Surah

Information

Surah # 62 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 110 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿9﴾
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو ۔
يايها الذين امنوا اذا نودي للصلوة من يوم الجمعة فاسعوا الى ذكر الله و ذروا البيع ذلكم خير لكم ان كنتم تعلمون
O you who have believed, when [the adhan] is called for the prayer on the day of Jumu'ah [Friday], then proceed to the remembrance of Allah and leave trade. That is better for you, if you only knew.
Aey woh logo jo eman laye ho! Jummay kay din namaz ki azan di jaye to tum Allah kay ziker kay taraf dor paro aur khareed-o-farokht chor do. Yeh tumharay haq mein boht hi behtar hai agar tum jantay ho.
اے ایمان والو ! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو ، اور خیردو فروخت چھوڑ دو ۔ ( ٦ ) یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو ۔
اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن ( ف۲۱ ) تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو ( ف۲۲ ) اور خرید و فروخت چھوڑ دو ( ف۲۳ ) یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب پکارا جائے نماز کے لیئے جمعہ کے دن 14 تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو 15 ، یہ تمہارے لیئے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو ۔
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن ( جمعہ کی ) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر ( یعنی خطبہ و نماز ) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت ( یعنی کاروبار ) چھوڑ دو ۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو
سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :14 اس فقرے میں تین باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اس میں نماز کے لیے منادی کرنے کا ذکر ہے ۔ دوسرے یہ کہ کسی ایسی نماز کی منادی کا ذکر ہے جو خاص طور پر صرف جمعہ کے دن ہی پڑھی جانی چاہیے ۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں چیزوں کا ذکر اس طرح نہیں کیا گیا ہے کہ تم نماز کے لیے منادی کرو ، اور جمعہ کے روز ایک خاص نماز پڑھا کرو ، بلکہ انداز بیان اور سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ نماز کی منادی سن کر نماز کے لیے دوڑنے میں تساہُل برتتے تھے اور خرید و فروخت کرنے میں لگے رہتے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت صرف اس غرض کے لیے نازل فرمائی کہ لوگ اس منادی اور اس خاص نماز کی اہمیت محسوس کریں اور فرض جان کر اس کی طرف دوڑیں ۔ ان تینوں باتوں پر اگر غور کیا جائے تو ان سے یہ اصولی حقیقت قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ایسے احکام بھی دیتا تھا جو قرآن میں نازل ہوئے ، اور وہ احکام بھی اسی طرح واجب الاطاعت تھے جس طرح قرآن میں نازل ہونے والے احکام ۔ نماز کی منادی وہی اذان ہے جو آج ساری دنیا میں ہر روز پانچ وقت ہر مسجد میں دی جا رہی ہے ۔ مگر قرآن میں کسی جگہ نہ اس کے الفاظ بیان کیے گئے ہیں ، نہ کہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ نماز کے لیے لوگوں کو اس طرح پکارا کرو ۔ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ ہے ۔ قرآن میں دو جگہ صرف اس کی توثیق کی گئی ہے ، ایک اس آیت میں ، دوسرے سورہ مائدہ کی آیت 85 میں ۔ اسی طرح جمعہ کی یہ خاص نماز جو آج ساری دنیا کے مسلمان ادا کر رہے ہیں ، اس کا بھی قرآن میں نہ حکم دیا گیا ہے نہ وقت اور طریق ادا بتایا گیا ہے ۔ یہ طریقہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جاری کردہ ہے ، اور قرآن کی یہ آیت صرف اس کی اہمیت اور اس کے وجوب کی شدت بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے ۔ اس صریح دلیل کے باوجود جو شخص یہ کہتا ہے کہ شرعی احکام صرف وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں ، وہ دراصل سنت کا نہیں ، خود قرآن کا منکر ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے جمعہ کے بارے میں چند امور اور بھی جان لینے چاہییں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جمعہ دراصل ایک اسلامی اصطلاح ہے ، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اسے یوم عَرُوْبَہ کہا کرتے تھے ۔ اسلام میں جب اس کو مسلمانوں کے اجتماع کا دن قرار دیا گیا تو اس کا نام جمعہ رکھا گیا ۔ اگرچہ مؤرخین کہتے ہیں کہ کعب بن لُؤَیّ ، یا قُصَیّ بن کِلاب نے بھی اس دن کے لیے یہ نام استعمال کیا تھا ، کیونکہ اس روز وہ قریش کے لوگوں کا اجتماع کیا کرتا تھا ( فتح الباری ) ، لیکن اس کے اس فعل سے قدیم نام تبدیل نہیں ہوا ، بلکہ عام اہل عرب اسے عروبہ ہی کہتے تھے ۔ نام کی حقیقی تبدیلی اس وقت ہوئی جب اسلام میں اس دن کا یہ نیا نام رکھا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام سے پہلے ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کرنے اور اس کو شعار ملت قرار دینے کا طریقہ اہل کتاب میں موجود تھا ۔ یہودیوں کے ہاں اس غرض کے لیے سَبْت ( ہفتہ ) کا دن مقرر کیا گیا تھا ، کیونکہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دی تھی ۔ عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممیز کرنے کے لیے اپنا شعار ملت اتوار کا دن قرار دیا ۔ اگرچہ اس کا کوئی حکم نہ حضرت عیسیٰ نے دیا تھا ، نہ انجیل میں کہیں اس کا ذکر آیا ہے ، لیکن عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ صلیب پر جان دینے کے بعد حضرت عیسیٰ اسی روز قبر سے نکل کر آسمان کی طرف گئے تھے ۔ اسی بنا پر بعد کے عیسائیوں نے اپنی عبادت کا دن قرار دے لیا اور پھر 321 میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعہ سے اس کو عام تعطیل کا دن مقرر کر دیا ۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممیز کرنے کے لیے یہ دونوں دن چھوڑ کر جمعہ کو اجتماعی عبادت کے لیے اختیار کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابو مسعود انصاری کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کی فرضیت کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت سے کچھ مدت پہلے مکہ معظمہ ہی میں نازل ہوچکا تھا ۔ لیکن اس وقت آپ اس پر عمل نہیں کر سکتے تھے ۔ کیونکہ مکہ میں کوئی اجتماعی عبادت ادا کرنا ممکن نہ تھا ۔ اس لیے آپ نے ان لوگوں کو جو آپ سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ چکے تھے ، یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہاں جمعہ قائم کریں ۔ چنانچہ ابتدائی مہاجرین کے سردار حضرت مُصعب بن عُمیر نے 12 آدمیوں کے ساتھ مدینے میں پہلا جمعہ پڑھا ( طبرانی ۔ دارقطنی ) ۔ حضرت کعب بن مالک اور ابن سیرین کی روایت یہ ہے کہ اس سے بھی پہلے مدینہ کے انصار نے بطور خود ( قبل اس کے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ان کو پہنچا ہوتا ) آپس میں یہ طے کیا تھا کہ ہفتہ میں ایک دن مل کر اجتماعی عبادت کریں گے ۔ اس غرض کے لیے انہوں نے یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کو چھوڑ کر جمعہ کا دن انتخاب کیا اور پہلا جمعہ حضرت اسعد بن زُرارہ نے بنی بَیاضہ کے علاقہ میں پڑھا جس میں 40 آدمی شریک ہوئے ( مسند احمد ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، ابن حِبان ، عبد بن حُمید ، عبدالرزاق ، بیہقی ) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اسلامی ذوق خود اس وقت یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ ایسا ایک دن ہونا چاہیے جس میں زیادہ سے زیادہ مسلمان جمع ہو کر اجتماعی عبادت کریں ، اور یہ بھی اسلامی ذوق ہی کا تقاضا تھا کہ وہ دن ہفتے اور اتوار سے الگ ہو تاکہ مسلمانوں کا شعار ملت یہود و نصاریٰ کے شعار ملت سے الگ رہے ۔ یہ صحابہ کرام کی اسلامی ذہنیت کا ایک عجیب کرشمہ ہے کہ بسا اوقات ایک حکم آنے سے پہلے ہی ان کا ذوق کہہ دیتا تھا کہ اسلام کی روح فلاں چیز کا تقاضا کر رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جو اولین کام کیے ان میں سے ایک جمعہ کی اقامت بھی تھی ۔ مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے آپ پیر کے روز قُبا پہنچے ، چار دن وہاں قیام فرمایا ، پانچویں روز جمعہ کے دن وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ، راستہ میں بنی سالم بن عوف کے مقام پر تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آگیا ، اسی جگہ آپ نے پہلا جمعہ ادا فرمایا ( ابن ہشام ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد کا وقت مقرر فرمایا تھا ، یعنی وہی وقت جو ظہر کی نماز کا وقت ہے ۔ ہجرت سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر کو جو تحریری حکم آپ نے بھیجا تھا اس میں آپ کا ارشاد یہ تھا کہ : فاذا مال النھار عن شطرہ عند الزوال من یوم الجمعۃ فتقربوا الی اللہ تعالیٰ برکعتین ( دارقُطنی ) ۔ جب جمعہ کے روز دن نصف النہار سے ڈھل جائے تو دو رکعت نماز کے ذریعہ سے اللہ کے حضور تقرب حاصل کرو ۔ یہ حکم ہجرت کے بعد آپ نے قولاً بھی دیا اور عملاً بھی اسی وقت پر آپ جمعہ کی نماز پڑھاتے رہے ۔ حضرت اَنَس ، حضرت سلمہ بن اکوع ، حضرت جابر بن عبداللہ ، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت سہل بن سعد ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت بلال ( رضی اللہ عنہم ) سے اس مضمون کی روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ نماز زوال کے بعد ادا فرمایا کرتے تھے ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، نَسائی ، تِرمذی ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ امر بھی آپ کے عمل سے ثابت ہے کہ اس روز آپ ظہر کی نماز کے بجائے جمعہ کی نماز پڑھاتے تھے ، اس نماز کی صرف دو رکعتیں ہوتی تھیں ، اور اس سے پہلے آپ خطبہ ارشاد فرماتے تھے ۔ یہ فرق جمعہ کی نماز اور عام دنوں کی نماز ظہر میں تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صلوٰۃ المسافر رکعتان ، وصلوٰۃ الفجر رکعتان ، و صلوٰۃ الجمعۃ رکعتان ، تمام غیر قصر علیٰ لسان نبیکم صلی اللہ علیہ وسلم و انما قصرت الجمعۃ لاجل الخطبۃ ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے حکم کی رو سے مسافر کی نماز دو رکعت ہے ، فجر کی نماز دو رکعت ہے ، اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے ۔ یہ پوری نماز ہے ، قصر نہیں ہے ۔ اور جمعہ کو خطبہ کی خاطر ہی مختصر کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس اذان کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو خطبہ سے پہلے دی جاتی ہے ، نہ کہ وہ اذان جو خطبہ سے کافی دیر پہلے لوگوں کو یہ اطلاع دینے لیے دی جاتی ہے کہ جمعہ کا وقت شروع ہو چکا ہے ۔ حدیث میں حضرت سائب بن یزید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف ایک ہی اذان ہوتی تھے ، اور وہ امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی تھی ۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں بھی یہی عمل ہوتا رہا ۔ پھر حضرت عثمان کے دور میں جب آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے پہلے ایک اور اذان دلوانی شروع کر دی جو مدینے کے بازار میں ان کے مکان زَوراء پر دی جاتی تھی ( بخاری ، ابو داؤد ، نَسائی ، طبرانی ) ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :15 اس حکم میں ذکر سے مراد خطبہ ہے ، کیونکہ اذان کے بعد پہلا عمل جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے وہ نماز نہیں بلکہ خطبہ تھا ، اور نماز آپ ہمیشہ خطبہ کے بعد ادا فرماتے تھے ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے روز ملائکہ ہر آنے والے کا نام اس کی آمد کی ترتیب کے ساتھ لکھتے جاتے ہیں ۔ پھر : اذا خرج الامام حضرت الملٰئکۃ یستمعون الذکر ۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے نکلتا ہے تو وہ نام لکھنے بند کر دیتے ہیں اور ذکر ( یعنی خطبہ ) سننے میں لگ جاتے ہیں ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ) ۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ذکر سے مراد خطبہ ہے ۔ خود قرآن کا بیان بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ پہلے فرمایا : فَاسْعَوْا اِلیٰ ذِکْرِ اللہِ ۔ خدا کے ذکر کی طرف دوڑو ۔ پھر آگے چل کر فرمایا : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْارْضِ ۔ جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے روز عمل کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے ذکر اللہ اور پھر نماز ۔ مفسرین کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ ذکر سے مراد یا تو خطبہ ہے یا پھر خطبہ اور نماز دونوں ۔ خطبہ کے لیے ذکر اللہ کا لفظ استعمال کرنا خود یہ معنی رکھتا ہے کہ اس میں وہ مضامین ہونے چاہییں جو اللہ کی یاد سے مناسبت رکھتے ہوں ۔ مثلاً اللہ کی حمد و ثنا ، اس کے رسول پر درود و صلوۃ ، اس کے احکام اور اس کی شریعت کے مطابق عمل کی تعلیم و تلقین ، اس کے ڈرنے والے نیک بندوں کی تعریف وغیرہ ، اسی بنا پر زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ خطبہ میں ظالم حکمرانوں کی مدح و ثنا یا ان کا نام لینا اور ان کے لیے دعا کرنا ، ذکر اللہ سے کوئی دور کی مناسبت بھی نہیں رکھتا ۔ بلکہ یہ تو ذکر الشیطان ہے ۔ اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو ۔ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھاگتے ہوئے آؤ ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلدی سے جلدی وہاں پہنچنے کی کوشش کرو ۔ اردو زبان میں بھی ہم دوڑ دھوپ کرنا ، بھاگ دوڑ کرنا ، سرگرم کوشش کے معنی میں بولتے ہیں ، نہ کہ بھاگنے کے معنی میں ، اسی طرح عربی میں بھی سعی کے معنی بھاگنے ہی کے نہیں ہیں ۔ قرآن میں اکثر مقامات پر سعی کا لفظ کوشش اور جدو جہد کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً : لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ ۔ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعیٰ لَھَا سَعْیَھَا ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ ۔ وَاِذَا تَوَلّیٰ سَعیٰ فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا ۔ مفسرین نے بھی بالاتفاق اس کو اہتمام کے معنی میں لیا ہے ، ان کے نزدیک سعی یہ ہے کہ آدمی اذان کی آواز سن کر فوراً مسجد پہنچنے کی فکر میں لگ جائے ۔ اور معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے ۔ حدیث میں بھاگ کر نماز کے لیے آنے کی صاف ممانعت وارد ہوئی ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جب نماز کھڑی ہو تو اس کی طرف سکون و وقار کے ساتھ چل کر آؤ ۔ بھاگتے ہوئے نہ آؤ ، پھر جتنی نماز بھی مل جائے اس میں شامل ہو جاؤ ، اور جتنی چھوٹ جائے اسے بعد میں پورا کر لو ۔ ( صحاح ستہ ) ۔ حضرت ابو قتادہ انصاری فرماتے ہیں ، ایک مرتبہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے کہ یکایک لوگوں کے بھاگ بھاگ کر چلنے کی آواز آئی ۔ نماز ختم کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ ان لوگوں نے عرض کیا ۔ ہم نماز میں شامل ہونے کے لیے بھاگ کر آ رہے تھے ۔ فرمایا ایسا نہ کیا کرو ، نماز کے لیے جب بھی آؤ پورے سکون کے ساتھ آؤ ۔ جتنی مل جائے اس کو امام کے ساتھ پڑھ لو ، جتنی چھوٹ جائے وہ بعد میں پوری کر لو ( بخاری ، مسلم ) خرید و فروخت چھوڑ دو کا مطلب صرف خرید و فروخت ہی چھوڑنا نہیں ہے ، بلکہ نماز کے لیے جانے کی فکر اور اہتمام کے سوا ہر دوسری مصروفیت چھوڑ دینا ہے ، بیع کا ذکر خاص طور پر صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ جمعہ کے رو تجارت خوب چمکتی تھی ، آس پاس کی بستیوں کے لوگ سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو جاتے تھے ، تاجر بھی اپنا مال لے لے کر وہاں پہنچ جاتے تھے ۔ لوگ بھی اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے میں لگ جاتے تھے ۔ لیکن ممانعت کا حکم صرف بیع تک محدود نہیں ہے ، بلکہ دوسرے تمام مشاغل بھی اس کے تحت آ جاتے ہیں ، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ان سے منع فرما دیا ہے ، اس لیے فقہاء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد بیع اور ہر قسم کا کاروبار حرام ہے ۔ یہ حکم قطعی طور پر نماز جمعہ کے فرض ہونے پر دلا لت کرتا ہے ۔ اول تو اذان سنتے ہی اس کے لیے دوڑنے کی تاکید بجائے خود اس کی دلیل ہے ۔ پھر بیع جیسی حلال چیز کا اس کی خاطر حرام ہو جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ فرض ہے ۔ مزید برآں ظہر کی فرض نماز کا جمعہ کے روز ساقط ہو جانا اور نماز جمعہ کا اس کی جگہ لے لینا بھی اس کی فرضیت کا صریح ثبوت ہے ۔ کیونکہ ایک فرض اسی وقت ساقط ہوتا ہے جبکہ اس کی جگہ لینے والا فرض اس سے زیادہ اہم ہو ۔ اسی کی تائید بکثرت احادیث کرتی ہیں ، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی سخت ترین تاکید کی ہے اور اسے صاف الفاظ میں فرض قرار دیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ کسی اور شخص کو اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کر دوں اور جا کر ان لوگوں کے گھر جلادوں جو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتے ۔ ( مسند احمد ، بخاری ) حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ہم نے جمعہ کے خطبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے : لوگوں کو چاہیے کہ جمعہ چھوڑ نے سے باز آ جائیں ، ورنہ اللہ ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دے گا اور وہ غافل ہو کر رہ جائیں گے ۔ ( مسند احمد ، مسلم ، نسائی ) حضرت ابو الجعد ضحْری ، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت عبد اللہ بن ابی اَوْفیٰ کی روایات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات منقول ہوئے ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص کسی حقیقی ضرورت اور جائز عذر کے بغیر ، محض بے پروائی کی بنا پر مسلسل تین جمعے چھوڑ دے ، اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ بلکہ ایک روایت میں تو الفاظ یہ ہیں کہ اللہ اس کے دل کو منافق کا دل بنا دیتا ہے ( مسند احمد ، ابو داؤد نسائی ، ترمذی ، ابن ماجہ ، دارمی ، حاکم ، ابن حبان ، بزاز ، طبرانی فی الکبیر ) حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج سے لے کر قیامت تک جمعہ تم لوگوں پر فرض ہے ۔ جو شخص اسے ایک معمولی چیز سمجھ کر یا اس کا حق نہ مان کر اسے چھوڑے ، خدا اس کا حال درست نہ کرے ، نہ اسے برکت دے ۔ خوب سن رکھو ، اس کی نماز نماز نہیں ، اس کی زکوٰۃ زکوٰۃ نہیں ، اس کا حج حج نہیں ، اس کا روزہ روزہ نہیں ، اس کی کوئی نیکی نیکی نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے اللہ اسے معاف فرمانے والا ہے ۔ ( ابن ماجہ ، بزار ) اسی سے قریب المعنیٰ ایک روایت طبرانی نے اَوسط میں ابن عمر سے نقل کی ہے ۔ علاوہ بریں بکثرت روایات ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو بالفاظ صریح فرض اور حق واجب قرار دیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو اس کی اذان سنے ( ابو داؤد ، دارقطنی ) جابر بن عبداللہ اور ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے خطبہ میں فرمایا ۔ جان لو کہ اللہ نے تم پر نماز جمعہ فرض کی ہے ۔ ( بیہقی ) البتہ آپ نے عورت ، بچے غلام ، مریض اور مسافر کو اس فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔ حضرت حفصہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جمعہ کے لیے نکلنا ہر بالغ پر واجب ہے ( نسائی ) ۔ حضرت طارق بن شہاب کی روایت میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ جمعہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب ہے ۔ سوائے غلام ، عورت ، بچے ، اور مریض کے ( ابو داؤد ، حاکم ) حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں: جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو ، اس پر جمعہ فرض ہے ۔ الّا یہ کہ عورت ہو یا مسافر ہو ، یا غلام ہو ، یا مریض ہو ( دار قطنی ، بیہقی ) قرآن و حدیث کی ان ہی تصریحات کی وجہ سے جمعہ کی فرضیت پر پوری امت کا اجماع ہے ۔
جمعہ کا دن کیا ہے؟ اس کی اہمیت کیوں ہے؟ جمعہ کا لفظ جمع سے مشتق ہے ، وجہ اشتقاق یہ ہے کہ اس دن مسلمان بڑی بڑی مساجد میں اللہ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی وجہ ہے کہ اسی دن تمام مخلوق کامل ہوئی چھ دن میں ساری کائنات بنائی گئی ہے چھٹا دن جمعہ کا ہے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ، اسی دن جنت میں بسائے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے ، اسی دن میں قیامت قائم ہو گی ، اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے عنایت فرماتا ہے ، جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان سے پوچھا جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ علم ہے ۔ آپ نے فرمایا اسی دن تیرے ماں باپ ( یعنی آدم و حوا ) کو اللہ تعالیٰ نے جمع کیا ۔ یا یوں فرمایا کہ تمہارے باپ کو جمع کیا ۔ اسی طرح ایک موقوف حدیث میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے فاللہ اعلم ، پہلے اسے یوم العروبہ کہا جاتا تھا ، پہلی امتوں کو بھی ہر سات دن میں ایک دن دیا گیا تھا ، لیکن جمعہ کی ہدایت انہیں نہ ہوئی ، یہودیوں نے ہفتہ پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہ ہوئی تھی ، نصاریٰ نے اتوار اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتدا ہوئی ہے اور اس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو سند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا ، جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب کے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب اللہ دی گئی ، پھر ان کے اس دن میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ راست دکھائی پس لوگ اس میں بھی ہمارے پیچھے ہیں یہودی کل اور نصرانی پرسوں ، مسلم میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں کیا جائے گا ، یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لئے جمع ہونے کا حکم دے رہا ہے ، سعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذکر اللہ یعنی نماز کے لئے قصد کرو چل پڑو کوشش کرو کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہو جاؤ ، جیسے اس آیت میں سعی کوشش کے معنی میں ہے ومن ارادالاخرۃ وسعی لھا سعیھا یعنی جو شخص آخرت کا ارادہ کرے پھر اس کے لئے کوشش بھی کرے ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرائت میں بجائے فاسعوا کے فامضوا ہے ، یہ یاد رہے کہ نماز کے لئے دوڑ کر جانا منع ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے سکینت اور وقار کے ساتھ چلو ، دوڑو نہیں ، جو پاؤ پڑھ لو ، جو فوت ہو ادا کر لو ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نماز میں تھے کہ لوگوں کے پاؤں کی آہٹ زور زور سے سنی ، فارغ ہو کر فرمایا کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا حضرت ہم جلدی جلدی نماز میں شامل ہوئے فرمایا ایسا نہ کرو نماز کو اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ جو پاؤ پڑھ لو جو چھوٹ جائے پوری کر لو ، حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لئے آؤ یہ تو منع ہے بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع خضوع ہے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو ، جیسے اور جگہ ہے فلما بلغ معہ السعی حضرت ذبیح اللہ جب خلیل اللہ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے ، جمعہ کے لئے آنے والے کو غسل بھی کرنا چاہئے ، بخاری مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز کے لئے جانے کا ارادہ کرے وہ غسل کر لیا کرے ، اور حدیث میں ہے جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے اور روایت میں ہے کہ ہر بالغ پر ساتویں دن سر اور جسم کا دھونا ہے ، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ وہ دن جمعہ کا دن ہے ، سنن اربعہ میں ہے جو شخص جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کرے اور سویرے سے ہی مسجد کی طرف چل دے پیدل جائے سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر بیٹھے خطبے کو کان لگا کر سنے لغو کام نہ کرے تو اسے ہر ایک قدم کے بدلے سال بھر کے روزوں اور سال بھر کے قیام کا ثواب ہے ، بخاری مسلم میں ہے جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرے ، اول ساعت میں جائے اس نے گویا ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا دوسری ساعت میں جانے والا مثل گائے کی قربانی کرنے والے کے ہے ، تیسری ساعت میں جانے والا مرغ راہ اللہ میں تصدق کرنے والے کی طرح ہے ، پانچویں ساعت میں جانے والا انڈا راہ اللہ دینے والے جیسا ہے ، پھر جب امام آئے فرشتے خطبہ سننے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں ، مستحب ہے کہ جعہ کے دن اپنی طاقت کے مطابق اچھا لباس پہنے خوشبو لگائے مسواک کرے اور صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لئے