلام قبول کر لے ورنہ میں تم دونوں کے درمیان تفریق کر دوں گا ۔ اس نے انکار کیا اور آپ نے تفریق کی ڈگری دے دی ۔ بہزُ المَلِک کی ایک نو مسلم زمیندارنی کا مقدمہ ان کے پاس بھیجا گیا ۔ اس کے معاملہ میں بھی انہوں نے حکم دیا کہ اس کے شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے ، اگر وہ قبول کر لے تو بہتر ، ورنہ دونوں میں تفریق کرا دی جائے ۔ یہ واقعات صحابہ کرام کے سامنے پیش آئے تھے اور کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے ( احکام القرآن للجصاص ۔ المبسوط ۔ فتح القدیر ) امام مالک کی رائے اس معاملے میں یہ ہے کہ اگر خلوت سے پہلے عورت مسلمان ہو جائے تو شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے ، وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ فوراً تفریق کرا دی جائے ۔ اور اگر خلوت ہو چکی ہو اور اس کے بعد عورت اسلام لائی ہو تو زمانہ عدت ختم ہونے تک انتظار کیا جائے ، اس مدت میں شوہر اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ، ورنہ عدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جائے گی ۔ امام احمد کا ایک قول امام شافعی کی تائید میں ہے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہو جانا بہرحال فوری تفریق کا موجب ہے خواہ خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ( المغنی ) ۔ ( 2 ) دار الکفر میں اگر عورت مسلمان ہو جائے اور مرد کافر رہے ، یا مرد مسلمان ہو جائے اور اس کی بیوی ( جو عیسائی یا یہودی نہ ہو بلکہ کسی غیر کتابی مذہب کی ہو ) اپنے مذہب پر قائم رہے ، تو حنفیہ کے نزدیک خواہ ان کے درمیان خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ، تفریق واقع نہ ہو گی جب تک عورت کو تین مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں ، یا اس کے غیر حائضہ ہونے کو صورت میں تین مہینے نہ گزر جائیں ۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق بھی مسلمان ہو جائے تو نکاح باقی رہے گا ، ورنہ یہ مدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جائے گی ۔ امام شافعی اس معاملہ میں بھی خلوت اور عدم خلوت کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ ان کی رائے یہ ہے کہ اگر خلوت نہ ہوئی ہو تو زوجین کے درمیان دین کا اختلاف واقع ہوتے ہی فرقت ہو جائے گی ، اگر خلوت ہو جانے کے بعد دین کا اختلاف رونما ہوا ہو تو عدت کی مدت ختم ہونے تک ان کا نکاح باقی رہے گا ۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق اسلام قبول نہ کرے تو عدت ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح بھی ختم ہو جائے گا ( المبسوط ، فتح القدیر ، احکام القرآن للجصاص ) ۔ ( 3 ) ۔ جس صورت میں زوجین کے درمیان اختلاف دین کے ساتھ اختلاف دار بھی واقع ہو جائے ، یعنی ان میں سے کوئی ایک دار الکفر میں کافر رہے اور دوسرا دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائے ، اس کے متعلق حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان نکاح کا تعلق آپ سے آپ ختم ہو جائے گا ۔ اگر ہجرت کرنے والی عورت ہو تو اسے فوراً دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہے ، اس پر کوئی عدت نہیں ہے ، البتہ مقاربت کے لیے اس کے شوہر کو استبراء رحم کی خاطر ایک مرتبہ ایام ماہواری آ جانے تک انتظار کرنا ہوگا ، اور اگر وہ حاملہ ہو تب بھی نکاح ہو سکتا ہے مگر مقاربت کے لیے وضع حمل تک انتظار کرنا ہوگا ۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ سے صرف اتنا اختلاف کیا ہے کہ ان کے نزدیک عورت پر عدت لازم ہے ، اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے اس کا نکاح نہیں ہو سکتا ( المبسوط ۔ ہدایہ ۔ احکام القرآن للجصاص ) ۔ امام شافعی ، امام احمد اور امام مالک کہتے ہیں کہ اختلاف دار کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے ، بلکہ اصل چیز صرف اختلاف دین ہے ۔ یہ اختلاف اگر زوجین میں واقع ہو جائے تو احکام وہی ہیں جو دار الاسلام میں زوجین کے درمیان یہ اختلاف واقع ہونے کے احکام ہیں ( المغنی ) ۔ امام شافعی اپنی مذکورہ بالا رائے کے ساتھ ساتھ ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورت کے معاملہ میں یہ رائے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے کافر شوہر سے لڑ کر اس کے حق زوجیت کو ساقط کرنے کے ارادے سے آئی ہو تو اختلاف دار کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے اس قصد کی بنا پر فوراً فرقت واقع ہو جائے گی ( المبسوط و ہدایہ ) ۔ لیکن قرآن مجید کی زیر بحث آیت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں صحیح ترین رائے وہی ہے جو امام ابو حنیفہ نے ظاہر فرمائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ہجرت کر کے آنے والی مومن عورتوں ہی کے بارے میں نازل فرمائی ہے ، اور انہی کے حق میں یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے ان کافر شوہروں کے لیے حلال نہیں رہیں جنہیں وہ دار الکفر میں چھوڑ آئی ہیں ، اور دار الاسلام کے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کرلیں ۔ دوسری طرف مہاجر مسلمانوں سے خطاب کر کے یہ فرمایا ہے کہ اپنی ان کافر بیویوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رکھو جو دار الکفر میں رہ گئی ہیں اور کفار سے اپنے وہ مہر واپس مانگ لو جو تم نے ان عورتوں کو دیے تھے ۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اختلاف دین ہی کے احکام نہیں ہیں بلکہ ان احکام کو جس چیز نے یہ خاص شکل دے دی ہے وہ اختلاف دار ہے ۔ اگر ہجرت کی بنا پر مسلمان عورتوں کے نکاح ان کے کافر شوہروں سے ٹوٹ نہ گئے ہوتے تو مسلمانوں کو ان سے نکاح کر لینے کی اجازت کیسے دی جا سکتی تھی ، اور وہ بھی اس طرح کہ اس اجازت میں عدت کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر لَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ کا حکم آ جانے کے بعد بھی مسلمان مہاجرین کی کافر بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ گئی ہوتیں تو ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا جاتا کہ انہیں طلاق دے دو ۔ مگر یہاں اس کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں ۔ بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمر اور حضرت طلحہ اور بعض دوسرے مہاجرین نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تھی ۔ مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا ، اور ان بیویوں کے ساتھ تعلق زوجیت کا انقطاع ان کے طلاق دینے پر موقوف تھا ، اور اگر وہ طلاق نہ دیتے تو وہ بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ جاتیں ۔ اس کے جواب میں عہد نبوی کے تین واقعات کی نظیریں پیش کی جاتی ہیں جن کو اس امر کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف دار کے باوجود مومن اور کافر زوجین کے درمیان نکاح کا تعلق برقرار رکھا ۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ سے ذرا پہلے ابوسفیان مرالظَّہْران ( موجودہ وادی فاطمہ ) کے مقام پر لشکر اسلام میں آئے اور یہاں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی بیوی ہند مکہ میں کافر رہیں ۔ پھر فتح مکہ کے بعد ہند نے اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید نکاح کے بغیر ہی ان کو سابق نکاح پر برقرار رکھا ۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد عِکرِمہ بن ابی جہل اور حکیم بن حزَام مکہ سے فرار ہو گئے اور ان کے پیچھے دونوں کی بیویاں مسلمان ہو گئیں ۔ پھر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہروں کے لیے امان لے لی اور جا کر ان کو لے آئیں ۔ دونوں اصحاب نے حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھی سابق نکاحوں کو بر قرار رکھا ۔ تیسرا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی صاحبزادی حضرت زینب کا ہے جو ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئیں تھیں اور ان کے شوہر ابو العاص بحالت کفر مکہ ہی میں مقیم رہ گئے تھے ۔ ان کے متعلق مسند احمد ، ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ وہ 8 ھ میں مدینہ آ کر مسلمان ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید نکاح کے بغیر سابق نکاح ہی پر صاحبزادی کو ان کی زوجیت میں رہنے دیا ۔ لیکن ان میں سے پہلے دو واقعے تو درحقیقت اختلاف دار کی تعریف ہی میں نہیں آتے ، کیونکہ اختلاف دار اس چیز کا نام نہیں ہے ایک شخص عارضی طور پر ایک دار سے دوسرے دار کی طرف چلا گیا یا فرار ہو گیا ، بلکہ یہ اختلاف صرف اس صورت میں واقع ہوتا ہے جب کوئی آدمی ایک دار سے منتقل ہو کر دوسرے دار میں آباد ہو جائے اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان موجودہ زمانے کی اصلاح کے مطابق قومیت ( Nationality ) کا فرق واقع ہو جائے ۔ رہا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا معاملہ تو اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں ۔ ایک روایت ابن عباس کی ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے ، اور دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص کی ہے جس کو امام احمد ، ترمذی ، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے ۔ اس دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبزادی کو جدید نکاح اور جدید مہر کے ساتھ پھر ابو العاص ہی کی زوجیت میں دے دیا ۔ اس اختلاف روایت کی صورت میں اول تو یہ نظیر ان حضرات کے لیے قطعی دلیل نہیں رہتی جو اختلاف دار کی قانونی تاثیر کا انکار کرتے ہیں ۔ دوسرے ، اگر وہ ابن عباس ہی کی روایت کے صحیح ہونے پر اصرار کریں تو یہ ان کے مسلک کے خلاف پڑتی ہے ۔ کیونکہ ان کے مسلک کی رو سے تو جن میاں بیوی کے درمیان اختلاف دین واقع ہو گیا ہو اور وہ باہم خلوت کر چکے ہوں ان کا نکاح عورت کو صرف تین ایام ماہواری آنے تک باقی رہتا ہے ، اس دوران میں دوسرا فریق اسلام قبول کر لے تو زوجیت قائم رہتی ہے ، ورنہ تیسری بار ایام آتے ہی نکاح آپ سے آپ فسخ ہو جاتا ہے ۔ لیکن حضرت زینب کے جس واقعہ سے وہ استدلال کرتے ہیں اس میں زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہوئے کئی سال گزر چکے تھے ، حضرت زینب کی ہجرت کے چھ سال بعد ابو العاص ایمان لائے تھے ، اور ان کے ایمان لانے سے کم از کم دو سال پہلے قرآن میں وہ حکم نازل ہو چکا تھا جس کی رو سے مسلمان عورت مشرکین پر حرام کر دی گئی تھی ۔ ( 4 ) ۔ چوتھا مسئلہ ارتداد کا ہے ۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں ، اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک مرتد ہو اور دوسرا مسلمان رہے ۔ اگر زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں تو شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ خلوت سے پہلے ایسا ہو تو فوراً ، اور خلوت کے بعد ہو تو عدت کی مدت ختم ہوتے ہی دونوں کا وہ نکاح ختم ہو جائے گا جو حالت اسلام میں ہوا تھا ۔ اس کے برعکس حنفیہ کہتے ہیں کہ اگرچہ قیاس یہی کہتا ہے کہ ان کا نکاح فسخ ہو جائے ، لیکن حضرت ابوبکر کے زمانہ میں جو فتنہ ارتداد برپا ہوا تھا اس میں ہزارہا آدمی مرتد ہوئے ، پھر مسلمان ہو گئے ، اور صحابہ کرام نے کسی کو بھی تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا ، اس لیے ہم صحابہ کے متفقہ فیصلے کو قبول کرتے ہوئے خلاف قیاس یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ زوجین کے ایک ساتھ مرتد ہونے کی صورت میں ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے ( المبسوط ، ہدایہ ، فتح القدیر ، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔ اگر شوہر مرتد ہو جائے اور عورت مسلمان رہے تو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک فوراً نکاح ٹوٹ جائے گا ، خواہ ان کے درمیان پہلے خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔ لیکن شافعیہ اور حنابلہ اس میں خلوت سے پہلے اور خلوت کے بعد کی حالت کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ اگر خلوت سے پہلے ایسا ہوا ہو تو فوراً نکاح ہو جائے گا ، اور خلوت کے بعد ہوا ہو تو زمانہ عدت تک باقی رہے گا ، اس دوران میں وہ شخص مسلمان ہو جائے تو زوجیت بر قرار رہے گی ، ورنہ عدت ختم ہوتے ہی اس کے ارتداد کے وقت سے نکاح فسخ شدہ شمار کیا جائے گا ، یعنی عورت کو پھر کوئی نئی عدت گزارنی نہ ہوگی ۔ چاروں فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ خلوت سے پہلے یہ معاملہ پیش آیا ہو تو عورت کو نصف مہر ، اور خلوت کے بعد پیش آیا تو پورا مہر پانے کا حق ہو گا ۔ اور اگر عورت مرتد ہو گئی ہو تو حنفیہ کا قدیم فتویٰ یہ تھا کہ اس صورت میں بھی نکاح فوراً فسخ ہو جائے گا ، لیکن بعد کے دور میں علمائے بلخ و سمرقند نے یہ فتویٰ دیا کہ عورت کے مرتد ہونے سے فوراً فرقت واقع نہیں ہوتی ، اور اس سے ان کا مقصد اس امر کی روک تھام کرنا تھا کہ شوہروں سے پیچھا چھڑانے کے لیے عورتیں کہیں ارتداد کا راستہ اختیار نہ کرنے لگیں ۔ مالکیہ کا فتویٰ بھی اس سے ملتا جلتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر قرائن یہ بتا رہے ہوں کہ عورت نے محض شوہر سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے بطور حیلہ ارتداد اختیار کیا ہے تو فرقت واقع نہ ہو گی ۔ شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ عورت کے ارتداد کی صورت میں بھی قانون وہی ہے جو مرد کے ارتداد کی صورت میں ہے ، یعنی خلوت سے پہلے مرتد ہو تو فوراً نکاح فسخ ہو جائے گا ، اور خلوت کے بعد ہو تو زمانہ عدت گزرنے تک نکاح باقی رہے گا ، اس دوران میں وہ مسلمان ہو جائے تو زوجیت کا رشتہ برقرار رہے گا ۔ ورنہ عدت گزرتے ہی نکاح وقت ارتداد سے فسخ شمار ہو گا ۔ مہر کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ خلوت سے پہلے اگر عورت مرتد ہوئی ہے تو اسے کوئی مہر نہ ملے گا ، اور اگر خلوت کے بعد اس نے ارتداد اختیار کیا ہو تو وہ پورا مہر پائے گی ( المبسوط ۔ ہدایہ ۔ فتح القدیر ۔ المغنی ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔
صلح حدیبیہ کا ایک پہلو سورہ فتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہو چکا ہے ، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کر دیں ، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کر دیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایمان دار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں ، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابو میط رضی اللہ تعالیٰ عنہا مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں ، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مومنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کر دی گئی ، حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے؟ فرمایا اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لئے بطور سیرو سیاحت نہیں آئی کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں ، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد تھا اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں ، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا ۔ مثلاً یہ معلوم ہو جائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ ، اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلم ہو جائے کہ یہ با ایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہو جانا ممکن امر ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں ، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کر دیا ورنہ اس سے پہلے مومنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا ، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمہ تھیں ، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے حضرت زینب نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کر دو مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کر لیا اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھیج بھی دیا ، یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے ، حضرت زینب نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ 8 ہجری میں ان کے خاوند حضرت ابو العاص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے تو حضور نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کر دیا اور روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد حضرت ابو العاص مسلمان ہوگئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلے نکاح پر حضرت زینب کو لوٹادیا تھا یہی صحیح ہے اس لئے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے ، ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے اسلام کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوا اور نیا مہر بندھا ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت یزید نے فرمایا ہے پہلی روایت کے راوی حضرت ابن عباس ہیں اور وہ روایت ازروئے اسناد کے بہت اعلیٰ اور دوسری روایت کے راوی حضرت عمرو بن شعیب ہیں اور عمل اسی پر ہے ، لیکن یہ یاد رہے کہ عمرو بن شعیب والی روایت کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو حضرت امام احمد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ ضعیف بتاتے ہیں ، حضرت ابن عباس والی حدیث کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ یہ شخصی واقعہ ہے ممکن ہے ان کی عدت ختم ہی نہ ہوئی ہو ، اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں جب عورت نے عدت کے دن پورے کر لئے اور اب تک اس کا کافر خاوند مسلمان نہیں ہوا تو وہ نکاح فسخ ہو جاتا ہے ، ہاں بعض حضرات کا مذہب یہ بھی ہے کہ عدت پوری کر لینے کے بعد عورت کو اختیار ہے اگر چاہے اپنے اس نکاح کو باقی رکھے گار چاہے فسخ کر کے دوسرا نکاح کر لے اور اسی پر ابن عباس والی روایت کو محمول کرتے ہیں ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کر دو جیسے کہ مہر ۔ پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی حرج نہیں ، عدت کا گذر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں ، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس کے حکم نازل ہوتے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی دو کافر بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا با ایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہو جائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کر دو اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا ، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا ۔ حضرت الفاروق نے اپنی جن دو کافرہ بیویوں کو طلاق دی ان میں سے پہلی کا نام قریبہ تھا یہ ابو امیہ بن مغیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری کا نام ام کلثوم تھا جو عمرو بن حرول خزاعی کی لڑکی تھی حضرت عبید اللہ کی والدہ یہ ہی تھی ، اس سے ابو جہم بن حذیفہ بن غانم خزاعی نے نکاح کر لیا یہ بھی مشرک تھا ، اسی طرح اس حکم کے ماتحت حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی کافرہ بیوی ارویٰ بنت ربیعہ بن حارث بن عبدامطلب کو طلاق دے دی اس سے خالد بن سعید بن عاص نے نکاح کر لیا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آ جائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو ۔ صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہو چکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کر دیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے کہ علی الاطلاق حکیم وہی ہے ۔ اس کے بعد کی آیت وان فاتکم الخ کا مطلب حضرت فتادہ رحمتہ اللہ علیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں ، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں ۔ حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لئے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کر دیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آ جائے تو تم اپناوہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا یہ مطلب مروی ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں ، پس فعاقبم کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کر دو ، یعنی مہر مثل ، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے حضرت امام ابن جریر اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں فالحمد اللہ ۔