Surah

Information

Surah # 63 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 104 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡهِكُمۡ اَمۡوَالُكُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُكُمۡ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ‌ۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰلِكَ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ‏ ﴿9﴾
اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں ۔
يايها الذين امنوا لا تلهكم اموالكم و لا اولادكم عن ذكر الله و من يفعل ذلك فاولىك هم الخسرون
O you who have believed, let not your wealth and your children divert you from remembrance of Allah . And whoever does that - then those are the losers.
Aey musalmano! Tumharay maal aur tumhari auladen tumhen Allah kay ziker say ghafil na ker den aur jo aisa keren woh baray hi ziyan kaar log hain.
اے ایمان والو ! تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کرنے پائیں ۔ اور جو لوگ ایسا کریں گے ، وہ بڑے گھاٹے کا سودا کرنے والے ہوں گے ۔
اے ایمان والو تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے ( ف۲۱ ) اور جو ایسا کرے ( ف۲۲ ) تو وہی لوگ نقصان میں ہیں ( ف۲۳ )
اے 17 لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں 18 ۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں ۔
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد ( کہیں ) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کر دیں ، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :17 اب تمام ان لوگوں کو جو دائرہ اسلام میں داخل ہوں ، قطع نظر اس سے کہ سچے مومن ہوں یا محض زبانی اقرار ایمان کرنے والے ، عام خطاب کر کے ایک کلمۂ نصیحت ارشاد فرمایا جا رہا ہے ۔ یہ بات اس سے پہلے ہم کئی مرتبہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے کبھی تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے ، اور کبھی اس کے مخاطب منافقین ہوتے ہیں کیونکہ وہ زبانی اقرار ایمان کرنے والے ہوا کرتے ہیں ، اور کبھی ہر طرح کے مسلمان بالعموم اس سے مراد ہوتے ہیں ۔ کلام کا موقع و محل یہ بتا دیتا ہے کہ کہاں کونسا گروہ ان الفاظ کی مخاطب ہے ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :18 مال اور اولاد کا ذکر تو خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان زیادہ تر انہی کے مفاد کی خاطر ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر منافقت ، یا ضعف ایمان ، یا فسق و نافرمانی میں مبتلا ہوتا ہے ، ورنہ در حقیقت مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو انسان کو اپنے اندر اتنا مشغول کر لے کہ وہ خدا کی یاد سے غافل ہو جائے ۔ یہ یاد خدا سے غفلت ہی ساری خرابیوں کی اصل جڑ ہے ۔ اگر انسان کو یہ یاد رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے ، اور وہ خدا اس کے تمام اعمال سے با خبر ہے ، اور اس کے سامنے جا کر ایک دن اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ، تو وہ کبھی کسی گمراہی و بد عملی میں مبتلا نہ ہو ، اور بشری کمزوری سے اس کا قدم اگر کسی وقت پھسل بھی جائے تو ہوش آتے ہی وہ فوراً سنبھل جائے ۔
مال و دولت کی خود سپردگی خرابی کی جڑ ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بکثرت ذکر اللہ کیا کریں اور تنبیہہ کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر ذکر اللہ سے غافل ہو جاؤ ، پھر فرماتا ہے کہ جو ذکر اللہ سے غافل ہو جائے اور دنیا کی زنت ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے اپنے رب کی اطاعت میں سست پڑ جائے ، وہ اپنا نقصان آپ کرنے والا ہے ۔ پھر اپنی اطاعت میں مال خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے کہا پنی موت سے پہلے خرچ کر لو ، موت کے وقت کی بےبسی دیکھ کر نادم ہونا اور امیدیں باندھنا کچھ نفع نہ دے گا ، اس وقت انسان چاہے گا کہ تھوڑی سی دیر کے لئے بھی اگر چھوڑ دیا جائے تو جو کچھ نیک عمل ہو سکے کر لے اور اپنا مال بھی دل کھول کر راہ اللہ دے لے ، لیکن آہ اب وقت کہاں آنے والی مصیبت آن پڑی اور نہ ٹلنے والی آفت سر پر کھڑی ہو گئی اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) الخ ، یعنی لوگوں کو ہوشیار کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا تو یہ ظالم کہنے لگیں گے اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت مل جائے تاکہ ہم تیری دعوت قبول کرلیں اور تیرے رسولوں کی اتباع کریں ۔ اس آیت میں تو کافروں کی مذمت کا ذکر ہے ، دوسری آیت میں نیک عمل میں کمی کرنے والوں کے افسوس کا بیان اس طرح ہوا ہے ۔ ( ترجمہ ) یعنی جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میرے رب مجھے لوٹا دے تو میں نیک اعمال کرلوں ۔ یہاں فرماتا ہے موت کا وقت آ گے پیچھے نہیں ہوتا ، اللہ خود خبر رکھنے والا ہے کہ کون اپنے قول میں صادق ہے اور اپنے سوال میں حق بجانب ہے یہ لوگ تو اگر لوٹائے جائیں تو پھر ان باتوں کو بھول جائیں گے اور وہی کچھ کرنے لگ جائیں گے جو اس سے پہلے کرتے رہے ، ترمذی میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ شخص جو مالدار ہو اور اس نے حج نہ کیا ہو یا زکوٰۃ نہ دی ہو وہ موت کے وقت دنیا میں واپس لوٹنے کی آرزو کرتا ہے ایک شخص نے کہا حضرت اللہ کا خوف کیجئے واپسی کی آرزو تو کافر کرتے ہیں آپ نے فرمایا جلدی کیوں کرتے ہو؟ سنو قرآن فرماتا ہے پھر آپ نے یہ پورا رکوع تلاوت کر سنایا اس نے پوچھا زکوٰۃ کتنے میں واجب ہے فرمایا دو سو اور اس سے زیادہ میں پوچھا حج کب فرض ہو جاتا ہے فرمایا جب راہ خرچ اور سواری خرچ کی طاقت ہو ، ایک مرفوع روایت بھی اسی طرح مروی ہے لیکن موقوف ہی زیادہ صحیح ہے ، ضحاک کی روایت ابن عباس والیبھی منقطع ہے ، دسری سند میں ایک راوی ابو جناب کلبی ہے وہ بھی ضعیف ہے ، واللہ اعلم ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ نے زیادتی عمر کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا جب اجل آ جائے پھر موخر نہیں ہوتی زیادتی عمر صرف اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو نیک صالح اولاد دے جو اسکے لئے اس کے مرنے کے بعد دعا کرتی رہے اور دعا اسے اس کی قبر میں پہنچتی رہے ۔ اللہ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورہ منافقون کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