Surah

Information

Surah # 62 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 110 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
قُلۡ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ هَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّكُمۡ اَوۡلِيَآءُ لِلّٰهِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿6﴾
کہہ دیجئے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو دوسرے لوگوں کے سوا تو تم موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو ۔
قل يايها الذين هادوا ان زعمتم انكم اولياء لله من دون الناس فتمنوا الموت ان كنتم صدقين
Say, "O you who are Jews, if you claim that you are allies of Allah , excluding the [other] people, then wish for death, if you should be truthful."
Keh dijiye kay aey yahudiyo! Agar tumhara daawa hai kay tum Allah kay dost ho doosray logon kay siwa to tum maut ki tamanna kero agar tum sachay ho.
۔ ( اے پیغمبر ان سے ) کہو کہ : اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو ، اگر تمہارا دعوی یہ ہے کہ سارے لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے دوست ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو ۔ ( ٥ )
تم فرماؤ اے یہودیو! اگر تمہیں یہ گمان ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو اور لوگ نہیں ( ف۱٦ ) تو مرنے کی آرزو کرو ( ف۱۷ ) اگر تم سچے ہو ( ف۱۸ )
ان سے کہو ، ” اے لوگوں جو یہودی بن گئے ہو ، 10 اگر تمھیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو 11 تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو 12 ” ۔
آپ فرما دیجئے: اے یہودیو! اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ سب لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے دوست ( یعنی اولیاء ) ہو تو موت کی آرزو کرو ( کیونکہ اس کے اولیاء کو تو قبر و حشر میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی ) اگر تم ( اپنے خیال میں ) سچے ہو
سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :10 یہ نکتہ قابل توجہ ہے ۔ اَے یہودیو نہیں کہا ہے بلکہ اَے وہ لوگو جو یہودی بن گئے ہو یا جنہوں نے یہودیت اختیار کر لی ہے فرمایا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل دین جو موسیٰ علیہ السلام اور ان سے پہلے اور بعد کے انبیاء لائے تھے وہ تو اسلام ہی تھا ۔ ان انبیاء میں سے کوئی بھی یہودی نہ تھا ، اور نہ ان کے زمانے میں یہودیت پیدا ہوئی تھی ۔ یہ مذہب اس نام کے ساتھ بہت بعد کی پیداوار ہے ۔ یہ اس خاندان کی طرف منسوب ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چوتھے بیٹے یہوداہ کی نسل سے تھا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جب سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی تو یہ خاندان اس ریاست کا مالک ہوا جو یہودیہ کے نام سے موسوم ہوئی ، اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ ریاست قائم کر لی جو سامِریہ کے نام سے مشہور ہوئی ۔ پھر اسیریا نے نہ صرف یہ کہ سامریہ کو برباد کردیا بلکہ ان اسرائیلی قبیلوں کا بھی نام و نشان مٹادیا جو اس ریاست کے بانی تھے ۔ اس کے بعد صرف یہوداہ ، اور اس کے ساتھ بن یامین کی نسل باقی رہ گئی جس پر یہوداہ کی نسل کے غلبے کی وجہ سے یہود ہی کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا ۔ اس نسل کے اندر کاہنوں اور ربیوں اور احبار نے اپنے اپنے خیالات و نظریات اور رجحانات کے مطابق عقائد اور رسوم اور مذہبی ضوابط کا جو ڈھانچہ صدہا برس میں تیار کیا اس کا نام یہودیت ہے ۔ یہ ڈھانچا چوتھی صدی قبل مسیح سے بننا شروع ہوا اور پانچویں صدی عیسوی تک بنتا رہا ۔ اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی ربانی ہدایت کا بہت تھوڑا ہی عنصر اس میں شامل ہے ۔ اور اس کا حلیہ بھی اچھا خاصا بگڑ چکا ہے ۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان کو الَّذِیْنَ ھَادُوْا کہہ کر خطاب کیا گیا ہے ، یعنی اے وہ لوگو جو یہودی بن کر رہ گئے ہو ۔ ان میں سب کے سب اسرائیل ہی نہ تھے ، بلکہ وہ غیر اسرائیلی بھی تھے جنہوں نے یہودیت قبول کر لی تھی ۔ قرآن میں جہاں بنی اسرائیل کو خطاب کیا گیا ہے وہاں اے بنی اسرائیل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور جہاں مذہب یہود کے پیروؤں کو خطاب کیا گیا ہے وہاں اَلَّذِیْنَ ھَادُوْا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :11 قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس دعوے کی تفصیلات دی گئی ہیں ۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا ( البقرہ ۔ 111 ) ہمیں دوزخ کی آگ ہرگز نہ چھوئے گی ، اگر ہم کو سزا ملے گی بھی تو بس چند روز ( البقرہ ۔ 80 ، آل عمران ۔ 24 ) ۔ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ( المائدہ ۔ 18 ) ایسے ہی کچھ دعوے خود یہودیوں کی اپنی کتابوں میں بھی ملتے ہیں ۔ کم از کم یہ بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی بر گزیدہ مخلوق ( Chosen People ) کہتے ہیں اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ خدا کا ان کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے جو کسی دوسرے انسانی گروہ سے نہیں ہے ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :12 یہ بات قرآن مجید میں دوسری مرتبہ یہودیوں کو خطاب کر کے کہی گئی ہے ۔ پہلے سورہ بقرہ میں فرمایا گیا تھا ان سے کہو ، اگر آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے اللہ کے ہاں مخصوص ہے تو پھر تم موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو ۔ لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں ، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔ بلکہ تم تمام انسانوں سے بڑھ کر ، حتیٰ کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر ان کو کسی نہ کسی طرح جینے کا حریص پاؤ گے ۔ ان میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ ہزار برس جیے ، حالانکہ وہ لمبی عمر پائے تب بھی اسے یہ چیز عذاب سے نہیں بچا سکتی ۔ ان کے سارے کرتوت اللہ کی نظر میں ہیں ( آیات 94 ۔ 96 ) اب اسی بات کو پھر یہاں دہرایا گیا ہے ۔ لیکن یہ محض تکرار نہیں ہے ۔ سورہ بقرہ والی آیات میں یہ بات اس وقت کہی گئی تھی جب یہودیوں سے مسلمانوں کی کوئی جنگ نہ ہوئی تھی ۔ اور اس سورۃ میں اس کا اعادہ اس وقت کیا گیا ہے جب ان کے ساتھ متعدد معرکے پیش آنے کے بعد عرب میں آخری اور قطعی طور پر ان کا زور توڑ دیا گیا ۔ ان معرکوں نے اور ان کے اس انجام نے وہ بات تجربے اور مشاہدے سے ثابت کر دی جو پہلے سورہ بقرہ میں کہی گئی تھی ۔ مدینے اور خیبر میں یہودی طاقت بلحاظ تعداد مسلمانوں سے کسی طرح کم نہ تھی ، اور بلحاظ وسائل ان سے بہت زیادہ تھی ۔ پھر عرب کے مشرکین اور مدینے کے منافقین بھی ان کی پشت پر تھے اور مسلمانوں کو مٹانے پر تلے ہوئے تھے ۔ لیکن جس چیز نے اس نامساوی مقابلے میں مسلمانوں کو غالب اور یہودیوں کو مغلوب کیا وہ یہ تھی کہ مسلمان راہ خدا میں مرنے سے خائف تو درکنار ، تہ دل سے اس کے مشتاق تھے اور سر ہتھیلی پر لیے ہوئے میدان جنگ میں اترتے تھے ۔ کیونکہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ خدا کی راہ میں لڑ رہے ہیں ، اور وہ اس بات پر بھی کامل یقین رکھتے تھے کہ اس راہ میں شہید ہونے والے کے لیے جنت ہے ۔ اس کے بر عکس یہودیوں کا حال یہ تھا کہ وہ کسی راہ میں بھی جان دینے کے لیے تیار نہ تھے ، نہ خدا کی راہ میں ، نہ قوم کی راہ میں ، نہ خود اپنی جان اور مال اور عزت کی راہ میں ۔ انہیں صرف زندگی درکار تھی ، خواہ وہ کیسی ہی زندگی ہو ۔ اسی چیز نے ان کو بزدل بنا دیا تھا ۔