Surah

Information

Surah # 62 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 110 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ‏ ﴿2﴾
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے ۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔
هو الذي بعث في الامين رسولا منهم يتلوا عليهم ايته و يزكيهم و يعلمهم الكتب و الحكمة و ان كانوا من قبل لفي ضلل مبين
It is He who has sent among the unlettered a Messenger from themselves reciting to them His verses and purifying them and teaching them the Book and wisdom - although they were before in clear error -
Wohi hai jiss ney na khuanda logon mein inn hi mein say aik rasool bheja jo enhen uss ki aayaten parh ker sunata hai aur inn ko pak kerta hai aur enhen kitab-o-hikmat sikhata hai. Yaqeenan yeh iss say pehlay khuli gumrahi mein thay.
وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں ، جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے ۔ ( ١ )
وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ( ف۳ ) کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں ( ف٤ ) اور انہیں پاک کرتے ہیں ( ف۵ ) اور انہیں کتاب و حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں ( ف٦ ) اور بیشک وہ اس سے پہلے ( ف۷ ) ضرور کھلی گمراہی میں تھے ( ف۸ )
وہی ہے جس نے امیوں 2 کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا ، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے ، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے 3 ۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے 4 ۔
وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک ( با عظمت ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن ( کے ظاہر و باطن ) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ، بیشک وہ لوگ اِن ( کے تشریف لانے ) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :2 یہاں امی کا لفظ یہودی اصطلاح کے طور پر آیا ہے ، اور اس میں ایک لطیف طنز پوشیدہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کو یہودی حقارت کے ساتھ امی کہتے اور اپنے مقابلہ میں ذلیل سمجھتے ہیں ، انہیں میں اللہ غالب و دانا نے ایک رسول اٹھایا ہے ۔ وہ خود نہیں اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس کا اٹھانے والا وہ ہے جو کائنات کا بادشاہ ہے ، زبردست اور حکیم ہے ، جس کی قوت سے لڑ کر یہ لوگ اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے ، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید میں اُمی کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے اور سب جگہ اس کے معنی ایک ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ کہیں وہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جس کی پیروی وہ کرتے ہوں ۔ مثلاً فرمایا : قَلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَا لْاُمِّیِّنَءَ اَسْلَمْتُمْ ( آل عمران ۔ 20 ) ۔ اہل کتاب اور امیوں سے پوچھو کیا تم نے اسلام قبول کیا ؟ یہاں امیوں سے مراد مشرکین عرب ہیں ، اور ان کو اہل کتاب ، یعنی یہود و نصاریٰ سے الگ ایک گروہ قرار دیا گیا ہے ۔ کسی جگہ یہ لفظ خود اہل کتاب کے اَن پڑھ اور کتاب اللہ سے ناواقف لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَانِیَّ ( البقرہ ۔ 78 ) ۔ ان یہودیوں میں کچھ لوگ امی ہیں ، کتاب کا کوئی علم نہیں رکھتے ، بس اپنی آرزوؤں ہی کو جانتے ہیں ۔ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے مراد دنیا کے تمام غیر یہودی ہیں ۔ مثلاً فرمایا: ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ( آل عمران ۔ 75 ) ۔ یعنی ان کے اندر یہ بد دیانتی پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں کا مال مار کھانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے ۔ یہی تیسرے معنی ہیں جو آیت زیر بحث میں مراد لیے گئے ہیں ۔ یہ لفظ عبرانی زبان کے لفظ گوئیم کا ہم معنی ہے ، جس کا ترجمہ انگریزی بائیبل میں Gentiles کیا گیا ہے ، اور اس سے مراد تمام غیر یہودی یا غیر اسرائیلی لوگ ہیں ۔ لیکن اس یہودی اصطلاح کی اصل معنویت محض اس کی اس تشریح سے سمجھ میں نہیں آ سکتی ۔ دراصل عبرانی زبان کا لفظ گوئیم ابتداءً محض اقوام کے معنی میں بولا جاتا تھا ، لیکن رفتہ رفتہ یہودیوں نے اسے پہلے تو اپنے سوا دوسری قوموں کے لیے مخصوص کر دیا ، پھر اس کے اندر یہ معنی پیدا کر دیے کہ یہودیوں کے سوا باقی تمام اقوام ناشائستہ ، بد مذہب ، ناپاک اور ذلیل ہیں ، حتیٰ کہ حقارت اور نفرت میں یہ لفظ یونانیوں کی اصطلاح Barbarian سے بھی بازی لے گیا جسے وہ تمام غیر یونانیوں کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ ربیوں کے لٹریچر میں گوئیم اس قدر قابل نفرت لوگ ہیں کہ ان کو انسانی بھائی نہیں سمجھا جا سکتا ، ان کے ساتھ سفر نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ ان میں سے کوئی شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی ۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آنے والا مسیح تمام گوئیم کو ہلاک کر دے گا اور جلا کر خاکستر کر ڈالے گا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 64 ) ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :3 قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات چار مقامات پر بیان کی گئی ہیں ، اور ہر جگہ ان کے بیان کی غرض مختلف ہے ۔ البقرہ آیت 129 میں ان کا ذکر اہل عرب کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ آنحضور کی بعثت ، جسے وہ اپنے لیے زحمت و مصیبت سمجھ رہے تھے ، در حقیقت ایک بڑی نعمت ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کر تے تھے ۔ البقرہ آیت 151 میں انہیں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر پہچانیں اور اس نعمت سے پورا پورا فیض حاصل کریں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے ۔ آل عمران آیت 164 میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لیے ان کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ کتنا بڑا احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان اپنا رسول بھیج کر کیا ہے اور یہ لوگ کتنے نادان ہیں کہ اس کی قدر نہیں کرتے ۔ اب چوتھی مرتبہ انہیں اس سورہ میں دہرایا گیا ہے جس سے مقصود یہودیوں کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کر رہے ہیں وہ صریحاً ایک رسول کا کام ہے ۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان ، مضامین ، انداز بیان ، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں ۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں ، ان کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں ، اور ان کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں ۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرتے رہے ہیں ۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتاب الٰہی کا منشا سمجھا رہے ہیں اور ان کو اس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی ہے ۔ یہی سیرت اور کردار اور کام ہی تو انبیاء کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں ۔ پھر یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ جس کا رسول بر حق ہونا اس کے کارناموں سے علانیہ ثابت ہو رہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اللہ نے اسے تمہاری قوم کے بجائے اس قوم میں سے اٹھایا جسے تم امی کہتے ہو ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :4 یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ایک اور ثبوت ہے جو یہودیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے پیش کیا گیا ہے ۔ یہ لوگ صدیوں سے عرب کی سر زمین میں آباد تھے اور اہل عرب کی مذہبی ، اخلاقی ، معاشرتی ، اور تمدنی زندگی کا کوئی گوشہ ان سے چھپا ہوا نہ تھا ۔ ان کی اس سابق حالت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ چند سال کے اندر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و رہنمائی میں اس قوم کی جیسی کایا پلٹ گئی ہے اس کے تم عینی شاہد ہو ۔ تمہارے سامنے وہ حالت بھی ہے جس میں یہ لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے مبتلا تھے ۔ وہ حالت بھی ہے جو اسلام لانے کے بعد ان کی ہو گئی ، اور اسی قوم کے ان لوگوں کی حالت بھی تم دیکھ رہے ہو جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا ہے ۔ کیا یہ کھلا کھلا فرق ، جسے ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے ، تمہیں یہ یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کے سوا کسی کا کارنامہ نہیں ہو سکتا ؟ بلکہ اس کے سامنے تو پچھلے انبیاء تک کے کارنامے ماند پڑ گئے ہیں ۔