Surah

Information

Surah # 61 | Verses: 14 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 109 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ لِلۡحَوٰارِيّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ‌ؕ قَالَ الۡحَـوٰرِيُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰهِ‌ فَاٰمَنَتۡ طَّآٮِٕفَةٌ مِّنۡۢ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ وَكَفَرَتۡ طَّآٮِٕفَةٌ ۚ فَاَيَّدۡنَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰى عَدُوِّهِمۡ فَاَصۡبَحُوۡا ظٰهِرِيۡنَ‏ ﴿14﴾
اے ایمان والو! تم اللہ تعالٰی کے مددگار بن جاؤ جس طرح حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت تو ایمان لائی اور ایک جماعت نے کفر کیا تو ہم نے مومنوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی پس وہ غالب آگئے ۔
يايها الذين امنوا كونوا انصار الله كما قال عيسى ابن مريم للحوارين من انصاري الى الله قال الحواريون نحن انصار الله فامنت طاىفة من بني اسراءيل و كفرت طاىفة فايدنا الذين امنوا على عدوهم فاصبحوا ظهرين
O you who have believed, be supporters of Allah , as when Jesus, the son of Mary, said to the disciples, "Who are my supporters for Allah ?" The disciples said, "We are supporters of Allah ." And a faction of the Children of Israel believed and a faction disbelieved. So We supported those who believed against their enemy, and they became dominant.
Aey eman walo! Tum Allah key madadgar bann jao. Jiss tarah hazrat marium kay betay hazrat essa ney hawariyon say farmaya kay kaun hai jo Allah ki raah mein mera madadgar baney? Hawariyon ney kaha hum Allah ki raah mein madadgar hain pus bani israeel mein say aik jamat to eman laee aur aik jamat ney kufur kiya tum hum ney mominon ki unn kay dushman kay muqabley mein madad ki pus woh ghalib aagaye.
اے ایمان والو ! تم اللہ ( کے دین ) کے مددگار بن جاؤ ، اسی طرح جیسے عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام ) نے حواریوں ( ٩ ) سے کہا تھا کہ : وہ کون ہیں جو اللہ کے واسطے میرے مددگار بنیں؟ حواریوں نے کہا : ہم اللہ کے ( دین کے ) مددگار ہیں ۔ پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا ، اور ایک گروہ نے کفر اختیار کیا ، چنانچہ جو لوگ ایمان لائے تھے ہم نے ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کی ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ غالب آئے ۔
اے ایمان والو دین خدا کے مددگار ہو جیسے ( ف۲٤ ) عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے ( ف۲۵ ) ہم دین خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا ( ف۲٦ ) اور ایک گروہ نے کفر کیا ( ف۲۷ ) تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہوگئے ( ف۲۸ )
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ کے مددگار بنو جس طرح عیسی مریم نے حواریوں 19 کو خطاب کر کے کہا تھا: کون ہے اللہ کی طرف ( بلانے ) میں میرا مددگار اور حواریوں نے جواب دیا ” ہم ہیں اللہ کے مدد گار20 ” ۔ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا ۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے 21 ۔ ع
اے ایمان والو! تم اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسٰی ابن مریم ( علیہما السلام ) نے ( اپنے ) حواریوں سے کہا تھا: اللہ کی ( راہ کی ) طرف میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں ۔ پس بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرا گروہ کافر ہوگیا ، سو ہم نے اُن لوگوں کی جو ایمان لے آئے تھے اُن کے دشمنوں پر مدد فرمائی پس وہ غالب ہوگئے
