Surah

Information

Surah # 60 | Verses: 13 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 91 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِنۡ فَاتَكُمۡ شَىۡءٌ مِّنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ اِلَى الۡكُفَّارِ فَعَاقَبۡتُمۡ فَاٰ تُوا الَّذِيۡنَ ذَهَبَتۡ اَزۡوَاجُهُمۡ مِّثۡلَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا‌ ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡۤ اَنۡـتُمۡ بِهٖ مُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿11﴾
اور اگر تمہاری کوئی بیوی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور کافروں کے پاس چلی جائے پھر تمیں اس کے بدلے کا وقت مل جائے تو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں انہیں ان کے اخراجات کے برابر ادا کر دو ، اور اس اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو ۔
و ان فاتكم شيء من ازواجكم الى الكفار فعاقبتم فاتوا الذين ذهبت ازواجهم مثل ما انفقوا و اتقوا الله الذي انتم به مؤمنون
And if you have lost any of your wives to the disbelievers and you subsequently obtain [something], then give those whose wives have gone the equivalent of what they had spent. And fear Allah , in whom you are believers.
Aur agar tumhari koi biwi tumharay haath say nikal jaye aur kafiron kay pass chali jaye phir tumhen iss kay badlay ka waqt mill jaye to jin ki biwiyan chali gaeen hain unhen unn kay ikhrajaat kay barabar ada kerdo aur uss Allah Taalaa say dartay rahi jiss per tum eman rakhtay ho.
اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کے پاس جاکر تمہارے ہاتھ سے نکل جائے ، پھر تمہاری نوبت آئے ( ٨ ) تو جن لوگوں کی بیویاں جاتی رہی ہیں ان کو اتنی رقم ادا کردو ( ٩ ) جتنی انہوں نے ( اپنی ان بیویوں پر ) خرچ کی تھی ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، جس پر تم ایمان لائے ہو ۔
اور اگر مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ عورتیں کافروں کی طرف نکل جائیں ( ف۳۸ ) پھر تم کافروں کو سزا دو ( ف۳۹ ) تو جن کی عورتیں جاتی رہی تھیں ( ف٤۰ ) غنیمت میں سے انہیں اتنا دیدو جو ان کا خرچ ہوا تھا ( ف٤۱ ) اور اللہ سے ڈرو جس پر تمہیں ایمان ہے ،
اور اگر تمہاری کافر بیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمھیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمہاری نوبت آئے تو جن لوگوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کو اتنی رقم ادا کر دو جو ان کے دیئے ہوئے مہروں کے برابر ہو 17 ہو ۔ اور اس خدا سے ڈر تے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو ۔
اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی تم سے چھوٹ کر کافروں کی طرف چلی جائے پھر ( جب ) تم جنگ میں غالب آجاؤ اور مالِ غنیمت پاؤ تو ( اس میں سے ) ان لوگوں کو جن کی عورتیں چلی گئی تھیں اس قدر ( مال ) ادا کر دو جتنا وہ ( اُن کے مَہر میں ) خرچ کر چکے تھے ، اور اُس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :17 اس معاملہ کی دو صورتیں تھیں اور اس آیت کا انطباق دونوں سورتوں پر ہوتا ہے : ایک صورت یہ تھی کہ جن کفار سے مسلمانوں کے معاہدانہ تعلقات تھے ان سے مسلمانوں نے یہ معاملہ طے کرنا چاہا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے ہماری طرف آ گئی ہیں ان کے مہر ہم واپس کر دیں گے ، اور ہمارے آدمیوں کی جو کافر بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کے مہر تم واپس کر دو ۔ لیکن انہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا ۔ چنانچہ امام زہری بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان ان عورتوں کے مہر واپس دینے کے لیے تیار ہو گئے جو مشرکین کے پاس مکہ میں رہ گئی تھیں ، مگر مشرکوں نے ان عورتوں کے مہر واپس دینے سے انکار کر دیا جو مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آ گئی تھیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مہاجر عورتوں کے جو مہر تمہیں مشرکین کو واپس کرنے ہیں وہ ان کو بھیجنے کے بجائے مدینے ہی میں جمع کر لیے جائیں اور جن لوگوں کو مشرکین سے اپنے دیے ہوئے مہر واپس لینے ہیں ان میں سے ہر ایک کو اتنی رقم دے دی جائے جو اسے کفار سے وصول ہونی چاہیے تھی ۔ دوسری صورت یہ تھی کہ جن کفار سے مسلمانوں کے معاہدانہ تعلقات نہ تھے ان کے علاقوں سے بھی متعدد آدمی اسلام قبول کر کے دار الاسلام میں آ گئے تھے اور ان کی کافر بیویاں وہاں رہ گئی تھیں ۔ اسی طرح بعض عورتیں بھی مسلمان ہو کر ہجرت کر آئی تھیں اور ان کے کافر شوہر وہاں رہ گئے تھے ۔ ان کے بارے میں یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ دار الاسلام ہی میں اَدلے کا بدلہ چکا دیا جائے ۔ جب کفار سے کوئی مہر واپس نہیں ملنا ہے تو انہیں بھی کوئی مہر واپس نہ کیا جائے ۔ اس کے بجائے جو عورت ادھر آ گئی ہے اس کے بدلے کا مہر اس شخص کو ادا کر دیا جائے جس کی بیوی ادھر رہ گئی ہے ۔ لیکن اگر اس طرح حساب برابر نہ ہو سکے ، اور جن مسلمانوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کے وصول طلب مہر ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کے مہروں سے زیادہ ہوں ، تو حکم دیا گیا کہ اس مال غنیمت سے باقی رقمیں ادا کر دی جائیں جو کفار سے لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھ آ گئے ہوں ابن عباس کی روایت ہے جس شخص کے حصے کا مہر وصول طلب رہ جاتا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ حکم دیتے تھے کہ اس کے نقصان کی تلافی مال غنیمت سے کر دی جائے ( ابن جریر ) ۔ اسی مسلک کو عطاء ، مجاہد ، زہری ، مسروق ، ابراہیم نخعی ، قتادہ ، مقاتِل اور ضحاک نے اختیار کیا ہے ۔ یہ سب حضرات کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے مہر کفار کی طرف رہ گئے ہوں ان کا بدلہ کفار سے ہاتھ آئے ہوئے مجموعی مال غنیمت میں سے ادا کیا جائے ، یعنی تقسیم غنائم سے پہلے ان لوگوں کے فوت شدہ مہر ان کو دے دیے جائیں اور اس کے بعد تقسیم ہو جس میں وہ لوگ بھی دوسرے سب مجاہدین کے ساتھ برابر کا حصہ پائیں ۔ بعض فقہاء یہ بھی کہتے ہیں کہ صرف اموال غنیمت ہی نہیں ، اموال فَے میں سے بھی ایسے لوگوں کے نقصان کی تلافی کی جا سکتی ہے ۔ لیکن اہل علم کے ایک بڑے گروہ نے اس مسلک کو قبول نہیں کیا ہے ۔