Surah

Information

Surah # 62 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 110 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ الۡمَلِكِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَكِيۡمِ‏ ﴿1﴾
۔ ( ساری چیزیں ) جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرتی ہیں ( جو ) بادشاہ نہایت پاک ( ہے ) غالب و با حکمت ہے ۔
يسبح لله ما في السموت و ما في الارض الملك القدوس العزيز الحكيم
Whatever is in the heavens and whatever is on the earth is exalting Allah , the Sovereign, the Pure, the Exalted in Might, the Wise.
( saari cheezen ) jo aasmanon aur zamin mein hain Allah Taalaa ki paki biyan kerti hain ( jo ) badshah nihayat pak ( hai ) ghalib-o-ba hikmat.
آسمانوں اور زمین میں جو چیز بھی ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے جو بادشاہ ہے بڑے تقدس کا مالک ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے جس کی حکمت بھی کامل ۔
اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ( ف۲ ) بادشاہ کمال پاکی والا عزت والا حکمت والا ،
اللہ کی تسبیح کر ہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بادشاہ ہے ، قدوس ہے ، زبردست اور حکیم ہے 1 ۔
۔ ( ہر چیز ) جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتی ہے ( جو حقیقی ) بادشاہ ہے ، ( ہر نقص و عیب سے ) پاک ہے ، عزت و غلبہ والا ہے بڑی حکمت والا ہے
سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :1 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ حدید ، حواشی 1 ، 2 ، الحشر ، حواشی 36 ، 37 ، 41 ۔ آگے کے مضمون سے یہ تمہید بڑی گہری مناسبت رکھتی ہے ۔ عرب کے یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات اور کارناموں میں رسالت کی صریح نشانیاں بہ چشم سر دیکھ لینے کے باوجود ، اور اس کے باوجود کہ تَوراۃ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کے آنے کی صریح بشارت دی تھی جو آپ کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہوتی تھی ، صرف اس بنا پر آپ کا انکار کر رہے تھے کہ اپنی قوم اور نسل سے باہر کے کسی شخص کی رسالت مان لینا انہیں سخت ناگوار تھا ۔ وہ صاف کہتے تھے کہ جو کچھ ہمارے ہاں آیا ہے ہم صرف اسی کو مانیں گے ۔ دوسرے کسی تعلیم کو ، جو کسی غیر اسرائیلی نبی کے ذریعہ سے آئے ، خواہ وہ خدا ہی کی طرف سے ہو ، تسلیم کرنے کے لیے وہ قطعی تیار نہ تھے ۔ آگے کی آیتوں میں اسی رویہ پر انہیں ملامت کی جا رہی ہے ، اس لیے کلام کا آغاز اس تمہیدی فقرے سے کیا گیا ہے ۔ اس میں پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ۔ یعنی یہ پوری کائنات اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ ان تمام نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جن کی بنا پر یہودیوں نے اپنی نسلی برتری کا تصور قائم کر رکھا ہے ۔ وہ کسی کا رشتہ دار نہیں ہے ۔ جانب داری ( Favouristism ) کا اس کے ہاں کوئی کام نہیں ۔ اپنی ساری مخلوق کے ساتھ اس کا معاملہ یکساں عدل اور رحمت اور ربوبیت کا ہے ۔ کوئی خاص نسل اور قوم اس کی چہیتی نہیں ہے کہ وہ خواہ کچھ کرے ، بہرحال اس کی نوازشیں اسی کے لیے مخصوص رہیں ، اور کسی دوسری نسل یا قوم سے اس کو عداوت نہیں ہے کہ وہ اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتی ہو تو وہ اس کی عنایات سے محروم رہے ۔ پھر فرمایا گیا کہ وہ بادشاہ ہے ، یعنی دنیا کی کوئی طاقت اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی نہیں ہے ۔ تم بندے اور رعیت ہو ۔ تمہارا یہ منصب کب سے ہو گیا کہ تم یہ طے کرو کہ وہ تمہاری ہدایت کے لیے اپنا پیغمبر کسے بنائے اور کسے نہ بنائے ۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ وہ قدوس ہے ۔ یعنی اس سے بدرجہا منزہ اور پاک ہے کہ اس کے فیصلے میں کسی خطا اور غلطی کا امکان ہو ۔ غلطی تمہاری سمجھ بوجھ میں ہو سکتی ہے ۔ اس کے فیصلے میں نہیں ہو سکتی ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو مزید صفتیں بیان فرمائی گئیں ۔ ایک یہ کہ وہ زبردست ہے ، یعنی اس سے لڑ کر کوئی جیت نہیں سکتا ۔ دوسری یہ کہ وہ حکیم ہے ، یعنی جو کچھ کرتا ہے وہ عین مقتضائے دانش ہوتا ہے ، اور اس کی تدبیریں ایسی محکم ہوتی ہیں کہ دنیا میں کوئی ان کا توڑ نہیں کر سکتا ۔
