Surah

Information

Surah # 60 | Verses: 13 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 91 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِذَا جَآءَكَ الۡمُؤۡمِنٰتُ يُبَايِعۡنَكَ عَلٰٓى اَنۡ لَّا يُشۡرِكۡنَ بِاللّٰهِ شَيۡــًٔا وَّلَا يَسۡرِقۡنَ وَلَا يَزۡنِيۡنَ وَلَا يَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَهُنَّ وَلَا يَاۡتِيۡنَ بِبُهۡتَانٍ يَّفۡتَرِيۡنَهٗ بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِنَّ وَاَرۡجُلِهِنَّ وَلَا يَعۡصِيۡنَكَ فِىۡ مَعۡرُوۡفٍ‌ فَبَايِعۡهُنَّ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُنَّ اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿12﴾
اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی چوری نہ کریں گی زنا کاری نہ کریں گی اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بے حکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالٰی بخشنے اور معاف کرنے والا ہے ۔
يايها النبي اذا جاءك المؤمنت يبايعنك على ان لا يشركن بالله شيا و لا يسرقن و لا يزنين و لا يقتلن اولادهن و لا ياتين ببهتان يفترينه بين ايديهن و ارجلهن و لا يعصينك في معروف فبايعهن و استغفر لهن الله ان الله غفور رحيم
O Prophet, when the believing women come to you pledging to you that they will not associate anything with Allah , nor will they steal, nor will they commit unlawful sexual intercourse, nor will they kill their children, nor will they bring forth a slander they have invented between their arms and legs, nor will they disobey you in what is right - then accept their pledge and ask forgiveness for them of Allah . Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
Aey payghumbar! Jab musalman aurten aap say inn baaton per bait kerney aayen kay woh Allah kay sath kissi ko shareek na keren gi chori na keren gi zina kaari na keren gi apni aulad ko naa maar dalen gi aur koi aisa bohtaan na bandhay gi jo khud apney haathon pairon kay sath gharr len aur kissi nek kaam mein teri bey hukmi na keren gi to aap inn say bait ker liya keren aur inn kay liye Allah say maghfirat talab keren be-shak Allah bakshney aur moaf kerney wala hai.
اے نبی ! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں مانیں گی ، اور چوری نہیں کریں گی ، اور زنا نہیں کریں گی ، اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی ، اور نہ کوئی ایسا بہتان باندھیں گی جو انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان گھڑ لیا ہو ، ( ١٠ ) اور نہ کسی بھلے کام میں تمہاری نافرمانی کریں گی ، تو تم ان کو بیعت کرلیا کرو ، اور ان کے حق میں اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو ، یقینا اللہ بہت بخشنے والا ، بہت مہربان ہے ۔
اے نبی جب تمہارے حضور مسلمان عورتیں حاضر ہوں اس پر بیعت کرنے کو کہ اللہ کا کچھ شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی ( ف٤۲ ) اور نہ وہ بہتان لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان یعنی موضع ولادت میں اٹھائیں ( ف٤۳ ) اور کسی نیک بات میں تمہاری نافرانی نہ کریں گی ( ف٤٤ ) تو ان سے بیعت لو اور اللہ سے ان کی مغفرت چاہو ( ف٤۵ ) بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیئے آئیں 18 اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی ، چوری نہ کریں 19 گی ، زنا نہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی20 اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی 21 ، اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں 22 گی ، تو ان سے بیعت لے 23لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعا ئے مغفرت کرو ، یقینا اللہ در گز فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
اے نبی! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی ( یعنی اپنے شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی ) اور ( کسی بھی ) امرِ شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی ، تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں ، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :18 جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ، یہ آیت فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی ۔ اس کے بعد جب مکہ فتح ہوا تو قریش کے لوگ جوق در جوق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہونے لگے ۔ آپ نے مردوں سے کوہ صفا پر خود بیعت لی اور حضرت عمر کو اپنی طرف سے مامور فرمایا کہ وہ عورتوں سے بیعت لیں اور ان باتوں کا اقرار کرائیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں ( ابن جریر بروایت ابن عباس ۔ ابن ابی حاتم بروایت قتادہ ) ۔ پھر مدینہ واپس تشریف لے جا کر آپ نے ایک مکان میں انصار کی خواتین کو جمع کرنے کا حکم دیا اور حضرت عمر کو ان سے بیعت لینے کے لیے بھیجا ( ابن جریر ، ابن مردویہ ، بزار ، ابن حبان ، بروایت ام عطیہ انصاریہ ) ۔ عید کے روز بھی مردوں کے درمیان خطبہ دینے کے بعد آپ عورتوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں اپنے خطبہ کے دوران میں آپ نے یہ آیت تلاوت کر کے ان باتوں کا عہد لیا جو اس آیت میں مذکور ہوئی ہیں ( بخاری ، بروایت ابن عباس ) ۔ ، ان مواقع کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں عورتیں فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرتی رہیں جن کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :19 مکہ معظمہ میں جب عورتوں سے بیعت لی جا رہی تھی اس وقت حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے اس حکم کی تشریح دریافت کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، یا رسول اللہ ، ابوسفیان ذرا بخیل آدمی ہیں کیا میرے اوپر اس میں کوئی گناہ ہے کہ میں اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات کے لیے ان سے پوچھے بغیر ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں ، مگر بس معروف کی حد تک ۔ یعنی بس اتنا مال لے لو جو فی الواقع جائز ضروریات کے لیے کافی ہو ( احکام القرآن ، ابن عربی ) ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :20 اس میں اسقاط حمل بھی شامل ہے ، خواہ وہ جائز حمل کا اسقاط ہو یا ناجائز حمل کا ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :21 اس سے دو قسم کے بہتان مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ کوئی عورت دوسری عورتوں پر غیر مردوں سے آشنائی کی تہمتیں لگائے اور اس طرح کے قصے لوگوں میں پھیلائے ، کیونکہ عورتوں میں خاص طور پر ان باتوں کے چرچے کرنے کی بیماری پائی جاتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ ایک عورت بچہ تو کسی کا جنے اور شوہر کو یقین دلائے کہ تیرا ہی ہے ۔ ابوداؤد میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ انہوں نے حضور کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت کسی خاندان میں کوئی ایسا بچہ گھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے اس کا اللہ سے کوئی واسطہ نہیں ، اور اللہ اسے کبھی جنت میں داخل نہ کرے گا ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :22 اس مختصر سے فقرے میں دو بڑے اہم قانونی نکات بیان کیے گئے ہیں : پہلا نکتہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر بھی اطاعت فی المعروف کی قید لگائی گئی ہے ، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس امر کے کسی ادنیٰ شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی کہ آپ کبھی منکر کا حکم بھی دے سکتے ہیں ۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا میں کسی مخلوق کی اطاعت قانون خداوندی کے حدود سے باہر جا کر نہیں کی جا سکتی ، کیونکہ جب خدا کے رسول تک کی اطاعت معروف کی شرط سے مشروط ہے تو پھر کسی دوسرے کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ اسے غیر مشروط اطاعت کا حق پہنچے اور اس کے کسی ایسے حکم یا قانون یا ضابطے اور رسم کی پیروی کی جائے جو قانون خداوندی کے خلاف ہو ۔ اس قاعدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ ، انما الطاعۃ فی المعروف ۔ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے ، اطاعت صرف معروف میں ہے ( مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ) ۔ یہی مضمون اکابر اہل علم نے اس آیت سے مستبط کیا ہے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تمہاری نافرمانی نہ کریں ، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی تک کی اطاعت کو اس شرط سے مشروط کیا ہے تو کسی اور شخص کے لیے یہ کیسے سزاوار ہو سکتا ہے کہ معروف کے سوا کسی معاملہ میں اس کی اطاعت کی جائے ( ابن جریر ) ۔ امام ابو بکر جصاص لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کا نبی کبھی معروف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا ، پھر بھی اس نے اپنے نبی کی نافرمانی سے منع کرتے ہوئے معروف کی شرط لگا دی تاکہ کوئی شخص کبھی اس امر کی گنجائش نہ نکال سکے کہ ایسی حالت میں بھی سلاطین کی اطاعت کی جائے جبکہ ان کا حکم اللہ کی اطاعت میں نہ ہو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : من اطاع مخلوقاً فی معصیۃ الخالق سلَّط اللہ علیہ ذٰلک المخلوق ، یعنی جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے ، اللہ تعالیٰ اس پر اسی مخلوق کو مسلط کر دیتا ہے ( احکام القرآن ) علامہ آلوسی فرماتے ہیں : یہ ارشاد ان جاہلوں کے خیال کی تردید کرتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ اولی الامر کی اطاعت مطلقاً لازم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو رسول کی اطاعت پر بھی معروف کی قید لگا دی ہے ، حالانکہ رسول کبھی معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا ۔ اس سے مقصود لوگوں کو خبردار کرنا ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے ( روح المعانی ) ۔ پس در حقیقت یہ ارشاد اسلام میں قانون کی حکمرانی ( Rule of Law ) کا سنگ بنیاد ہے ۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہر کام جو اسلامی قانون کے خلاف ہو ، جرم ہے اور کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ ایسے کسی کام کا کسی کو حکم دے ۔ جو شخص بھی خلاف قانون حکم دیتا ہے وہ خود مجرم ہے اور جو شخص اس حکم کی تعمیل کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے ۔ کوئی ماتحت اس عذر کی بنا پر سزا سے نہیں بچ سکتا کہ اس کے افسر بالا نے اسے ایک ایسے فعل کا حکم دیا تھا جو قانون میں جرم ہے ۔ دوسری بات جو آئنی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ ہے کہ اس آیت میں پانچ منفی احکام دینے کے بعد مثبت حکم صرف ایک ہی دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام نیک کاموں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کی جائے گی ۔ جہاں تک برائیوں کا تعلق ہے ، وہ بڑی بڑی برائیاں گنا دی گئیں جن میں زمانہ جاہلیت کی عورتیں مبتلا تھیں اور ان سے باز رہنے کا عہد لے لیا گیا ، مگر جہاں تک بھلائیوں کا تعلق ہے ان کی کوئی فہرست دے کر عہد نہیں لیا گیا کہ تم فلاں فلاں اعمال کرو گی بلکہ صرف یہ عہد لیا گیا کہ جس نیک کام کا حضور حکم دیں گے اس کی پیروی تمہیں کرنی ہوگی ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ نیک اعمال صرف وہی ہوں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے تو عہد ان الفاظ میں لیا جانا چاہیے تھا کہ تم اللہ کی نافرمانی نہ کرو گی یا یہ کہ تم قرآن کے احکام کی نافرمانی نہ کرو گی ۔ لیکن جب عہد ان الفاظ میں لیا گیا کہ جس نیک کام کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیں گے تم اس کی خلاف ورزی نہ کرو گی تو اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیع ترین اختیارات دیے گئے ہیں اور آپ کے تمام احکام واجب الاطاعت ہیں خواہ وہ قرآن میں موجود ہو یا نہ ہوں ۔ اسی آئینی اختیار کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے ہوئے ان بہت سی برائیوں کے چھوڑنے کا عہد لیا جو اس وقت عرب معاشرے کی عورتوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور متعدد ایسے احکام دیے جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں ۔ اس کے لیے حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں : ابن عباس ، ام سلمہ اور ام عطیہ انصاریہ وغیرہ کی روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ نہ کریں گی ۔ یہ روایات بخاری ، مسلم ، نسائی اور ابن جریر نے نقل کی ہیں ۔ ابن عباس کی ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو عورتوں سے بیعت لینے کے لیے مامور کیا اور حکم دیا کہ ان کو نوحہ کرنے سے منع کریں ، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے کپڑے پھاڑتی تھیں ، منہ نوچتی تھیں ، بال کاٹتی تھیں اور سخت واویلا مچاتی تھیں ( ابن جریر ) ۔ زید بن اسلم روایت کرتے ہیں کہ آپ نے بیعت لیتے وقت عورتوں کو اس سے منع کیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے اپنے منہ نوچیں اور گریبان پھاڑیں اور واویلا کریں اور شعر گا گا کر بین کریں ( ابن جریر ) ۔ اسی کی ہم معنی ایک روایت ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ایک ایسی خاتون سے نقل کی ہے جو بیعت کرنے والیوں میں شامل تھیں ۔ قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ جو عہد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت عورتوں سے لیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ غیر محرم مردوں سے بات نہ کریں گی ۔ ابن عباس کی روایت میں اس کی یہ وضاحت ہے کہ غیر مردوں سے تخلیہ میں بات نہ کریں گی ۔ قتادہ نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے عرض کیا یا رسول اللہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم گھر پر نہیں ہوتے اور ہمارے ہاں کوئی صاحب ملنے آ جاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا میری مراد یہ نہیں ہے ۔ یعنی عورت کا کسی آنے والے سے اتنی بات کہہ دینا ممنوع نہیں ہے کہ صاحب خانہ گھر میں موجود نہیں ہیں ( یہ روایات ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں ) ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خالہ امیمہ بنت رقیقہ سے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ عہد لیا کہ نوحہ نہ کرنا اور جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار کر کے اپنی نمائش نہ کرنا ( مسند احمد ، ابن جریر ) ۔ حضور کی ایک خالہ سلمٰی بنت قیس کہتی ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے حاضر ہوئی تو آپ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا پھر فرما یا ولا تغششن ازواجکن اپنے شوہروں سے دھوکے بازی نہ کرنا جب ہم واپس ہونے لگیں تو ایک عورت نے مجھ سے کہا کہ جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو شوہروں سے دھوکے بازی کرنے کا کیا مطلب ہے؟ میں نے جاکر پوچھا تو آپ نے فرمایا تاخذ مالہ فتحابی بہ غیرہ یہ کہ تو اس کا مال لے اور دوسروں پر لٹائے ( مسند احمد ) ۔ ام عطیہ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لینے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین کی جماعت میں حاضر ہوا کریں گی البتہ جمعہ ہم پر فرض نہیں ہے ، اور جنازوں کے ساتھ جانے سے ہمیں منع فرما دیا ( ابن جریر ) ۔ جو لوگ حضور کے اس آئینی اختیار کو آپ کی حیثیت رسالت کے بجائے حیثیت امارت سے متعلق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ چونکہ اپنے وقت کے حکمراں بھی تھے اس لیے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو احکام دیئے وہ صرف آپ کے زمانے تک ہی واجب الاطاعت تھے ، وہ بڑی جہالت کی بات کہتے ہیں ۔ اوپر کی سطور میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احکام نقل کیے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈال لیجیے ۔ ان میں عورتوں کی اصلاح کے لیے جو ہدایات آپ نے دی ہیں وہ اگر محض حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے ہوتیں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پوری دنیا کے مسلم معاشرے کی عورتوں میں یہ اصلاحات کیسے رائج ہو سکتی تھیں؟ آخر دنیا کا وہ کونسا حاکم ہے جس کو یہ مرتبہ حاصل ہو کہ ایک مرتبہ اس کی زبان سے ایک حکم صادر ہو اور روئے زمین پر جہاں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں کے مسلم معاشرے میں ہمیشہ کے لیے وہ اصلاح رائج ہو جائے جس کا حکم اس نے دیا ہے؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ حشر ، حاشیہ 15 ) ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :23 معتبر اور متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں سے بیعت لینے کا طریقہ مردوں کی بیعت سے مختلف تھا ۔ مردوں سے بیعت لینے کا طریقہ یہ تھا کہ بیعت کرنے والے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد کرتے تھے ۔ لیکن عورتوں سے بیعت لیتے ہوئے آپ نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ، بلکہ مختلف دوسرے طریقے اختیار فرمائے ۔ اس کے بارے میں جو روایات منقول ہوئی ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں : حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم بیعت میں حضور کا ہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ سے چھوا تک نہیں ہے ۔ آپ عورت سے بیعت لیتے ہوئے بس زبان مبارک سے یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تجھ سے بیعت لی ( بخاری ۔ ابن جریر ) ۔ امیہ بنت رقیقہ کا بیان ہے کہ میں اور چند عورتیں حضور کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئیں اور آپ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا ۔ جب ہم نے کہا ہم معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی تو آپ نے فرمایا فیما استطعتنَّ ، جہاں تک تمہارے بس میں ہو اور تمہارے لیے ممکن ہو ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہمارے لیے خود ہم سے بڑھ کر رحیم ہیں پھر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہاتھ بڑھایئے تاکہ ہم آپ سے بیعت کریں ۔ آپ نے فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ، بس میں تم سے عہد لوں گا ۔ چنانچہ آپ نے عہد لے لیا ۔ ایک اور روایت میں ان کا بیان ہے کہ آپ نے ہم میں سے کسی عورت سے بھی مصافحہ نہیں کیا ( مسند احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ) ۔ ابوداؤد نے مراسیل میں شعبی کی روایت نقل کی ہے کہ عورتوں سے بیعت لیتے وقت ایک چادر حضور کی طرف بڑھائی گئی آپ نے بس اسے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ۔ یہ مضمون ابن ابی حاتم نے شعبی سے ، عبدالرزاق نے ابراہیم نخعی سے اور سعید بن منصور نے قیس بن ابی حازم سے نقل کیا ہے ۔ ابن اسحاق نے مغازی میں ابان بن صالح سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے ایک برتن میں ہاتھ ڈال دیتے تھے ، اور پھر اسی برتن میں عورت بھی اپنا ہاتھ ڈال دیتی تھی ۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ عید کا خطبہ دینے کے بعد آپ مردوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپ نے وہاں اپنی تقریر میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی ، پھر عورتوں سے پوچھا تم اس کا عہد کرتی ہو؟ مجمع میں سے ایک عورت نے جواب دیا ہاں یا رسول اللہ ۔ ایک روایت میں جسے ابن حبان ، ابن جریر اور بزار وغیرہ نے نقل کیا ہے ، ام عطیہ انصاریہ کا یہ بیان ملتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے باہر سے ہاتھ بڑھایا اور ہم نے اندر سے ہاتھ بڑھائے ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا یہ عورتوں نے آپ سے مصافحہ بھی کیا ہو ، کیونکہ حضرت ام عطیہ نے مصافحہ کی تصریح نہیں کی ہے ۔ غالباً اس موقع پر صورت یہ رہی ہوگی کہ عہد لیتے وقت آپ نے باہر سے ہاتھ بڑھایا ہوگا اور اندر سے عورتوں نے اپنے اپنے ہاتھ آپ کے ہاتھ کی طرف بڑھا دیے ہوں گے بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے مس ہو ۔
خواتین کا طریقہ بیعت صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے جو مسلمان عورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کر کے آتی تھیں ان کا امتحان اسی آیت سے ہوتا تھا جو عورت ان تمام باتوں کا اقرار کر لیتی اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم زبانی فرما دیتے کہ میں نے تم سے بیعت کی یہ نہیں کہ آپ ان کے ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوں اللہ کی قسم آپ نے کبھی بیعت کرتے ہوئے کسی عورت کے ہاتھ کو ہاتھ نہیں لگایا صرف زبانی فرما دیتے کہ ان باتوں پر میں نے تیری بیعت لی ، ترمذدی نسائی ابن ماجہ مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضرت امیہ بنت رفیقہ فرماتی ہیں کئی ایک عورتوں کے ساتھ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی تو قرآن کی اس آیت کے مطابق آپ نے ہم سے عہد و پیمان لیا اور ہم بھلی ابتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں گی کے اقرار کے وقت فرمایا یہ بھی کہہ لو کہ جاں تک تمہاری طاقت ہے ، ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا خیال ہم سے بہت زیادہ ہے اور ان کی مہربانی بھی ہم پر خود ہماری مہربانی سے بڑھ چڑھ کر ہے پھر ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے مصافحہ نہیں کرتے؟ فرمایا نہیں میں غیر عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا میرا ایک عورت سے کہہ دینا سو عورتوں کی بیعت کے لئے کافی ہے بس بیعت ہو چکی ، امام تمذی اس حدیث کو حسن صحیح کہتے ہیں ، مسند احمد میں اتنی زیادتی اور بھی ہے کہ ہم میں سے کسی عورت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مصافحہ نہیں کیا ، یہ حضرت امیہ حضرت خدیجہ کی بہن اور حضرت فاطمہ کی خالہ ہوتی ہیں ، مسند احمد میں حضرت سلمیٰ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں اور دونوں قبلوں کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تھی جو بنو عدی بن نجار کے قبیلہ میں سے تھیں فرماتی ہیں انصار کی عورتوں کے استھ خدمت نبوی میں بیعت کرنے کے لئے میں بھی آئی تھی اور اس آیت میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا ہم نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اس بات کا بھی اقرار کرو کہ اپنے خاوندوں کی خیانت اور ان کے ساتھ دھوکہ نہ کرو گی ہم نے اس کا بھی اقرار کیا بیعت کی اور جانے لگیں پھر مجھے خیال آیا اور ایک عورت کو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ دریافت کرلیں کہ خیانت و دھوکہ نہ کرنے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ اس کا مال چپکے سے کسی اور کو نہ دو ۔ مسند کی حدیث میں ہے حضرت ائشہ بنت قدامہ فرماتی ہیں میں اپنی والدہ رابطہ بنت سفیان نزاعیہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں پر بیعت لے رہے تھے اور عورتیں ان کا اقرار کرتی تھیں میری والدہ کے فرمان سے میں نے بھی اقرار کیا اور بیعت والیوں میں شامل ہوئی ، صحیح بخاری شریف میں حضرت ام عطیہ سے منقول ہے کہ ہم نے ان باتوں پر اور اس امر پر کہ ہم کسی مرے پر نوحہ نہ کریں گی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اسی اثناء میں ایک عورت نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں نوحہ کرنے سے باز رہنے پر بیعت نہیں کرتی اس لئے کہ فلاں عورت نے میرے فلاں مرے پر نوحہ کرنے میں میری مدد کی ہے تو میں اس کا بدلہ ضرور اتاروں گی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے سن کر خاموش ہو رہے اور کچھ نہ فرمایا وہ چلی گئیں لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں واپس آئیں اور بیعت کر لی ، مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور اتنی زادتی بھی ہے کہ اس شرط کو صرف اس عورت نے اور حضرت ام سلیم بنت ملحان نے ہی پورا کیا ، بخاری کی اور روایت میں ہے کہ پانچ عورتوں