آئے ، ایک حدیث میں غسل کے بیان کے ساتھ ہی مسواک کرنا اور خوشبو ملنا بھی ہے ، مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور اپنے گھر والوں کو خوشبو ملے اگر ہو اور اچھا لباس پہنے پھر مسجد میں آئے اور کچھ نوافل پڑھے اگر جی چاہے اور کسی کے ایذاء نہ دے ( یعنی گردنیں پھلانگ کر نہ آئے نہ کسی بیٹھے ہوئے کو ہٹائے ) پھر جب امام آ جائے اور خطبہ شروع ہو خاموشی سے سنے تو اس کے گناہ جو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے ہوں سب کا کفارہ ہو جاتا ہے ، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر بیان فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کسی پر کیا حرج ہے اگر وہ اپنے روز مرہ کے محنتی لباس کے علاوہ دو کپڑے خرید کر جمعہ کے لئے مخصوص رکھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان اس وقت فرمایا جب لوگوں پر وہی معمولی چادریں دیکھیں تو فرمایا کہ اگر طاقت ہو تو ایسا کیوں نہ کر لو ۔ جس اذان کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی اذان تھی جب آپ گھر سے تشریف لاتے منبر پر جاتے اور آپ کے بیٹھ جانے کے بعد آپ کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی ، اس سے پہلے کی اذان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھی اسے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر زیادہ کیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف اسی وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کہنے کے لئے بیٹھ جاتا ، حضرت عثمان کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان پر کہلوائی زیادہ کی اس مکان کا نام زورا تھا مسجد سے قریب سب سے بلند یہی مکان تھا ۔ حضرت مکحول سے ابن ابی حاتم میں رویات ہے کہ اذان صرف ایک ہی تھی جب امام آتا تھا اس کے بعد صرف تکبیر ہوتی تھی ، جب نماز کھڑی ہونے لگے ، اسی اذان کے وقت خرید و فروخت حرام ہوتی ہے ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پہلے کی اذان کا حکم صرف اس لئے دیا تھا کہ لوگ جمع ہو جائیں ۔ جمعہ میں آنے کا حکم آزاد مردوں کو ہے عورتوں ، غلاموں اور بچوں کو نہیں ، مسافر مریض اور تیمار دار اور ایسے ہی اور عذر والے بھی معذور گنے گئے ہیں جیسے کہ کتب فروغ میں اس کا ثبوت موجود ہے ۔ پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ دو یعنی ذکر اللہ کے لئے چل پڑو تجارت کو ترک کر دو ، جب نماز جمعہ کی اذان ہوجائے علماء کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق ہے کہ اذان کے بعد خرید و فروخت حرام ہے ، اس میں اختلاف ہے کہ دینے والا اگر دے تو وہ بھی صحیح ہے یا نہیں؟ ظاہر آیت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی صحیح نہ ٹھہرے گا واللہ اعلم ، پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ کر ذکر اللہ اور نماز کی طرف تمہارا آنا ہی تمہارے حق میں دین دنیا کی بہتری کا باعث ہے اگر تم میں علم ہو ۔ ہاں جب نماز سے فراغت ہو جائے تو اس مجمع سے چلے جانا اور اللہ کے فضل کی تلاش میں لگ جانا ، تمہارے لئے حلال ہے ۔ عراک بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور یہ دعا پڑھتے ( ترجمہ ) یعنی اے اللہ میں نے تیری آواز پر حاضری دی اور تیری فرض کردہ نماز ادا کی پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا ، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما تو سب سے بہتر روزی رساں ہے ( ابن ابی حاتم ) اس آیت کو پیش نظر رکھ کر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد خرید و فروخت کرے اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ خرید فروخت کی حالت میں بھی ذکر اللہ کیا کرو دنیا کے نفع میں اس قدر مشغول نہ ہو جاؤ کہ آخروی نفع بھول بیٹھو ۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی بازار جائے اور وہاں ( ترجمہ ) پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ برائیاں معاف فرماتا ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بندہ کثیر الذکر اسی وقت کہلاتا ہے جبکہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر وقت اللہ کی یاد کرتا رہے ۔