Surah

Information

Surah # 63 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 104 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِذَا جَآءَكَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوۡلُ اللّٰهِ ‌ۘ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوۡلُهٗ ؕ وَاللّٰهُ يَشۡهَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ لَـكٰذِبُوۡنَ‌ ۚ‏ ﴿1﴾
تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اس کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعًا جھوٹے ہیں ۔
اذا جاءك المنفقون قالوا نشهد انك لرسول الله و الله يعلم انك لرسوله و الله يشهد ان المنفقين لكذبون
When the hypocrites come to you, [O Muhammad], they say, "We testify that you are the Messenger of Allah ." And Allah knows that you are His Messenger, and Allah testifies that the hypocrites are liars.
Tumharay pass jab munafiq aatay hain to kehtay hain kay hum iss baat kay gawah hain kay be-shak aap Allah kay rasool hain aur Allah janta hai yaqeenan aap uss kay rasool hain aur Allah gawahi deta hai kay yeh munafiq qata’an jhootay hain.
جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ واقعی اس کے رسول ہیں ، اور اللہ ( یہ بھی ) گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق لوگ جھوٹے ہیں ۔
جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں ( ف۲ ) کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور بیشک یقیناً اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو ، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں ( ف۳ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ۔ ” ہاں اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو ، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں 1 ۔
۔ ( اے حبیبِ مکرّم! ) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں ، اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اُس کے رسول ہیں ، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً منافق لوگ جھوٹے ہیں
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :1 یعنی جو بات وہ زبان سے کہہ رہے ہیں وہ ہے تو بجائے خود سچی ، لیکن چونکہ ان کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جسے وہ زبان سے ظاہر کر رہے ہیں ، اس لیے اپنے اس قول میں وہ جھو ٹے ہیں کہ وہ آپ کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے ۔ ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے ۔ دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ ۔ اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو ، اور شہادت دینے والے کا عقیدہ بھی وہی ہو جس کو وہ زبان سے بیان کر رہا ہو ، تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہو گا ۔ اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو ، لیکن شہادت دینے والا اسی کے حق ہونے کا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے ، اور ایک دوسرے لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے ، کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہا ہے وہ بجائے خود غلط ہے ۔ اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کے خلاف ہو ، تو ہم اس لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کہ وہ صحیح بات کی شہادت دے رہا ہے ، اور اس لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جس کا وہ زبان سے اظہار کر رہا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک مومن اگر اسلام کو بر حق کہے تو وہ ہر لحاظ سے سچا ہے ۔ لیکن ایک یہودی اپنی یہودیت پر قائم رہتے ہوئے اس دین کو اگر بر حق کہے تو بات اس کی سچی ہو گی مگر شہادت اس کی جھوٹی قرار دی جائے گی ، کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف شہادت دے رہا ہے ۔ اور اگر وہ اس دین کو باطل کہے ، تو ہم کہیں گے کہ بات اس کی جھوٹی ہے ، مگر شہادت وہ اپنے عقیدے کے مطابق سچی دے رہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ منافقوں کے نفاق کو ظاہر کرتا ہے کہ گویہ تیرے پاس آ کر قسمیں کھا کھا کر اپنے اسلام کا اظہار کرتے ہیں تیری رسالت کا اقرار کرتے ہیں مگر درصال دل کے کھوٹے ہیں ، فی الواقع آپ رسول اللہ بھی ہیں ، ان کا یہ قول بھی ہے مگر چونکہ دل میں اس کا کوئی اثر نہیں ، لہذا یہ جھوٹے ہیں ۔ یہ تجھے رسول اللہ مانتے ہیں ، اس بارے میں اگر یہ سچے ہونے کے لئے قسمیں بھی کھائیں لیکن آپ یقین نہ کیجئے ۔ یہ قسمیں تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے یہ تو اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کا ایک ذریعہ ہیں ، مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان سے ہوشیار ہیں کہیں انہیں سچا ایماندار سمجھ کر کسی بات میں ان کی تقلید نہ کرنے لگیں کہ یہ اسلام کے رنگ میں تم کو کفر کا ارتکاب کرا دیں ، یہ بد اعمال لوگ اللہ کی راہ سے دور ہیں ۔ ضحاک کی قرأت میں ابمانھم الف کی زیر کے ساتھ ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی ظاہری تصدیق کو اپنے لئے تقیہ بنا لیا ہے کہ قتل سے اور حکم کفر سے دنیا میں بچ جائیں ۔ یہ نفاق ان کے دلوں میں اس گناہ کی شومی کے باعث رچ گیا ہے کہ ایمان سے پھر کر کفر کی طرف اور ہدایت سے ہٹ کر ضلالت کی جانب آ گئے ہیں ، اب دلوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے اور بات کی تہہ کو پہنچنے کی قابلیت سلب ہو چکی ہے ، بظاہر تو خوش رو خوش گو ہیں اس فصاحت اور بلاغت سے گفتگو کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ دوسرے کے دل کو مائل کرلیں ، لیکن باطن میں بڑے کھوٹے بڑے کمزور دل والے نامرد اور بدنیت ہیں ، جہاں کوئی بھی واقعہ رونما ہوا اور سمجھ بیٹھے کہ ہائے مرے ، اور جگہ ہے اشحتہ علیکم الخ تمہارے مقابلہ میں بخل کرتے ہیں ، پھر جس وقت خوف ہوتا ہے تو تمہاری طرف اس طرح آنکھیں پھیر پھیر کر دیکھتے ہیں گویا کسی شخص پر موت کی بیہوشی طاری ہے ، پھر جب خوف چلا جاتا ہے تو تمہیں اپنی بدکلامی سے ایذاء دیتے ہیں اور مال غنیمت کی حرص میں نہ کہنے کی باتیں کہہ گذرتے ہیں یہ بے ایمان ہیں ان کے اعمال غارت ہیں اللہ پر یہ امر نہایت ہی آسان ہے ، پس ان کی یہ آوازیں خالی پیٹ کے ڈھول کی بلند بانگ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہی تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں اور ثقہ اور مسکین صورتوں کے دھوکے میں نہ آجانا ، اللہ انہیں برباد کرے ذرا سوچیں تو کیوں ہدایت کو چھوڑ کر بےراہی پر چل رہے ہیں؟ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافقوں کی بہت سی علامتیں ہیں جن سے وہ پہچان لئے جاتے ہیں ان کا سلام لعنت ہے ان کی خوراک لوٹ مار ہے ان کی غنیمت حرام اور خیانت ہے وہ مسجدوں کی نزدیکی ناپسند کرتے ہیں وہ نمازوں کے لئے آخری وقت آتے ہیں تکبر اور نحوت والے ہوتے ہیں نرمی اور سلوک تواضع اور انکساری سے محروم ہوتے ہیں نہ خود ان کاموں کو کریں نہ دوسروں کے ان کاموں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھیں رات کی لکڑیاں اور دن کے شور و غل کرنیوالے اور روایت میں ہے دن کو خوب کھانے پینے والے اور رات کو خشک لکڑیوں کی طرح پڑ رہنے والے ۔