Surah

Information

Surah # 62 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 110 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
مَثَلُ الَّذِيۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰٮةَ ثُمَّ لَمۡ يَحۡمِلُوۡهَا كَمَثَلِ الۡحِمَارِ يَحۡمِلُ اَسۡفَارًا‌ ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿5﴾
جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ ( ایسے ) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔
مثل الذين حملوا التورىة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل اسفارا بس مثل القوم الذين كذبوا بايت الله و الله لا يهدي القوم الظلمين
The example of those who were entrusted with the Torah and then did not take it on is like that of a donkey who carries volumes [of books]. Wretched is the example of the people who deny the signs of Allah . And Allah does not guide the wrongdoing people.
Jin logon ko toraat per amal kerney ka hukum diya gaya phir unhon ney uss per amal nahi kiya unn ki misal uss gadhay ki say hai jo boht si kitaben laaday ho. Allah ki baaton ko jhutlaney walon ki bari buri misal hai aur Allah ( aisay ) zalim qom ko hidayat nahi deta.
جن لوگوں پر تورات کا بوجھ ڈالا گیا ، پھر انہوں نے اس کا بوجھ نہیں اٹھایا ، ( ٤ ) ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہوئے ہو ۔ بہت بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ، اور اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا ۔
ان کی مثال جن پر توریت رکھی گئی تھی ( ف۱۳ ) پھر انہوں نے اس کی حکم برداری نہ کی ( ف۱٤ ) گدھے کی مثال ہے جو پیٹھ پر کتابیں اٹھائے ( ف۱۵ ) کیا ہی بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیتیں جھٹلائیں ، اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا ،
جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا 7 ، ان کی مثال اس گدھے 8 کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں ۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے 9 ۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا ۔
اُن لوگوں کا حال جن پر تورات ( کے احکام و تعلیمات ) کا بوجھ ڈالا گیا پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا ( یعنی اس میں اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر موجود تھا مگر وہ اِن پر ایمان نہ لائے ) گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو ، اُن لوگوں کی مثال کیا ہی بُری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہے ، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا
سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :7 اس فقرے کے دو معنی ہیں ۔ ایک عام اور دوسرا خاص ۔ عام معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں پر توراۃ کے علم و عمل ، اور اس کے مطابق دنیا کی ہدایت کا بار رکھا گیا تھا ، مگر نہ انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھا اور نہ اس کا حق ادا کیا ۔ خاص معنی یہ ہیں کہ حامل توراۃ گروہ ہونے کی حیثیت سے جن کا کام یہ تھا کہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس رسول کا ساتھ دیتے جس کے آنے کی صاف صاف بشارت توراۃ میں دی گئی تھی ، مگر انہوں نے سب سے بڑھ کر اس کی مخالف کی اور توراۃ کی تعلیم کے تقاضے کو پورا نہ کیا ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :8 یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے ، اسی طرح یہ توراۃ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لیے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :9 یعنی ان کا حال گدھے سے بھی بدتر ہے ۔ وہ تو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اس لیے مغرور ہے ۔ مگر یہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ توراۃ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔ اس کے معنی سے ناواقف نہیں ہیں ۔ پھر بھی یہ اس کی ہدایات سے دانستہ انحراف کر رہے ہیں ، اور اس نبی کو ماننے سے قصداً انکار کر رہے ہیں جو توراۃ کی رو سے سراسر حق پر ہے ۔ یہ نافہمی کے قصور وار نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر اللہ کی آیات کو جھٹلانے کے مجرم ہیں ۔
کتابوں کا بوجھ لادا گدھا اور بےعمل عالم ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے؟ اسی طرح یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے؟ نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں ، پس درصال یہ اس بےسمجھ جانور سے بھی بدترین ، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے ۔ اسی لئے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے ۔ ( ترجمہ ) یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے ، یہ غافل لوگ ہیں ۔ یہاں فرمایا اللہ کیا آیتوں کے جھٹلانے الوں کی بری مثال ہے ، ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے ، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا ۔ پھر فرماتا ہے اے یہود! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حق پر ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ناحق پر ہیں تو آؤ اور دعا مانگو کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے موت دے ، پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیج رکھے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں مثلاً کفر فجور ظلم نافرمانی وغیرہ اس وجہ سے ہماری پیشین گوئی ہے کہ وہ اس پر آمادگی نہیں کریں گے ، ان ظالموں کو اللہ بخوبی جانتا ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت قل ان کانت الخ ، کی تفسیر میں یہودیوں کے اس مباہلے کا پورا ذکر ہم کر چکے ہیں اور وہیں یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اپنے اوپر اگر خود گمراہ ہوں تو ان پر تو یا اپنے مقابل پر اگر وہ گمراہ ہوں موت کی بد دعا کریں ، جیسے کہ نصرانیوں کے مباہلہ کا ذکر سورہ آل عمران میں گذر چکا ہے ، ملاحظہ ہو تفسیر آیت فمن حاجک الخ ، مشرکین سے بھی مباہلہ کا اعلان کیا گیا ملاحظہ ہو تفسیر سورہ مریم آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا 75؀ ) 19-مريم:75 ) ، یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہدے کہ جو گمراہی میں ہو رحمٰن اسے اور بڑھا دے ۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو جہل لعنتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس دیکھوں گا تو اس کی گردن ناپوں گا جب یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر یہ ایسا کرتا تو سب کے دیکھتے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اگر یہود میرے مقابلہ پر آ کر موت طلب کر تے تو یقینا وہ مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اور اگر مباہلہ کے لئے لوگ نکلتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و مال کو ہرگز نہ پاتے ۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے ، پھر فرماتا ہے موت سے تو کوئی بچہی نہیں سکتا ، جیسے سورہ نساء میں ہے ( ترجمہ ) یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو وہاں تمہیں موت پا ہی لے گی گو مضبوط محلوں میں ہو ، معجم طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے موت سے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لومڑی ہو جس پر زمین کا کچھ قرض ہو وہ اس خوف سے کہ کہیں یہ مجھ سے مانگ نہ بیٹھے ، بھاگے ، بھاگتے بھاگتے جب تھک جائے تب اپنے بھٹ میں گھس جائے جہاں گھسی اور زمین نے پھر اس سے تقاضا کیا کہ لومڑی میرا قرض ادا کردو پھر وہاں سے دم دبائے ہوئے تیزی سے بھاگی آخر یونہی بھاگتے بھاگتے ہلاک ہو گئی ۔