قرآن حکیم آفاقی کتاب ہدایت ہے اور ہر جگہ بھی فرمایا ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی ہو تمام مخلوق خاہ آسمان کی ہو ، خواہ زمین کی ، اس کی تعریفوں اور پاکیزگیوں کے بیان میں مصروف و مشغول ہے ، وہ آسمان و زمین کا بادشاہ اور ان دونوں میں اپنا پورا تصر ف اور اٹل حکم جاری کرنے والا ہے ، وہ تمام نقصانات سے پاک اور بےعیب ہے ، تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے ، وہ عزیز و حکیم ہے ۔ اس کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے ۔ امیون سیم راد عرب ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے ۔ الخ ، یعنی تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا ؟ اور وہ مسلمان ہو جائیں تو وہ راہ راست پر ہیں اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لئے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے وانہ لذکر لک ولقومک یعنی یہ تیرے لئے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لئے بھی ، یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان الوں کے لئے نصیحت ہے اسی طرح اور جگہ فرمان ہے ( ترجمعہ ) اپنے قرابت دار اور کنبہ والوں کو ڈرا دے ، یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے ، ارشاد باری ہے ۔ ( ترجمہ ) لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) یعنی اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے ، اسی طرح قرآن کی بات فرمایا ( ترجمہ ) تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے ، اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ، جن سے صاف ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی ، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے ، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ ( ترجمہ ) سورہ انعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کر چکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں فالحمد اللہ یہاں یہ فرمانا کہ ان پڑھوں یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجا اس لئے ہے کہ حضرت خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہو جائے ، آپ نے اہل مکہ کے لئے دعا ماگنی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیجے جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی ، انہیں پاکیگی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے ، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جبکہ مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی سوائے چند اہل کتاب کے جو حضرت عیسیٰ کے سچے دین پر قائم تھے اور افراط تفریط سے الگ تھی باقی تمام دنیا دین حق کو بھلا بیٹھی تھی اور اللہ کی نامرضی کے کاموں میں مبتلا تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا ، آپ نے ان ان پڑھ کو اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ سنائیں انہیں پاکیزگی سکھائی اور کتاب و حکمت کا معلم بنا دیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے ، سنئے عرب حضرت ابراہیم کے دین کے دعویدار تھے لیکن حالت یہ تھی کہ اصل دین کو خورد برد کر چکے تھے اس میں اس قدر تبدل تغیر کر دیا تھا کہ توحید شرک سے اور یقین شک سے بدل چکا تھا ساتھ ہی بہت سی اپنی ایجاد کردہ بدعتیں دین اللہ میں شامل کر دی تھیں ، اسی طرح اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں کو بدل دیا تھا ان میں تحریف کر لی تھی اور متغیر کر دیا تھا ساتھ ہی معنی میں بھی الٹ پھیر کر لیا تھا پس اللہ پاک نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم الشان شریعت اور کامل مکمل دین دے کر دنیا والوں کی طرف بھیجا کہ اس فساد کی آپ اصلاح کریں ، اہل دنیا کو اصل احکام الٰہی پہنچائیں اللہ کی مرضی اور نامرضی کے احکام لوگوں کو معلوم کرا دیں ، جنت سے قریب کرنے والے عذاب سے نجات دلوانے والے تمام اعمال بتائیں ، ساری مخلوق کے ہادی بنیں اصول و فروغق سب سکھائیں ، کوئی چھوٹی بڑی بات باقی نہ چھوڑیں ۔ تمام تر شکوک و شبہات سب کے دور کر دیں اور یاسے دین پر لگوں کو ڈال دیں جن میں ہر بھلائی موجود ہو ، اس بلند و بالا خدمت کے لئے آپ میں وہ برتریاں اور بزرگیاں جمع کر دیں جمع کر دیں جو نہ آپ سے پہلے کسی میں تھیں نہ آپ کے بعد کسی میں ہو سکیں ، اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود و سلام نازل فرماتا رہے آمین! دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت ابو ہریرہ سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورہ جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگں نے پوچھا کہ اخرین منھم سے کیا مراد ہے تین مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا تب آپ نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پا لیتے ۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لئے مخصوص نہیں کیونکہ آپ نے اس آیت کی تفسیم میں فارس والوں کو فرمایا ۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے ۔ حضرت مجاہد وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی رب کے سوا کے جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے ، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے ، پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا ، یہ خاص اللہ کا فضل ہے ، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے ، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے ۔