سورة الصَّف حاشیہ نمبر :19 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لیے بائیبل میں عموماً لفظ شاگرد استعمال کیا گیا ہے ، لیکن بعد میں ان کے لیے رسول ( Apostles ) کی اصطلاح عیسائیوں میں رائج ہو گئی ، اس معنی میں نہیں کہ وہ خدا کے رسول تھے ، بلکہ اس معنی میں کہ حضرت عیسیٰ ان کو اپنی طرف سے مبلغ بنا کر اطراف فلسطین میں بھیجا کرتے تھے ۔ یہودیوں کے ہاں یہ لفظ پہلے سے ان لوگوں کے لیے بولا جاتا تھا جو ہیکل کے لیے چندہ جمع کرنے بھیجے جاتے تھے ۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کی اصطلاح حواری ان دونوں مسیحی اصطلاحوں سے بہتر ہے ۔ اس لفظ کی اصل حور ہے جس کے معنی سفیدی کے ہیں ۔ دھوبی کو حواری کہتے ہیں کیونکہ وہ کپڑے دھو کر سفید کر دیتا ہے ۔ خالص اور بے آمیز چیز کو بھی حواری کہا جاتا ہے ۔ جس آٹے کو چھان کر بھوسی نکال دی گئی ہو اسے حُوّاریٰ کہتے ہیں ۔ اسی معنی میں خالص دوست اور بے غرض حامی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ ابن سیدہ کہتا ہے ہر وہ شخص جو کسی کی مدد کرنے میں مبالغہ کرے وہ اس کا حواری ہے ( لسان العرب ) ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :20 یہ آخری مقام ہے جہاں قرآن مجید میں ان لوگوں کو اللہ کا مددگار کہا گیا ہے جو خلق خدا کو دین کی طرف بلانے اور اللہ کے دین کو کفر کے مقابلے میں غالب کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اس سے پہلے یہی مضمون سورہ آل عمران ، آیت 52 سورہ حج ، آیت 40 ، سورہ محمد ، آیت 7 ، سورہ حدید ، آیت 25 اور سورہ حشر آیت 8 میں گزر چکا ہے ، اور ان آیات کی تشریح ہم تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 50 ، جلد سوم ، الحج ، حاشیہ 84 ، جلد پنجم ، سورہ محمد ، حاشیہ 12 ، اور سورہ حدید ، حاشیہ 47 میں کر چکے ہیں ، نیز سورہ محمد ، حاشیہ 9 میں بھی اس مسئلے کے ایک گوشے پر واضح روشنی ڈالی جاچکی ہے ۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کے ذہن میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، تمام خلق سے بے نیاز ہے ، کسی کا محتاج نہیں ہے اور سب اس کے محتاج ہیں تو کوئی بندہ آخر اللہ کا مددگار کیسے ہو سکتا ہے ۔ اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے ہم یہاں اس مسئلے کی مزید وضاحت کیے دیتے ہیں ۔ دراصل ایسے لوگوں کو اللہ کا مددگار اس لیے نہیں کہا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین معاذاللہ کسی کام کے لیے اپنی کسی مخلوق کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو کفر و ایمان اور طاعت و معصیت کی آزادی بخشی ہے اس میں وہ لوگوں کو اپنی قوت قاہرہ سے کام لے کر بجز مومن و مطیع نہیں بناتا بلکہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ان کو راہ راست دکھانے کے لیے تذکیر و تعلیم اور تفہیم و تلقین کا طریقہ اختیار فرماتا ہے ۔ اس تذکیر و تعلیم کو جو شخص بہ رضا و رغبت قبول کر لے وہ مومن ہے ، جو عملاً مطیع فرمان بن جائے وہ مسلم و قانت اور عابد ہے ، جو خدا ترس کا رویہ اختیار کر لے وہ متقی ہے ، جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے لگے وہ محسن ہے ، اور اس سے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر جو اسی تذکیر و تعلیم کے ذریعہ سے بندگان خدا کی اصلاح کے لیے اور کفر و فسق کی جگہ اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کام کرنے لگے اسے اللہ تعالیٰ خود اپنا مددگار قرار دیتا ہے ، جیسا کہ آیات مذکورہ بالا میں کئی جگہ بالفاظ صریح ارشاد ہوا ہے ۔ اگر اصل مقصود اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کے دین کا مددگار کہنا ہوتا تو اَنْصَارُ اللہ کے بجائے اَنْصَارُ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا ، یَنْصُرُوْنَ اللہ کے بجائے یَنْصُرُوْنَ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا ، اِنْ تَنْصُرُوْ اللہَ کے بجائے اِنْتَنْصُرُوْا دِیْنَ اللہِ فرمایا جاتا ۔ جب ایک مضمون کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پے در پے کئی مقامات پر ایک ہی طرز بیان اختیار فرمایا ہے تو یہ اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ اصل مقصود ایسے لوگوں کو اللہ کا مددگار ہی کہنا ہے ۔ مگر یہ مدد گاری نعوذ بااللہ اس معنی میں نہیں ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی کوئی ضرورت پوری کرتے ہیں جس کے لیے وہ ان کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ یہ لوگ اسی کام میں حصہ لیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنی قوت قاہرہ کے ذریعہ سے کرنے کے بجائے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے کرنا چاہتا ہے ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :21 مسیح پر ایمان نہ لانے والوں سے مراد یہودی ، اور ایمان لانے والوں سے مراد عیسائی اور مسلمان ، دونوں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مسیح کے منکرین پر غلبہ عطا فرمایا ۔ اس بات کو یہاں بیان کرنے سے مقصود مسلمانوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ جس طرح پہلے حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ان کا انکار کرنے والوں پر غالب آ چکے ہیں ، اسی طرح اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے آپ کا انکار کرنے والوں پر غالب آئیں گے ۔
عیسیٰ علیہ السلام کے 12صحابہ کی روداد: ۔ اللہ سحبانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ جان مال عزت آبرو قول فعل نقل و حرکت سے دل اور زبان سے اللہ کی اور اس کے رسول کی تمام تر باتوں کی تعمیل میں رہیں ، پھر مثال دیتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے تابعداروں کو دیکھو کہ حضرت عیسیٰ کی آواز پر فوراً لبیک پکار اٹھے اور ان کے اس کہنے پر کہ کوئی ہے جو اللہ کی باتوں میں میری امداد کرے انہوں نے بلا غور علی الفور کہہ دیا کہ ہم سب آپ کے ساتھی ہیں اور دین اللہ کی امداد میں آپ کے تابع ہیں ، چنانچہ روح اللہ علیہ صوالت اللہ نے اسرائیلیوں اور یونانیوں میں انہیں مبلغ بنا کر شام کے شہروں میں بھیجا ، حج کے دنوں میں سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے جگہ دے تاکہ میں اللہ کی رسالت کو پہنچا دوں قریش تو مجھے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں ، چنانچہ اہل مدینہ کے قبیلے اوس و خزرج کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ابدی بخشی انہوں نے آپ سے بیعت کی آپ کی باتیں قبول کیں ، اور مضبوط عہد و پیمان کئے کہ اگر آپ ہمارے ہاں آ جائیں تو پھر کسی سرخ و سیاہ کی طاقت نہیں جو آپ کو دکھ پہنچائے ہم آپ کی طرف سے جانیں لڑا دیں گے اور آپ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں گے ، پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر کے ان کے ہاں گئے تو فی الواقع انہوں نے اپنے کہے کو پورا کر دکھایا اور اپنی زبان کی پاسداری کی اسی لئے انصار کے معزز لقب سے ممتاز ہوئے اور یہ لقب گویا ان کا امتیازی نام بن گیا اللہ ان سے خوش ہو اور انہیں بھی راضی کرے آمین! جبکہ حواریوں کو لے کر آپ دین اللہ کی تبلیغ کے لئے کھڑے ہوئے تو بنی اسرائیل کے کچھ لوگ تو راہ راست پر آ گئے اور کچھ لوگ نہ آئے بلکہ آپ کو اور آپ کی والدہ ماجدہ طاہرہ کو بدترین برائی کی طرف منسوب کیا ان یہودیوں پر اللہ کی پھٹکار پڑی اور ہمیشہ کے لئے راندہ درگاہ بن گئے ، پھر ماننے والوں میں سے بھی ایک جماعت ماننے میں ہی حد سے گذر گئی اور انہیں ان کے درجہ سے بہت بڑھا دیا ، پھر اس گروہ میں بھی کئی گروہ ہوگئے ، بعض تو کہنے لگے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں بعض نے کہا تین میں کے تیسرے ہیں یعنی باپ بیٹا اور روح القدس اور بعض نے تو آپ کو اللہ ہی