نے اس عہد کو پورا کیا ، ام سلیم ام علام ، ابو سبرہ کی بیٹی جو حضرت معاذ کیب یوی تھیں اور دو اور عورتیں یا ابو سبرہ کی بیٹی اور حضرت معاذ کی بیوی اور ایک عورت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید والے دن بھی عورتوں سے اس بیعت کا معاہدہ لیا کرتے تھے ، بخاری میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رمضان کی عید کی نماز میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابو بکر عمر عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ پڑھی ہے سب کے سب خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے ، پھر نماز کے بعد خطبہ کہتے تھے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے اترے گویا وہ نقشہ میری نگاہ کے سامنے ہے کہ لوگوں کو بٹھایا جاتا تھا اور آپ ان کے درمیان سے تشریف لا رہے تھے یہاں تک کہ عورتوں کے پاس آئے آپ کے ساتھ حضرت بلال تھے یہاں پہنچ کر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر آپ نے دریافت کیا کہ کیا تم اپنے اس اقرار پر ثابت قدم ہو ایک عورت نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں کسی اور نے جواب نہیں دیا ، راوی حدیث حضرت حسن کو یہ معلوم نہیں کہ یہ جواب دینے والی کونسی عورت تھیں ، پھر آپ نے فرمایا اچھا خیرات کرو اور حضرت بلال نے اپنا کپڑا پھیلا دیا چنانچہ عورتوں نے اس پر بےنگینہ کی اور نگینہ دار انگوھٹیاں راہ اللہ ڈال دیں ، مسند احمد کی روایت میں حضرت امیمہ کی بیعت کے ذکر میں آیت کے علاوہ اتنا اور بھی ہے کہ نوحہ کرنا اور جاہلیت کے زمانہ کی طرح اپنا بناؤ سنگھار غیر مردوں کو نہ دکھانا ، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے بھی ایک مجلس میں فرمایا کہ مجھ سے ان باتوں پر بیعت کرو جو اس آیت میں ہیں جو شخص اس بیعت کو نبھا دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو اس کے خلاف کر گزرے اور وہ مسلم حکومت سے پوشیدہ رہے اس کا حساب اللہ کے پاس ہے اگر چاہے بخش دے اور اگر چاہے عذاب کرے ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عقبہ اولیٰ میں ہم بارہ شخصوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور انہی باتوں پر جو اس آیت میں مذکور ہیں آپ نے ہم سے بیعت لی اور فرمایا اگر تم اس پر پورے اترے تو یقیناً تمہارے لئے جنت ہے ، یہ واقعہ جہاد کی فرضیت سے پہلے کا ہے ، ابن جریر کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ عورتوں سے کیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے اس بات پر بیعت لیتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ان بیعت کے لئے آنے والیوں میں حضرت ہندہ تھیں جو عقبہ بن ربیعہ کی بیٹی اور حضرت سفیان کی بیوی تھیں یہی تھیں جنہوں نے اپنے کفر کے زمانہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیٹ چیر دیا تھا اس وجہ سے یہ ان عورتوں میں ایسی حالت سے آئی تھیں کہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے اس نے جب فرمان سنا تو کہنے لگی میں کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن اگر بولوں گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہچان لیں گے اور اگر پہچان لیں گے تو میرے قتل کا حکم دے دیں گی میں اسی وجہ سے اس طرح آئی ہوں کہ نہ پہچانی جاؤں مگر اور عورتیں سب خاموش رہیں اور ان کی بات اپنی زبان سے کہنے سے انکار کر دیا ، آخر ان ہی کو کہنا پڑا کہ یہ ٹھیک ہے جب شرک کی ممانعت مردوں کو ہے تو عورتوں کو کیوں نہ ہو گی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا لیکن آپ نے کچھ نہ فرمایا پھر حضرت عمر سے کہا ان سے کہہ دو کہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ چوری نہ کریں اس پرہندہ نے کہا میں ابو سفیان کی معمولی سی چیز کبھی کبھی لے لیا رتی ہوں کیا یہ بھی چوری میں دخل ہے یا نہیں؟ اور میرے لئے یہ حلال بھی ہے یا نہیں؟ حضرت ابو سفیان بھی اسی مجلس میں موجود تھے ، یہ سنتے ہی کہنے لگے میرے گھر میں جو کچھ بھی تو نے لیا ہو خواہ وہ خرچ میں آ گیا ہو یا اب بھی باقی ہو وہ سب میں تیرے لئے حلال کرتا ہوں اب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف پہچان لیا کہ یہ میرے چچا حمزہ کی قاتلہ اور اس کے کلیجے کو چیرنے والی پھر اسے چبانے والی عورت ہندہ ہے ، آپ نے انہیں پہچان کر اور ان کی یہ گفتگو دیکھ کر مسکرا دیئے اور انہیں اپنے بلایا انہوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام کر معافی مانگی آپ نے فرمایا ۔ تم وہی ہندہ ہو؟ انہوں نے کہا گزشتہ گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ہیں اور بیعت کے سلسلہ میں پھر لگ گئے اور فرمایا تیسری بات یہ ہے کہ ان عورتوں میں سے کوئی بدکاری نہ کرے ، اس پر حضرت ہندہ نے کہا کیا کوئی آزاد عورت بھی بدکاری کرتی ہے؟ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اللہ کی قسم آزاد عورتیں اس برے کام سے ہرگز آلود نہیں ہوتیں ، آپ نے پھر فرمایا جو چوتھی بات یہ ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں ہندہ نے کہا آپ نے انہیں بدر کے دن قتل کیا ہے آپ جانیں اور وہ ، آپ نے فرمایا پانچویں بات یہ ہے کہ خود اپنی ہی طرف سے جوڑ کر بےسر پیر کا کوئی خاص بہتان نہ تراش لیں اور چھٹی بات یہ ہے کہ میری شرعی باتوں میں میری نافرمانی نہ کریں اور ساتواں عہد آپ نے ان سے یہ بھی لیا کہ وہ نوحہ نہ کریں اہل جاہلیت اپنے کسی کے مرجانے پر کپڑے پھاڑ ڈالتے تھے منہ نوچ لیتے تھے بال کٹوا دیتے تھے اور ہائے وائے کیا کرتے تھے ۔ یہ اثر غریب ہے اور اس کے بعض حصے میں نکارت بھی ہے اس لئے کہ ابو سفیان اور ان کی بیوی ہندہ کے اسلام کے وقت انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ اس سے بھی آپ نے صفائی اور محبت کا اظہار کر دیا تھا ، واللہ اعلم ، ایک اور روایت میں ہے کہ فتح مکہ والے دن بیعت والی یہ آیت نازل ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر مردوں سے بیعت لی اور حضرت عمر نے عورتوں سے بیعت لی اس میں اتنا اور بھی ہے کہ اولاد کے قتل کی ممانعت سن کر حضرت ہندہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے تو انہیں چھٹینے پال پوس کر بڑا کیا لیکن ان بڑوں کو تم نے قتل کیا اس پر حضرت عمر مارے ہنسی کے لوٹ لوٹ گئے ، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ جب ہندہ بیعت کرنے آئیں تو ان کے ہاتھ مردوں کی طرح سفید تھے آپ نے فرمایا جاؤ ان کا رنگ بدل لو چنانچہ وہ مہندی لگا کر حاضر ہوئیں ، ان کے ہاتھ میں دو سونے کے کڑے تھے انہوں نے پوچھا کہ ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ فرمایا جہنم کی آگ کے دوا نگارے ہیں ، ( یہ حکم اس وقت ہے جب ان کی زکوٰۃ نہ ادا کی جائے ) اس بیعت کے لینے کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا ، جب اولادوں کے قتل کی ممانعت پر ان سے عہد لیا گیا تو ایک عورت نے کہا ان کے باپ دادوں کو تو قتل کیا اور ان کی اولاد کی وصیت ہمیں ہو رہی ہے ، یہ شروع شروع میں صورت بیعت کی تھی لیکن پھر اس کے بعد آپ نے یہ دستور کر رکھا تھا کہ جب بیعت کرنے کے لئے عورتیں جمع ہو جاتیں تو آپ یہ سب باتیں ان پر پیش فرماتے وہ ان کا اقرار کرتیں اور واپس لوٹ جاتیں ، پس فرمان اللہ ہے کہ جو عورت ان امور پر بیعت کرنے کے لئے آئے تو اس سے بیعت لے لو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، غیر لوگوں کے مال نہ چرانا ، ہاں اس عورت کو جس کا خاوند اپنی طاقت کے مطابق کھانے پینے پہننے اوڑھنے کو نہ دیتا ہو جائز ہے کہ اپنے خاند کے مال سے مطابق دستور اور بقدر اپنی حاجت کے لے گو خاوند کو اس کا علم نہ ہو اس کی دلیل حضرت ہندہ والی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے خاوند ابو سفیان بخیل آدمی ہیں وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولادوں کو کافی ہو سکے تو کیا میں اگر ان کی بےخبری میں اور ان کے مال میں لے لوں تو مجھے جائز ہے؟ آپ نے فرمایا بہ طریق معروف اس کے مال سے اتنا لے لے جو تجھے اور تیرے بال بچوں کو کفایت کرے ( بخاری و مسلم ) اور زنا کاری نہ کریں ، جیسے اور جگہ ہے ولا تفربوا الزنا انہ کان فاحشتہ وسا سبیلا زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بےحیائی ہے اور بری راہ ہے ، حضرت سمرہ والی حدیث میں زنا کی سزا اور درد ناک عذاب جہنم بیان کیا گیا ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت فاطمہ بنت عقبہ جب بیعت کے لئے آئیں اور اس آیت کی تلاوت ان کے سامنے کی گئی تو انہوں نے شرم سے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا آپ کو ان کی یہ حیا اچھی معلوم ہوئی ۔ حضرت عائشہ نے فرمایا انہی شرطوں پر ہم سب نے بیعت کی ہے یہ سن کر انہوں نے بھی بیعت کر لی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے طریقے اوپر بیان ہو چکے ہیں ، اولاد کو قتل نہ کرنے کا حکم عام ہے ، پیدا شدہ اولاد کو مار ڈالنا بھی اسی ممانعت میں ہے جیسے کہ جاہلیت کے زمانے والے اس خوف سے کرتے تھے کہ انہیں کہاں سے کھلائیں گے پلائیں گے ، اور حمل کا گرا دینا بھی اسی ممانعت میں ہے خواہ اس طرح ہو کہ ایسے علاج کئے جائیں جس سے حمل ٹھہر ہی نہیں یا ٹھہرے ہوئے حمل کو کسی طرح گرا دیا جائے ۔ بری غرض وغیرہ سے ، بہتان نہ باندھنے کا ایک مطلب تو حضرت ابن عباس نے یہ بیان فرمایا ہے کہ دوسرے کی اولاد کو اپنے خاوند کے سر چپکا دینا ، ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ ملاعنہ کی آیت کے نازل ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت کسی قوم میں اسے داخل کرے جو اس قوم کا نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی گنتی شمار میں نہیں اور جو شخص اپنی اولاد سے انکار کر جائے حالانکہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اللہ تعالیٰ اس سے آڑ کر لے گا اور تمام اگلوں پچھلوں کے سامنے اسے رسوا و ذلیل کرے گا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں یعنی آپ کے احکام بجا لائیں اور آپ کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جایا کریں ، یہ شرط یعنی معروف ہونے کی عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے لگا دی ہے ، حضرت میمون فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی فقط معروف میں رکھی ہے اور معروف ہی طاعت ہے ، حضرت ابن زید فرماتے ہیں دیکھ لو کہ بہترین خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا حکم بھی معروف میں ہی ہے ، اس بیعت والے دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے نوحہ نہ کرنے کا اقرار بھی لیا تھا جیسے حضرت ام عطیہ کی حدیث میں پہلے گذر چکا ، حضرت فتادہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے ۔ اس بیعت میں یہ بھی تھا کہ عورتیں غیر محرموں سے بات چیت نہ کریں ، اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم گھر پر موجود نہیں ہوتے اور مہمان آ جاتے ہیں آپ نے فرمایا میری مراد ان سے بات چیت کرنے کی ممانعت سے نہیں میں ان سے کام کی بات کرنے سے نہیں روکتا ( ابن جریر ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیعت کے موقعہ پر عورتوں کو نامحرم مردوں سے باتیں کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا بعض لوگ وہ بھی ہوتے ہیں کہ پرائی عورتوں سے باتیں کرنے میں ہی مزہ لیا کرتے ہیں یہاں تک کہ مذی نکل جاتی ہے اوپر حدیث بیان ہو چکی ہے کہ نوحہ نہ کرنے کی شرط پر ایک عورت نے کہا فلاں قبیلے کی عورتوں نے میرا ساتھ دیا ہے تو ان کے نوحے میں میں بھی ان کا ساتھ دے کر بدلہ ضرور اتاروں گی چنانچہ وہ گئیں بدلہ اتارا پھر آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ۔ حضرت ام سلیم جن کا نام ان عورتوں میں ہے جنہوں نے نوحہ نہ کرنے کی بیعت کو پورا کیا یہ ملحان کی بیٹی اور حضرت انس کی والدہ ہیں اور روایت میں ہے کہ جس عورت نے بدلے کے نوحے کی اجازت مانگی تھی خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی تھی یہی وہ معروف ہے جس میں نافرمانی منع ہے ، بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک کا بیان ہے کہ معروف میں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے مطلب یہ ہے کہ مصیبت کے وقت منہ نہ نوچیں بال نہ منڈوائیں کپڑے نہ پھاڑیں ہائے وائے نہ کریں ، ابن جریر میں حضرت ام عطیہ سے مروی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں مدینہ میں تشریف لائے تو ایک دن آپ نے حکم دیا کہ سب انصاریہ عورتیں فلاں گھر میں جمع ہوں پھر حضرت عمر بن خطاب کو وہاں بھیجا آپ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا ہم نے آپ کے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں ہم نے کہا رسول اللہک کو بھی مرحبا ہو اور آپ کے قاصد کو بھی ، حضرت عمر نے فرمایا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں حکم کروں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کرنے پر چوری اور زنا کاری سے بچنے پر بیعت کرو ہم نے کہا ہم سب حاضر ہیں اور اقرار کرتی ہیں چنانچہ آپ نے وہیں باہر کھڑے کھڑے اپنا ہاتھ اندر کی طرف بڑھا دیا اور ہم نے اپنے ہاتھ اندر سے باہر اندر ہی اندر بڑھائے ، پھر آپ نے فرمایا اے اللہ گواہ رہے ۔ پھر حکم ہوا کہ دونوں عیدوں میں ہم اپنی خانضہ عورتوں اور جوان کنواری لڑکیوں کو لے جایا کریں ، ہم پر جمعہ فرض نہیں ، ہمیں جنازوں کے ساتھ نہ جانا چاہئے ۔ حضرت اسماعیل راوی حدیث فرماتے ہیں میں نے اپنی دادی صاحبہ ام عطیہ سے پوچھا کہ عورتیں معروف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا یہ کہ نوحہ نہ کریں ، بخاری و مسلم میں ہے کہ جو کوئی مصیبت کے وقت اپنے کلوں پر تھپڑ مارے دامن چاک کرے اور جاہلیت کے وقت کی ہائی وہائی مچائے وہ ہم میں سے نہیں اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں جو گلا پھاڑ پھاڑ کر ہائے وائے کرے بال نوچے یا منڈوائے اور کپڑے پھاڑے یا دامن چیرے ۔ ابو علی میں ہے کہ میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جنہیں وہ نہ چھوڑیں گے حسب نسب پر فخر کرنا انسان کو اس کے نسب کا طعنہ دینا ستاروں سے بارش طلب کرنا اور میت پر نوحہ کرنا اور فرمایا نوحہ کرنے والی عورت اگر بغیر توبہ کئے مر جائے تو اسے قیامت کے دن گندھک کا پیراہن پہنایا جائے گا اور کھجلی کی چادر اڑھائی جائے گی ۔ مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والیوں پر اور نوحے کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ نہ کرنا ہے ، یہ حدیث ترمذی کی کتاب التفسیر میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