Surah

Information

Surah # 63 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 104 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِتَّخَذُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ جُنَّةً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ اِنَّهُمۡ سَآءَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿2﴾
انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پس اللہ کی راہ سے رک گئے بے شک برا ہے وہ کام جو یہ کر رہے ہیں ۔
اتخذوا ايمانهم جنة فصدوا عن سبيل الله انهم ساء ما كانوا يعملون
They have taken their oaths as a cover, so they averted [people] from the way of Allah . Indeed, it was evil that they were doing.
Enhon ney apni qasmon ko dhaal bana rakha hai pus Allah ki raah say ruk gaye be-shak bura hai woh kaam jo yeh ker rahey hain.
انہوں نے اپنی قسموں کو ایک ڈھال بنا رکھا ہے ۔ ( ١ ) پھر یہ لوگ دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت ہی برے ہیں وہ کام جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں ۔
اور انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال ٹھہرالیا ( ف٤ ) تو اللہ کی راہ سے روکا ( ف۵ ) بیشک وہ بہت ہی برے کام کرتے ہیں ( ف٦ )
انہوں نے اپنی قسمتوں کو ڈھال بنا رکھا 2 ہے اور اس طرح یہ اللہ کے راستے سے خود رکتے اور دنیا کو روکتے ہیں 3 ۔ کیسی بری حرکت ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔
انہوں نے اپنی قَسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پھر یہ ( لوگوں کو ) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ، بیشک وہ بہت ہی برا ( کام ) ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :2 یعنی اپنے مسلمان اور مومن ہونے کا یقین دلانے کے لیے جو قَسمیں وہ کھاتے ہیں ، ان سے وہ ڈھال کا کام لیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے غصے سے بچے رہیں اور ان کے ساتھ مسلمان وہ برتاؤ نہ کر سکیں جو کھُلے کھُلے دشمنوں سے کیا جاتا ہے ۔ ان قَسموں سے مراد وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو وہ بالعموم اپنے ایمان کا یقین دلانے کے لیے کھایا کرتے تھے ، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو اپنی کسی منافقانہ حرکت کے پکڑے جانے پر وہ کھاتے تھے تاکہ مسلمانوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ حرکت انہوں نے منافقت کی بنا پر نہیں کی تھی ، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو عبداللہ بن ابی نے حضرت زید بن اَرقم کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانے کے لیے کھائی تھیں ۔ ان سب احتمالات کے ساتھ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو قَسم قرار دیا ہو کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ اس آخری احتمال کی بنا پر فقہاء کے درمیان یہ بحث پیدا ہوئی ہے کہ کوئی شخص میں شہادت دیتا ہوں کے الفاظ کہہ کر کوئی بات بیان کرے تو آیا اسے قَسم یا حلف ( Oath ) قرار دیا جائے گا یا نہیں ۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ( امام زُفَر کے سوا ) اور امام سفیان ثوری اور امام اَوزاعی اسے حلف ( شرعی اصطلاح میں یمین ) قرار دیتے ہیں ۔ امام زفر کہتے ہیں کہ یہ حلف نہیں ہے ۔ امام مالک سے دو قول مروی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ مطلقاً حلف ہے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر اس نے شہادت دیتا ہوں کے الفاظ کہتے وقت نیت یہ کی ہو کہ خدا کی قَسم میں شہادت دیتا ہوں ، یا خدا کو گواہ کر کے میں شہادت دیتا ہوں تو اس صورت میں یہ حلفیہ بیان ہو گا ورنہ نہیں ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر کہنے والا یہ الفاظ بھی کہے کہ میں خدا کو گواہ کر کے شہادت دیتا ہوں تب بھی اس کا یہ بیان حلفیہ بیان نہ ہو گا ، الا یہ الفاظ اس نے حلف اٹھانے کی نیت سے کہے ہوں ( احکام القرآن للجصاص ۔ احکام القرآن لابن العربی ) ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :3 صد کا لفظ عربی زبان میں لازم بھی ہے اور متعدی بھی ۔ اس لیے صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اللہ کے راستے سے خود رکتے ہیں ، اور یہ بھی کہ وہ اس راستے سے دوسروں کو روکتے ہیں ۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں دونوں معنی درج کر دیے ہیں ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اپنی ان قَسموں کے ذریعہ سے مسلمانوں کے اندر اپنی جگہ محفوظ کر لینے کے بعد وہ اپنے لیے ایمان کے تقاضے پورے نہ کرنے اور خدا و رسول کی اطاعت سے پہلو تہی کرنے کی آسانیاں پیدا کر لیتے ہیں ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اپنی ان جھوٹی قَسموں کی آڑ میں وہ شکار کھیلتے ہیں ، مسلمان بن کر مسلمانوں کی جماعت میں اندر سے رخنے ڈالتے ہیں ، مسلمانوں کے اسرار سے واقف ہو کر دشمنوں کو ان کی خبریں پہنچاتے ہیں ، اسلام سے غیر مسلموں کو بد گمان کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں شبہات اور وسوسے ڈالنے کے لیے وہ وہ حربے استعمال کرتے ہیں جو صرف ایک مسلمان بنا ہوا منافق ہی استعمال کر سکتا ہے ، کھلا کھلا دشمن اسلام ان سے کام نہیں لے سکتا ۔