مان لیا ، ان سب کا ذکر سورہ نساء میں مفصل ملاحظہ ہو ، سچے ایمان والوں کی جناب باری نے اپنے آخر الزماں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تائید کی ان کے دشمن نصرانیوں پر انہیں غالب کر دیا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب اللہ کا ارادہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا لے آپ نہا دھو کر اپنے اصحاب کے پاس آئے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے یہ بارہ صحابہ تھے جو ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے آتے ہی فرمایا تم میں وہ بھی ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں لیکن پھر میرے ساتھ کفر کریں گے اور ایک دو دفعہ نہیں بلکہ بارہ بارہ مرتبہ ، پھر فرمایا تم میں سے کون اس بات پر آمادہ ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈالی جائے اور وہ میرے بدلے قتل کیا جائے اور جنت میں میرے درجے میں میرا ساتھی بنے ، ایک نوجوان جو ان سب میں کم عمر تھا ، اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو پیش کیا ، آپ نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ ، پھر وہی بات کہی اب کی مرتبہ بھی کم عمر نوجوان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے ، حضرت عیسیٰ نے اب کی مرتبہ بھی انہیں بٹھا دیا ، پھر تیسری مرتبہ یہی سوال کیا ، اب کی مرتبہ بھی یہی نوجوان کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا بہت بہتر ، اسی وقت ان کی شکل و صورت بالکل حضرت عیسیٰ جیسی ہو گئی اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس گھر کے ایک روزن سے آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے ۔ اب یہودیوں کی فوج آئی اور انہوں نے اس نوجوان کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر گرفتار کر لیا اور قتل کر دیا اور سولی پر چڑھا دیا اور حضرت عیسیٰ کی پیشین گوئی کے مطابق ان باقی کے گیارہ لوگوں میں سے بعض نے بارہ بارہ مرتبہ کفر کیا ، حالانکہ وہ اس سے پہلے ایماندار تھے ، پھر بنی اسرائیل کے ماننے والے گروہ کے تین فرقے ہوگئے ، ایک فرقے نے تو کہا کہ خود اللہ ہمارے درمیان بصورت مسیح تھا ، جب تک چاہا رہا پھر آسمان پر چڑھ گیا ، انہیں یعقوبیہ کہا جاتا ہے ، ایک فرقے نے کہا ہم میں اللہ کا بیٹا تھا جب تک اللہ نے چاہا اسے ہم میں رکھا اور جب چاہا اپنی طرف چڑھا لیا ، انہیں سطوریہ کہا جاتا ہے ، تیسری جماعت حق پر قائم رہی ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول حضرت عیسیٰ ہم میں تھے ، جب تک اللہ کا ارادہ رہا آپ ہم میں موجود رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا ، یہ جماعت مسلمانوں کی ہے ۔ پھر ان دونوں کافر جماعتوں کی طاقت بڑھ گئی اور انہوں نے ان مسلمانوں کو مار پیٹ کر قتل و غارت کرنا شروع کیا اور یہ دبے بھی ہوئے اور مغلوب ہی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ، پس بنی اسرائیل کی وہ مسلمان جماعت آپ پر بھی ایمان لائی اور ان کافر جماعتوں نے آپ سے بھی کفر کیا ، ان ایمان والوں کی اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور انہیں ان کے دشمنوں پر غالب کر دیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غالب آ جانا اور دین اسلام کا تمام ادیان کو مغلوب کر دینا ہی ان کا غالب آنا اور اپنے دشمنوں پر فتح پانا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفسیر ابن جریر اور سنن نسائی ۔ پس یہ امت حق پر قائم رہ کر ہمیشہ تک غالب رہے گی یہاں تک کہ امر اللہ یعنی قیامت آ جائے اور یہاں تک کہ اس امت کے آخری لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو کر مسیح دجال سے لڑائی کریں گے جیسے کہ صحیح احادیث میں موجود ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورہ صف کی تفسیر ختم ہوئی ، فالحمد للہ ۔